معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
فوری الیکشن کرانے کا آسان راستہ
پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنےاور عمران خان کو مسیحا اور متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنے کا پروجیکٹ پورے زوروشور سے اس وقت شروع ہوا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی۔2013کے انتخابات میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہ ہوا تو انہوں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا حالانکہ بعد میں عدالتی کمیشن نے ان انتخابات کو مجموعی طور پر شفاف قرار دیا۔
نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کی تو لندن پلان کے تحت طاہر القادری اور چوہدری برادران کو ساتھ ملا کر اسلام آباد میں دھرنوں کا منصوبہ تیار کیا گیا ۔
تب عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آبپارہ سے آگے نہیں جائیں گے لیکن ایک دن اچانک وعدہ خلافی کرکے ڈی چوک کی طرف چل پڑے۔اس عمل میں کئی لوگ زخمی ہوئے ۔ پولیس کو مارا گیا۔ جیو کے دفتر پر روز پتھرائو ہوتا رہا۔
پولیس بے بس اس لئے تھی کہ عمران خان کو درپردہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا۔ بجلی کے بل جلائے ۔ ڈی چوک میں قبریں کھودی گئیں۔ سپریم کورٹ کی عمارت کی بے حرمتی کی گئی۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر چڑھائی کی گئی ۔
حکومت تو ختم نہ ہوسکی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کا تنائو ان دھرنوں کی وجہ سے مزید بڑھ گیا کیونکہ نواز شریف کے پاس فائلوں کاانبار پڑا تھا جس میں خفیہ اداروں کی طرف سے دھرنے کی پشت پناہی کے شواہد تھے۔
ان دھرنوں سے جنم لینے والے تنائو نے بعد میں ٹھکرائو کی شکل اختیار کی اور ڈان لیکس کے بعد ٹویٹ کے معاملے سے نواز شریف کی رخصتی کا عمل شروع ہوا۔ انہیں پانامہ کی آڑ میں رخصت کیا گیا لیکن جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو شیخ رشید اور عمران خان کی اخلاقی سپورٹ سے ایک مذہبی جماعت کو ان کے خلاف اتارا گیا۔
اس کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا جینا حرام کروا دیا گیا۔ پھر ۲۰۱۸ کے انتخابات کامرحلہ آیا۔ انتخابات سے قبل نیب، میڈیا اور عدالتوں کو بے دریغ استعمال کرکے مسلم لیگ(ن) اور عمران مخالف جماعتوں کے رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔
ان دنوں رات کو عدالتوں کے کھلنے کی بڑی بات کی جاتی ہے لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ شیخ رشید کو جتوانے کے لئے حنیف عباسی کی تاریخ آگے لاکر انہیں رات گئے سزا سنائی گئی تھی۔پھر انتخابی مہم اس انداز میں چلی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی وغیرہ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے جبکہ پی ٹی آئی کو آزاد چھوڑدیا گیا تھا۔
اس کے باوجود کام نہیں چلا تو آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا گیا۔ گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر ٹھپے لگائے گئے ۔ سابق ڈپٹی اسپیکر کا کیس اس کی کلاسیک مثال ہے ۔
وہ عملا تیسرے نمبر پر آئے تھے لیکن الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق ان کے حق میں پچاس ہزار سے زائد بوگس ووٹ ڈالے گئے جس کی خود پی ٹی آئی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بھی گواہی دے چکے ہیں۔ یہ سب چیزیں دیکھ کر میں نے انتخابات سے قبل ٹی وی اور اخبار کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ میں اس میں ووٹ ڈالوں گا اور نہ انہیں انتخابات مانتا ہوں۔
افسوسناک طور پر اس پورے عمل میں فوج اور اس کے اداروں کو بری طرح ملوث کیا گیا۔ مثلاً جب میں نے الیکشن ٹرانسمیشن میں پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کے شواہد پیش کرنے شروع کئے تو آئی ایس پی آر کے دبائو پر مجھے ٹرانسمیشن سے باہر نکالا گیا۔ اس سے بھی فوج کے وقار کو بہت نقصان پہنچا جب آئی ایس پی آر کی طرف سے میڈیا کو کہا گیا کہ وہ عمران خان کی جعلی حکومت کے بارے میں منفی رپورٹنگ نہ کرے۔ اس کے باوجود پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت نہ ملی تو پنجاب اور مرکز میں کئی ممبران کو وفاداری بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح ایم کیوایم کو اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر حکومت کے ساتھ بیساکھی کے طور پر بٹھایا گیا ۔ ہر کوئی جانتا تھاکہ عمران خان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے چنانچہ عمران خان حکومت کی وجہ سے فوج بدنام ہوتی رہی ۔ عمران خان کی حکومت نے معیشت کا ستیاناس کیا۔اپوزیشن کو ساتھ چلانے کی بجائے بدترین انتقام سے کام لیا۔ خارجہ محاذ پر پاکستان کا کوئی دوست نہ چھوڑا۔ علی ہذہ القیاس۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوا کہ نہ صرف ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عمران حکومت کی غیرآئینی سپورٹ سے اس کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے چنانچہ انہوں نے آئینی کردار تک محدود رہ کر نیوٹرل بن جانے کا فیصلہ کیا ۔
اب چونکہ حکومت ان غیرقانونی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی تھی، وہ ہٹ گئیں تو حکومت دھڑام سے گر گئی۔ پہلے تو عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈال کر یہ کوشش کی کہ وہ دوبارہ جانبدار ہوکر ماضی کی طرح غیرآئینی طور پر ان کو سپورٹ کرے لیکن جب انہوں نے استقامت دکھا کر نیوٹرل رہنے کا فیصلہ برقرار رکھا تو عمران خان نے حسب عادت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے دی۔
ساتھ پہلے سے اعلان کیا کہ یہ خونی مارچ ہوگا۔ دوسری طرف تذبذب کا شکار حکومت مارچ کی دھمکی کے جواب میں ڈٹ گئی اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا وقت پورا کرلے گی ۔
چنانچہ اب عمران خان اور ان کے اہم رہنما خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہورہے ہیں اور دوسری طرف حکومت نے سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کیا ۔اب ایک طرف مارچ کہنے والے پہلے سے کہہ چکے ہیں یہ خونی مارچ ہوگا اور دوسری طرف ابھی مارچ شروع نہیں ہوا کہ لاہور میں پی ٹی آئی کے ایک بندے کے ہاتھوں ایک پولیس کانسٹیبل قتل ہوگیا ۔
دوسری طرف حکومت نے گرفتاریاں شروع کی ہیں ۔ حالانکہ عمران خان کا مقصد صرف حکومت کو جلد الیکشن پر مجبور کرانا ہو تو ان کے پاس ایک ایسا آپشن موجود ہے جس میں انہیں اور ان کی جماعت کے لیڈروں کو کچھ قربانی دینی پڑے گی لیکن کسی انسانی جان کو خطرہ نہیں ہوگا۔ وہ آپشن یہ ہے کہ وہ پختونخوا اسمبلی توڑ دے ۔
قومی اسمبلی سے استعفوں کے ڈرامے کی بجائے اسپیکر کے سامنے تصدیق کرادے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہوجائے۔ ایسا ہوا تو حکومت کے پاس نئے الیکشن کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا لیکن نہ جانے کیوں اس آپشن کی بجائے وہ خون بہانے پر مصر ہیں۔