توشہ خانے کا خصوصی آڈٹ ،مسائل کا انبار کھڑا ہوگیا

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے توشہ خانے کے خصوصی آڈٹ کی وجہ سے مسائل کا انبار کھڑا ہوگیا ہے کیونکہ توشہ خانہ کے معاملات سے جڑی کوئی چیز ٹھیک سے کام نہیں کر رہی۔

آڈٹ میں توشہ خانہ رولز 1973ء میں بے قاعدگی اور غیر مجاز تبدیلیوں سے لے کر چالان کے عوض حاصل کیے گئے تحائف کی رسیدیں جمع نہ کیے جانے، نمایاں مقامات پر رکھے گئے تحائف کی طبعی تصدیق نہ کرانے، اصل حالت اور اصل تعداد میں رکھے گئے تحائف کی تصدیق کیلئے سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے، ٹائم لائن کے مطابق توشہ خانہ کے سامان کی بے ضابطہ نیلامی، تحائف کی جانچ کیلئے نجی اپریزر کا بے قاعدہ اندراج اور اختیارات کی منظوری کے بغیر تحائف کو غیر قانونی اور غیر مجاز انداز سے ڈسپوز کرنے کے عمل تک سب کچھ غلط پایا گیا ہے۔

توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران، یہ بات سامنے آئی کہ 1973 میں بنائے گئے توشہ خانہ رولز میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی گئیں جیسا کہ 1973 میں کیا گیا تھا۔

قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم کیلئے قواعد میں نرمی کی گئی۔ 2001، 2004، 2006، 2007، 2011، 2017، اور 2018 میں بنائے گئے نئے طریقہ کار کے ذریعے اصولوں کو شروع سے ہی تبدیل کر دیا گیا تھا۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توشہ خانہ کے قواعد میں ترامیم اور پالیسی تبدیل کرنا اور قواعد میں نرمی بے قاعدہ اور غیر مجاز تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری کی جائے اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کیبنٹ ڈویژن (توشہ خانہ) کی انتظامیہ نے 2002 سے 28 فروری 2023 تک بینک چالان کے ذریعے 226.987 ملین روپے وصول کنندگان سے تحائف کی اسسمنٹ ویلیو کے فیصدی حصے کے طور پر جمع کیے۔

توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران دیکھا گیا کہ کابینہ ڈویژن نے بینک چالان کے اعداد و شمار کو وفاقی ٹریژری آفس سے ری کنسائل نہیں کیا۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ معاملے کی انکوائری کی جائے، ہر چالان کی تصدیق کی جائے اور رسیدوں کو ری کنسائل نہ کیے جانے کے حوالے سے ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران کابینہ ڈویژن کو مندر جہ ذیل دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی، ۱) 1990ء سے 2002ء تک توشہ خانہ کو وصول ہونے والے تمام تحائف کی فہرست، ۲) تمام تحائف کی فائلیں (اصل میں) جن میں 1990 سے 2002 تک فائلوں کا انڈیکس رجسٹر ساتھ ہو، ۳) توشہ خانہ کے منظور شدہ رولز / ریگولیشنز/ایس او پیز کی نقول اور 1990 سے 2002 تک اور اس کے بعد کی گئی ترامیم کی معلومات، ۴) فرسٹ انٹری رجسٹر (FER)، توشہ خانہ اسٹاک رجسٹر اور بینک چالان رجسٹر 1990 سے 2002 تک، ۵) 1990 سے 2002 تک مختلف سرکاری عمارتوں میں رکھے گئے تحائف اور ان کی طبعی تصدیق کا سرٹیفکیٹ، ۶) 1990سے 2002 تک بینک چالان کے ساتھ نیلام ہونے والے تحائف کی فہرست۔ تاہم، انتظامیہ نے جواب دیا کہ توشہ خانہ پر بین وزارتی کمیٹی کی سفارش کے مطابق، وفاقی کابینہ نے 22؍ فروری 2023 کو توشہ خانہ کا 2002ء کے بعد کا ریکارڈ سامنے لانے کی منظوری دی۔ 2002ء سے قبل کا ریکارڈ خفیہ ہے لہٰذا فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ کے مطابق، توشہ خانہ میں آنے والے ایسے تحائف جو سرکاری عمارتوں یا اداروں یا سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کی سرکاری رہائش گاہوں میں نمایاں مقامات پر رکھے گئے تھے ان کے حوالے سے کابینہ ڈویژن کی انتظامیہ کیلئے ان تحائف کی ہر سال کی پہلی سہ ماہی پر طبعی تصدیق کرانا ضروری تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ معاملے کی انکوائری کی جائے اور بلا تاخیر طریقہ کار کے تحت ضروری تصدیق کی جائے۔

توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران، کابینہ ڈویژن سے درخواست کی گئی تھی کہ ۱) تحائف کی اصل شکل اور تعداد میں موجود ہونے کیلئے طبعی تصدیق کا سرٹیفکیٹ فراہم کیا جائے لیکن انتظامیہ نے جواب دیا کہ اصل شکل اور تعداد میں اشیاء کی فزیکل تصدیق میں وقت لگے گا جس میں ہر چیز کی قیمت اور معیار کا جائزہ لینے کیلئے ایک سرکاری اور نجی ماہر کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔

رپورٹ میں 9 مئی 2023ء کے خط کا حوالہ دیا گیا ہے کے مطابق، ’’اس وقت کابینہ ڈویژن کے پاس کوئی نجی اپریزر نہیں ہے، جب اور جب بھرتی کا عمل مکمل ہو جائے گا تو مطلوبہ طبعی تصدیق کی جائے گی اور رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔

اس معاملے میں بھی، آڈٹ ریکارڈ کی تیاری کے علاوہ ذمہ داری کے تعین کیلئے انکوائری کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ توشہ خانہ کے طریقہ کار کے مطابق انتظامیہ کو سال میں کم از کم ایک یا دو مرتبہ نیلامی کے ذریعے تحائف فروخت کرنے کی ضرورت تھی لیکن انتظامیہ وقت پر نیلامی کرنے میں ناکام رہی۔

خصوصی آڈٹ رپورٹ میں تحائف کی جانچ کیلئے نجی اپریزر کی خدمات کے حصول میں بے ضابطگی کی نشاندہی بھی کی گئی۔ یہ دیکھا گیا کہ 2016 میں دو کمپنیاں بطور درآمد اور برآمد کنندہ رجسٹرڈ تھیں لیکن ان کے پاس اشیاء کی قیمت کا جائزہ لینے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

آڈٹ رپورٹ میں رائے پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کمپنی کو کو ہیروں، سونے، گھڑیوں، زیورات، دستکاری وغیرہ کی ایوالیوشن کا تجربہ دیکھے بغیر منتخب کیا گیا تھا اور فرم کو غیر مناسب انداز سے فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حقائق جاننے کیلئے انکوائری کرائی جائے اور نجی ایولیوٹر کے بے قاعدہ اندراج میں ملوث افراد کا تعین کیا جائے۔

آڈٹ ٹیم نے کابینہ ڈویژن کی انتظامیہ سے توشہ خانہ میں تحائف کو فروخت کرنے کے حوالے سے اختیارات تفویض کرنے کے احکامات کی نقول فراہم کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔ توشہ خانہ کی انتظامیہ نے بتایا کہ 18دسمبر 2018ء سے قبل کابینہ ڈویژن میں تحائف فروخت کرنے کیلئے کسی کو اختیارات تفویض نہیں کیے گئے تھے۔

اس حوالے سے پہلا خط 18؍ دسمبر 2018ء جبکہ دوسرا 18؍ جون 2021ء کو جاری کیا گیا۔ 18 دسمبر 2018ء سے قبل افسران کی جانب سے اختیارات کے تفویض کے بغیر منظوری دی جاتی تھی۔

توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ سیکرٹری کابینہ کے علاوہ دیگر معاملات کو کسی اور کو اختیارات تفویض کیا جانا بے قاعدہ اور غیر مجاز تھا۔ نمونے کی جانچ کی بنیاد پر معلوم ہوا کہ 13.985ملین روپے کے کیسز ڈپٹی سیکرٹری ایڈمنسٹریشن اور 28.520ملین روپے جوائنٹ سیکرٹری ایڈمنسٹریشن نے نمٹائے۔

تحائف کی قیمت کے تعین (ایوالیوشن) اور تحائف فروخت کرنے میں بھی بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ سفارش کرتا ہے کہ حقائق جاننے کیلئے انکوائری کرائی جائے اور اختیارات کے بے قاعدہ اور غیر مجاز استعمال میں ملوث افراد کا پتہ لگایا جائے۔