معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
چھ وکٹوں کی قیمت پر
یہ 10 سال پرانی بات ہے‘ ہم بچوں کی کارکردگی دیکھنے اسکول آئے تھے‘ میرے ساتھ ایک شخص بیٹھا تھا‘ اس کے چہرے پر کسی قسم کی ندامت‘ کوئی پریشانی نہیں تھی‘ میں اس کا اطمینان دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ وہ بچے کا رزلٹ کارڈ دیکھ رہا تھا‘ مسکرا رہا تھا اور ٹیچر کو یقین دلا رہا تھا ’’ہم اگلی ٹرم میں امپروو کر لیں گے‘‘ جب کہ میں کبھی اپنے بچے کا رزلٹ دیکھتا تھا‘ اپنے بیٹے کی طرف دیکھتا تھا۔
اس شخص کی طرف دیکھتا تھا‘ اس کے بیٹے کی طرف دیکھتا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھتا تھا‘ میرے بچے کے نمبر بہت کم تھے‘ میں اس پر نادم بھی تھا اور پریشان بھی جب کہ میرے ساتھ بیٹھے صاحب کا بیٹا ساتوں مضامین میں فیل تھا لیکن ان کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی‘ ان کا بیٹا بھی مطمئن تھا‘ میں دنیا کے اس عجیب و غریب باپ بیٹے کے ریسپانس پر حیران تھا۔
ہم سب اپنے بچوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں‘ ہم انھیں ہمیشہ ٹاپ کرتے دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہم انھیں دس‘ بارہ سال کی عمر میں افلاطون بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کے ذہین ترین بچے بھی۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی والد یا والدہ ہو گی جو اپنے بچوں کے لیے میڈل‘ ایوارڈ یا پرائز کی خواہش نہ رکھتی ہو‘ جو اپنے بچوں کے لیے تالیاں نہ سننا چاہتی ہو لیکن جب ہمارے بچے فیل ہو جاتے ہیں یا ان کے نمبرزکم آتے ہیں یا یہ آخری درجوں میں پاس ہوتے ہیں تو ہماری خواہشوں کو دھچکا لگتا ہے اور ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔
میں بچوں کی وجہ سے چودہ‘ پندرہ سال اسکولوں کے چکر لگاتا رہا‘ میں نے ان چودہ‘ پندرہ برسوں میں بڑے بڑے مشہور‘ نامور اور طرم خان قسم کے لوگوں کو ٹیچرز‘ ٹیوٹرز اور پرنسپلز کے سامنے روتے دیکھا‘ میں نے دیکھا وہ لوگ جو پورے زمانے کو آگے لگا کر پھرتے ہیں وہ اپنے بچوں کی وجہ سے اسکول میں ناک سے لکیریں نکال رہے ہیں اور بچے اطمینان سے انھیں لکیریں نکالتے دیکھ رہے ہیں۔ اولاد والدین کی باپ ہوتی ہے۔
یہ آپ کی نفسیات‘ آپ کی کم زوریوں اور آپ کی خامیوں سے واقف ہوتی ہے چناںچہ یہ آپ کو تگنی کا ناچ نچا دیتی ہے اور میں نے اسکولوں میں والدین کو یہ ناچ ناچتے دیکھا۔ میں بھی بہت جلد پریشان ہونے والا باپ ہوں‘ میں بھی دوسرے والدین کی طرح بہت جلد ’’پینک‘‘ کر جاتا ہوں لیکن وہ مجھ سے اور میرے جیسے والدین سے بالکل مختلف والد تھا‘ وہ بیٹے کی ناکامی پر مسکرا رہا تھا‘ رزلٹ دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ بیٹے کو سمجھا رہا تھا ’’ہمیں پڑھائی پر بھی توجہ دینا پڑے گی‘‘ میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔
اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھاما اور یوں ہم دونوں دوست بن گئے۔میں نے اس سے پوچھا ’’آپ بچے کے رزلٹ پر دکھی کیوں نہیں ہیں؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بیٹے سے پوچھا ’’بیٹا آپ کے نمبر کم کیوں آئے ہیں؟‘‘ اس کے بچے نے بڑے آرام سے جواب دیا ’’پاپا میں نے پڑھائی نہیں کی تھی‘‘ اس نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ بچے نے جواب دیا ’’میں وڈیوگیمز کھیلتا رہا اور فلمیں دیکھتا رہا‘‘ اس نے بیٹے سے پوچھا ’’آپ اب کیا کرو گے؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’میں چھ مہینے فلمیں نہیں دیکھوں گا۔
