معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سیاسی گھڑمس میں پیدا گیروں کا موج میلہ
اللہ مجھے بدگمانی سے محفوظ رکھے مگر جو سچ ہے وہ تو سچ ہی ہے۔ ملک کی اجتماعی اخلاقی حالت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف مصیبت پڑی ہو تو دوسری طرف بھائی لوگ اس افراتفری میں اپنا اُلو سیدھا کر لیتے ہیں۔ احمد پور شرقیہ کے قریب پٹرول سے بھرا ہوا ٹرالر الٹ جائے تو اردگرد کے دیہات والے ٹرالر سے بہتے ہوئے پٹرول کی لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔ اس لوٹ مار اور مالِ مفت سمیٹنے کے چکر میں اس پٹرول میں آگ لگ جانے کے باعث درجنوں لوگ جل کر کوئلہ بن گئے۔ یہی حال روڈو سلطان کے بازار میں ٹرالر سے بہتے ہوئے پٹرول کو لوٹنے والوں کے ساتھ ہوا۔ کئی جگہوں پر ایسا ہوا کہ بسوں کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کسی نے زخمی کے ہاتھ سے گھڑی اتار لی اور کسی نے جاں بحق ہونے والے کی جیب سے بٹوا نکال لیا۔ صادق آباد کے قریب ٹرین حادثے کے دوران متاثرین کیلئے اردگرد کے دیہات سے آنے والی مدد بھی اسی معاشرے سے تعلق رکھنے والوں کے ایثار کی داستان ہے مگر ایسے واقعات کم کم ہیں۔ ہم بنیادی طور پر ایک پنجابی محاورے کی عملی تصویر ہیں جس میں کنویں میں گرنے والے گدھے کو آختہ کرنے کا ذکر ہے۔ یہی حال اس وقت ملکِ عزیز میں جاری سیاسی کشمکش بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں سیاسی گھڑمس کا ہے کہ اس دوران چالاک چوہے زیر زمین سرنگیں بنا کر خاموشی سے اپنے اپنے ہدف تک پہنچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم مسافر دیارِ غیر سے جب پاکستان میں فون کریں تو لامحالہ ملتان میں گھر والوں کو یا دوستوں کو ہی کرتے ہیں۔ اس دوران باخبر دوستوں سے بات ہو تو ایک سوال لازمی کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ شہر کی سناؤ‘ کوئی نئی تازہ واردات کی خبر؟ شہر کے معاملات کیسے چل رہے ہیں؟ جواباً دوست اپنی اپنی معلومات کے مطابق خبروں سے بھی آگاہ کرتے ہیں اور حالات و واقعات میں ہونے والی پیش رفت بھی بتاتے ہیں۔ کئی دوست تو اپنی خواہشات کو خبر بنا کر سناتے ہیں اور کئی دوست واقعتاً خبر سناتے ہیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو ان خبروں میں سے شاید ہی کوئی ایسی خبر ہو جسے سن کر پردیس میں دل کو تسلی ملتی ہو۔ بیشتر خبریں اور اطلاعات کسی نہ کسی واردات کے بارے میں ہوتی ہیں۔ کسی دو نمبری سے متعلق ہوتی ہیں اور کسی پیدا گیری کی کہانی سے منسلک ہوتی ہیں۔
ان ملنے والی خبروں سے جہاں ملتان کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے‘ مجموعی ملکی اخلاقی انحطاط اور مچنے والی لوٹ مار کا اندازہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ جب یہ مسافر اپنے دوستوں سے ملتان میں ہونے والی وارداتوں کی خبر لیتا ہے تو یہ سالم دیگ میں سے ایک نوالہ چاول کھا کر پوری دیگ کا اندازہ لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔ بھلا ملتان کون سا مریخ پر واقع ہوا ہے کہ یہاں وقوع پذیر ہونے والی وارداتیں ملک کے باقی حصوں میں ہونے والی وارداتوں کا تسلسل نہ ہوں۔ سو قارئین! ملتان کی ان وارداتوں کو میں بھی صرف ملتان کی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہونے والی وارداتوں کا مقامی نمونہ سمجھتا ہوں۔ آپ بھی ان وارداتوں کو محض ملتان کی مقامی وارداتیں سمجھ کر صرف میرا یا اہلِ ملتان کا مسئلہ نہ سمجھیں بلکہ ملتان کے آئینے میں اپنا اپنا شہر‘ اپنا اپنا علاقہ اور اپنا اپنا مسئلہ دیکھیں تو آپ کو ملتان میں ہونے والی وارداتیں بالکل ویسے ہی اپنی لگیں گی جیسے اس مسافر کو لگ رہی ہیں۔
