معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ایک سیاستدان جسے غلط سمجھا گیا
وہ بھی کیا دن تھے جب پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔ میں وہ دن یاد کرتا ہوں تو فرط مسرت سے میری آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔امن و امان کا یہ عالم تھا کہ لوگ دن دہاڑے بازاروں میں سونا اچھالتے گزر جاتے تھے مگر کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ ان کے مال پر بری نظر ڈال سکے۔ حکومتی اخراجات کم سے کم کرائےگئے تھے۔ ملک کا وزیراعظم تعیش کی زندگی ترک کرکے پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا۔ اس نے وزیر اعظم ہائوس میں یونیورسٹی کھول دی تھی اور اپنے دفاتر ٹائون شپ کے ایک پانچ مرلے کے مکان میں منتقل کردیئے تھے اور خود پکی ٹھٹھی کے ایک تین مرلہ مکان میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ وزیر اعظم سائیکل پر اپنے دفتر جاتا تھا، اس نے چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز بھی مسمار کر دیئے تھے اور وہاںبچوں کے لئے پارک تعمیر کردیئے گئے۔ اس کے دور میں عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دی گئیں اور یوں بے روزگاری کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ بے گھر لوگوں کے لئے پچاس لاکھ مکان تعمیر کئے گئے اور یوں ان میں رہنے والے کروڑوں افراد کو ان کی اپنی چھت مہیا کردی گئی۔ امن و امان کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے گھروں کو تالے لگانا بند کردیئےتھے اور چوری چکاری کا کوئی کھٹکا نہ تھا۔ خواتین دن اور شام کے اوقات میں اپنے کاموں کے لئے گھر سے نکلتیں اور کسی کی کیا مجال تھی کہ ان پر بری نظر ڈال سکے۔
انصاف کا یہ عالم تھا کہ اس ضمن میں تمام تاخیری حربے ختم کردیئے گئے تھے، ادھر ملزم پر الزام لگتا تھا اور ادھر اسے قید خانے میں پھینک دیا جاتا تھا۔ سیاست دانوں کو پھانسی کی کوٹھڑی میں رکھا گیا، عدالتیں بمشکل انہیں ضمانت پر رہا کر پاتی تھیں،صحافت کے تقدس کو بھی کچھ لوگوں نے بدنام کر دیا تھا، یہ لوگ اس نیک نام حکومت پر بے جا اعتراضات کرتے چنانچہ ان کا بندوبست بھی کیاگیا، مگر یہ اللہ جانے کس ہڈی کے بنے ہوئے تھے کہ اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آتے تھے۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ کچھ صحافی زبانِ طعن دراز کرتے تھے اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے تھے، مگر باز نہیں آ تے تھے، انہیں نوکریوں سے نکلوایا گیا، ان پر روزگار کے دروازے بند کئے گئے، مگر ان زبان درازوں کی زبانیں پھر بھی بند نہ کی جاسکیں، حتیٰ کہ ایک بہت بڑے میڈیا مالک کوبغیر کسی الزام کے قید کرایا گیا، اس کے اشتہارات بند کردیئے گئے مگر اس کے حوصلوں میں کمی نہ آئی۔
ریاست مدینہ کے وزیراعظم نہایت کفایت شعار تھے، لوگ ان سے ملنے کے لئے آتے اور اگر کھانے کا وقت ہوتا تو وزیر اعظم ان کے سامنے کھانا کھاتے، وہ ان مفت خوروں کے لئے سرکاری یا ذاتی طور پر کچھ نہ منگواتے تھے۔ کئی بار اپنے مہمانوں کے سامنے چائے پیتے اور ملنے والے جو ان کے سچے عاشق تھے انہیں چائے پیتے دیکھ کر یہی محسوس کرتے کہ وہ خود چائے پی رہے ہیں۔ وزیراعظم ہر وقت حکومتی امور میں الجھے رہتے، ان کے پاس کسی غیر ضروری کام کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ اپنے کسی ساتھی کی وفات پر اس کے جنازے میں بھی نہ جاتے اور مرحوم جو ان کا عمر بھر کا ساتھی تھا اس کی شکل دیکھنا گوارا نہ کرتے کہ ان کیلئے یہ صدمہ برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ وزیراعظم دوسری جماعتوں کے سیاست دانوں کے لئے دل میں نفرت نہیں محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ انہیں بہت پیارے پیارے نام دے رکھے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو فضلو کہتے اور شہباز شریف کو پیار سے ’’شوباز‘‘ کہہ کر پکارتے۔اگر ان کے مخالفین کو پتہ چل جاتا کہ وزیر اعظم خود پرست نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان اور اپنی ذات کو الگ نہیں سمجھتے تو وہ ان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔ وزیر اعظم نے اپنی حکومت جانے پر کہا کہ اس سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم پھینک دیا جاتا، یا کہ اگر نیوٹرلز تماشا دیکھتے رہے تو پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے، ایٹمی پروگرام رول بیک ہو جائے گا اور ہر طرف تباہی ہی تباہی ہوگی۔ ان کی ان باتوں کو بہت غلط طور پر لیا گیا، لوگ لفظوں پر غور کرتے رہے کہنے والے کے خلوص کو نہیں دیکھا۔
باتیں اور بھی بہت سی کہنے کی ہیں،بس اتنا کہتا ہوں کہ میں نے ان کے بارے میں جس حسنِ ظن کا مظاہرہ کیا ہے کاش ہماری پوری قوم اسی حسنِ ظن کا مظاہرہ کرے اور باہمی غلط فہمیاں دور کرنےکے لئے ایک دوسرے کے قریب آیا جائے، پاکستان سے محبت کا یہی تقاضا ہے۔
اور آخر میں راولپنڈی کے احمد رضا راجہ کی ایک خوبصورت رومانی غزل:
روتے نہ ہوں فرقت میں در و بام تو کافر
یاد آئی نہ ہو تیری کسی شام تو کافر
ملتے تھے جہاں ہم کبھی اُس باغ میں اب تک
پیڑوں پہ نہ لکھا ہو ترا نام تو کافر
مجھ کو بھی کہیں کا نہیں رکھے گی جدائی
کر دے نہ اگر تیرا بھی یہ کام تو کافر
سَر اپنے میں لے لوں گا ہر اک جرمِ محبت
آنے دوں کوئی اُس پہ جو الزام تو کافر
جو خاص بہت خود کو سمجھتا ہے وہی شخص
اک روز نہ ہو جائے بہت عام تو کافر
تم جتنے معزز ہو بھلے شرط لگا لو
اس عشق میں ہو جاؤ نہ بدنام تو کافر
میں صاف بتا آیا اُسے دل کی تمنا
رکھا ہو رضا کوئی جو ابہام تو کافر