وڈیو گیمز بھی نہیں کھیلوں گا اور پڑھائی پر توجہ دوں گا‘‘ اس نے بچے سے پوچھا ’’کیا آپ ٹاپ کر جائیں گے؟‘‘ بیٹے نے انکار میں سر ہلایا اور بولا ’’نہیں بہت مشکل ہے‘ میں دس سے پندرہ کے درمیان کوئی پوزیشن لے لوں گا‘‘ باپ نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’پاپا میرے کانسپٹ کلیئر نہیں ہیں‘ مجھے فزکس‘ کیمسٹری اور میتھ کی سمجھ نہیں آتی‘ رٹا لگانے سے آپ نے منع کر رکھا ہے چناںچہ میں پہلی پوزیشن حاصل نہیں کر سکوں گا‘‘ اس نے مکالمہ ادھورا چھوڑا اور میری طرف دیکھنے لگااور میں باپ اور بیٹے کی اس عجیب وغریب گفتگو کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
وہ بولا ’’تعلیم اور تربیت میں جسم اور روح کا تعلق ہوتا ہے‘ تعلیم جسم ہوتی ہے اور تربیت روح‘ دنیا میں جس طرح روح کے بغیر جسم زندہ نہیں رہ سکتے بالکل اسی طرح تربیت کے بغیر تعلیم بھی بے معنی ہے‘ ہم اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم دلاتے ہیں‘ ہم انھیں مہنگے اسکول‘ مہنگے ٹیوٹر اور مہنگی کتابیں فراہم کرتے ہیں‘ ہم انھیں مہنگے لباس‘ گاڑیاں اور خوراک بھی دیتے ہیں لیکن ہم ان کی تربیت کا بندوبست نہیں کرتے‘ ہم انھیں سچ بولنے‘ اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے‘ اپنی خامیوں کو سمجھنے‘ ارادہ کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی تربیت نہیں دیتے‘ ہم انھیں آہستہ بولنے‘ دوسروں کی رائے کا احترام کرنے‘ برداشت کرنے‘ فٹ پاتھ پر چلنے‘ دوسروں کو راستہ دینے‘ سرخ اشارے پر رکنے‘ سلام میں پہل کرنے‘ سچ بولنے اور تمام لوگوں کو اپنے برابر سمجھنے کی ٹریننگ نہیں دیتے‘ ‘ وہ رکا اور دوبارہ بولا ’’ لیکن میں نے اپنے بچوں کو یہ ٹریننگ دے رکھی ہے‘ ان کے نمبرز کم آ جاتے ہیں۔
یہ فیل بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرتے‘ یہ کسی کا حق نہیں مارتے‘ یہ کسی مجبور‘ کسی معذور کا مذاق نہیں اڑاتے‘ یہ ہارن نہیں بجاتے‘ یہ فٹ پاتھ پر نہیں تھوکتے‘ یہ منہ کھول کر جمائی نہیں لیتے‘ یہ چوری نہیں کرتے اور یہ جھوٹ نہیں بولتے‘‘ وہ رکااور بولا ’’میرے بچے نمبر کسی بھی وقت لے لیں گے‘ یہ کسی بھی وقت پڑھنا شروع کر دیں گے لیکن اگر ان کی تربیت کا وقت گزر گیا تو یہ زندگی میں کبھی اچھے انسان نہیں بن سکیں گے۔
یہ حوصلہ مند نہیں ہو سکیں گے‘ آپ خود سوچیے اگر امتحان میں ٹاپ کرنے والا بچہ بدتمیز ہو‘ وہ ظالم ہو‘ وہ انسان کو انسان نہ سمجھتا ہو‘ وہ دھوکے باز اور جھوٹا ہو توآپ اسے کتنی دیر برداشت کریں گے‘ آپ اس کا کتنی دیر احترام کریں گے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’ ہم دوسروں کو کام یابیوں‘ سر ٹیفکیٹ‘ ایوارڈز اور تمغوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتے‘ ہم انھیں ان کے ’’بی ہیوئیرز‘‘ کی وجہ سے پسند یا نا پسند کرتے ہیں مگر پاکستان کا کوئی اسکول بچوں کے ’’بی ہیوئیرز‘‘ پر توجہ نہیں دیتا‘ ہم بچوں کو آرٹس سے لے کر سائنس اور میوزک سے لے کر بزنس تک تمام مضامین پڑھا دیتے ہیں لیکن ہمارے بچے اچھے شہری کیسے بن سکتے ہیں اور انھیں سوسائٹی میں ’’بی ہیو‘‘ کیسے کرنا چاہیے پاکستان کا کوئی اسکول انھیں یہ ٹریننگ نہیں دیتا‘ پاکستان کے کسی اسکول میں ’’بی ہیوئیرز‘‘ کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا‘ سچ کیوں اور کیسے بولنا چاہیے‘ دوسروں کی رائے کا احترام کیسے کرنا چاہیے۔