2018ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو عمران خان کو اور بڑے مسائل کا سامنا درپیش تھا۔ سب سے بڑی سنگل پارٹی ہونے کے باوجود اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہ تھی۔ ایسے میں جہانگیر ترین کے جہاز میں آزاد اراکین کو گھیر گھار کر لانے کا مشکل اور مشقت طلب کام آن پڑا۔ اوپر سے ایسے لوگوں کو منا کر راضی کرنے کا مرحلہ درپیش تھا جن کو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دے چکے تھے۔ پھر ایسے بندے کو نہ صرف قبول کرنا پڑا بلکہ وزیر بنانے کیلئے دل پر ٹنوں وزنی پتھر رکھنا جسے وہ چپڑاسی بنانے کے روادار نہ تھے۔ اب آپ خود بتائیں جب بندہ ایسی مشکل صورتحال میں گھرا ہو اسے کیا خبر کہ ملتان میں کیا ہو رہا ہے؟ اس افراتفری کے عالم میں میرے پیارے شاہ محمود قریشی نے ملتان مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین اپنے ایک بندے کو لگوا لیا۔ چلیں خیر ہے اپنے کسی بندے کو لگوا لیا تو اس میں کسی حیرانی یا اچنبھے کی کیا بات ہے؟ پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی سیاسی پارٹی حکمرانی میں آتی ہے تو یہی کچھ کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو انہوں نے ہمارے بہت عزیز دوست اور مسلم لیگ (ن) کے صدر بلال بٹ کو ایم ڈی اے کا چیئرمین لگا دیا اور پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ہمارے پیارے شاہ محمود قریشی نے اپنے چہیتے رانا جبار کو اس عہدے پر لگوا لیا۔ کرپشن کی شکایات پر موصوف کو اس عہدے سے فارغ کیا گیا تو شاہ محمود قریشی نے کسی دوسرے کی خاطر سٹینڈ نہ لینے کی اپنی شہرت کے برعکس اس فراغت پر لاہور جا کر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کی اور مستعفی ہونے کی دھمکی دے کر دوبارہ رانا جبار کو ایم ڈی اے کا چیئرمین بنوا لیا۔ خیر بات ہو رہی تھی ملتان مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین کی کہ ایسے عہدوں پر سیاسی وفاداریوں کے باعث تقرریاں کوئی حیرانی کی بات نہیں؛ تاہم اس تقرری میں جو رمز پوشیدہ ہے وہ یہ کہ موصوف کے نام کے ساتھ اس کی وجہ شہرت اس طرح نتھی ہو چکی تھی کہ اس سابقے کے بغیر کوئی اسے جانتا ہی نہیں تھا۔ موصوف کا عوامی نام طاہر پتی والا تھا اور اس پتی والا کے سابقے کی وجہ یہ تھی کہ پورے جنوبی پنجاب میں جعلی پتی کا جتنا بھی کام ہے اس میں سب سے اونچا نام انہی کا تھا؛ تاہم یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری‘ کھینچا تانی اور مار دھاڑ سے بھرپور ڈرامے کے دوران پیدا گیر اپنے کام کو نہایت خاموشی سے کر رہے ہیں۔
ایک نہایت ہی معتبر اور باخبر صحافی دوست افتخار الحسن سے بات ہوئی تو وہ بتانے لگا کہ ادھر پنجاب میں حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی کی اقتدار کی جنگ کے دوران جبکہ سب کی نظریں لاہور پر لگی ہوئی تھیں شہباز شریف کے چہیتے ایک صحافی نے جو میاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں نشتر ہسپتال ملتان میں ہونے والی ہر ٹرانسفر‘ پوسٹنگ اور بھرتیوں سمیت سیاہ و سفید کا مالک تھا اب پھر ایکشن میں ہے اور اس نے حمزہ شہباز کے تختِ لاہور پر قبضے کی آڑ میں نشتر ہسپتال پر پھر قبضہ کر لیا ہے اور بیس گریڈ کی ایم ایس کی پوسٹ پر ایک جونیئر اور کم گریڈ والے شخص کی تعیناتی کروا کر جہاں اپنا الو سیدھا کیا ہے وہیں اب اپنا مستقل ڈیرہ بھی لگا لیا ہے۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ شاہ محمود قریشی نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران خاموشی سے ملتان میں فوڈ کا چیئرمین بھی اپنا بندہ لگوا لیا تھا اور ایک خبر کے مطابق وہ روزانہ حکومت کے رعایتی نرخ والے 1500تھیلوں کے سرکاری اور مارکیٹ ریٹ میں ساڑھے تین سو روپے فی تھیلے کے فرق کے حساب سے روزانہ سوا پانچ لاکھ کی دیہاڑی بنا رہا تھا‘ اس کو نئی پنجاب حکومت نے ہٹا دیا۔ جیسے ہی17جولائی کی رات زین قریشی کی جیت کا اعلان ہوا موصوف سابقہ چیئرمین فوڈ نے زبردستی جا کر اپنے پرانے دفتر پر قبضہ کر لیا۔ اگلے روز انتظامیہ نے اسے دفتر سے زبردستی بیدخل کر کے تالے لگوائے۔ اب پنجاب کی نئی صورتحال کیا بنتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ اگر حمزہ شہباز رہ گئے تو نشتر پر شہباز شریف کے چہیتے کا قبضہ جاری رہے گا، بصورت دیگر فوڈ کے چیئرمین کی دیہاڑی چالو ہو جائے گی‘ اوپر کی افراتفری میں نیچے والے موج میلہ کر رہے ہیں۔