ہم شک سے کیسے بچ سکتے ہیں‘ ہم غصہ کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں‘ ہم خود کو حسد سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں‘ ہم زندگی میں آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں‘ ہم اپنے ملازمین‘ اپنے ساتھیوں کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں اور ہم ماحول کو صاف کیسے رکھ سکتے ہیں؟ پاکستان کا کوئی اسکول بچوں کو اس کی ٹریننگ نہیں دیتا لیکن میں نے اپنے بچوں کو اس کی ٹریننگ دے رکھی ہے‘ میں نے تربیت کو تعلیم پر فوقیت دی ہے‘‘۔
میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا آپ کا بیٹا ٹاپ کرے‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’میرے دل میں بھی یہ خواہش پید اہوتی ہے لیکن پھر مجھے ارفع کریم رندھاوا یاد آ جاتی ہے‘ یہ پاکستان کی ذہین ترین بچی تھی‘ ارفع نے 2004میں نو سال کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی ایس) کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ یہ دنیا کی کم عمر ترین سافٹ وئیر انجینئر تھی‘ بل گیٹس نے اس کی ذہانت سے متاثر ہو کر اسے امریکا بلوایا‘ دنیا کے تمام بڑے چینلز اور اخبارات نے اس بچی کو کوریج دی‘ ارفع نے نو‘ دس سال کی عمر میں پاکستان کے تمام بڑے ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
اس نے دوبئی میں دنیا کے بڑے آئی ٹی پروفیشنلز میں پاکستان کی نمایندگی بھی کی‘ یہ مائیکرو سافٹ کی بارسلونا کانفرنس میں بھی شریک ہوئی اور اس نے دس سال کی عمر میں جہاز بھی اڑالیالیکن پھر کیا ہوا؟ارفع کو 22دسمبر 2011کو سولہ سال کی عمر میں مرگی کا دورہ پڑا‘ یہ قومے میں چلی گئی ‘ یہ 23دن موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا رہی‘ بل گیٹس نے اس کے لیے امریکی ڈاکٹرز کی ٹیم کا بندوبست بھی کیا مگر یہ 14جنوری 2012 کو وفات پا گئی ‘ یہ پاکستان کی پہچان بھی تھی اور کروڑوں بچوں کے لیے مشعل راہ بھی لیکن اس کے باوجود میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے۔
ارفع کی اس ساری ذہانت‘ سارے ایوارڈز اور ساری کام یابیوں کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہم جن چیزوں کو اپنا کمال‘ اپنی کام یابی اور اپنی اچیومنٹ سمجھ لیتے ہیں وہ ایک ٹھوکر‘ ایک معمولی سے ایکسیڈنٹ‘ ایک چھوٹے سے ہارٹ اٹیک اور چند لمحوں کی برین ہیمبرج کی مار ہوتی ہیں اور ہم چند لمحوں میں عالمی مسکین بن جاتے ہیں۔
ہماری کام یابی‘ ہماری اچیومنٹ ترس بن جاتی ہے لہٰذا ہمیں ٹاپ پر پہنچنے کی سعی کے ساتھ ساتھ صحت مند نارمل زندگی کی خواہش کرنی چاہیے‘ہمیں ہائی ویلیوز کے ساتھ چھکا ضرور مارنا چاہیے مگر زندگی کی چھ وکٹوں کی قیمت پر نہیں کیوںکہ آپ کام یاب ہو کر عبرت ناک انجام کا شکار ہو گئے یا آپ ٹاپ کرنے کے بعد بدتمیز ہو گئے تو اس کام یابی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ یہ بے معنی ہوگی‘‘۔