معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ایک سیٹی کی آواز پر!
میرا پورا بچپن اور جوانی اسی کوشش اور خواہش میں گزری کہ اپنے دوستوں کی طرح مجھے سیٹی بجانا آ جائے۔ وہ درمیان والی دو انگلیاں زبان تلے رکھتے تھے پھر ہوا کا دبائو شاید دانتوں کے درمیان ڈالتے اور پھر سیٹی برآمد ہوتی اور اس خواہش کی عدم تکمیل نے مجھے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا تھا۔
اور اب یہ کچھ دن پہلے کی بات ہے میں نے ایسے ہی دو انگلیاں سامنے والے دو دانتوں کے درمیان رکھیں اور ہوا کا دبائو ڈالا تو میری سیٹی کی آواز چار دانگ عالم میں گونجی، میں کبھی خود کو دیکھتا کبھی اس عجوبے پر غور کرتا اور یوں مجھے ایک بار پھر یقینِ کامل ہوگیا کہ مقدر میں جو ہو وہ بہرحال مل کر رہتا ہے۔ میں نے یہ تجربہ لبرٹی مارکیٹ میں کار سے اترتے ہوئے کیا تھا۔ میں یہاں خریداری کے لیے آیا تھا، شاپنگ تو میں بھول گیا اور میرے ذہن پر سیٹی سوار ہوگئی۔ ایک بچے کو جب کوئی کھلونا مل جائے تو وہ اس وقت تک اس کی جان نہیں چھوڑتا جب تک وہ کھلونا اس کی جان نہ چھوڑ دے۔ اب میرا بھی جی سیٹی بجانے کو مچل رہا تھا، مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیںاور اگر نہیں جانتے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک معزز انسان ہوں چنانچہ اس وقت مجھے اپنا معزز ہونا بہت کھٹک رہاتھا کیونکہ سیٹی میرے دونوں دانتوں اور زبان کے درمیان مچل رہی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی انگلیاں زبان کے نیچے رکھیں اور ایسی زور دار سیٹی بجائی کہ شاپنگ کیلئے آئے ہوئے مرد و زن کے ہجوم میں کہرام مچ گیا، ہر کوئی ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اور ان سب سے زیادہ میری نظریں اس بدتمیز کو تلاش کر رہی تھیں جس نے یہ بے ہودہ حرکت کی تھی۔ کچھ دیر بعد تک جب ملزم کا پتہ نہ چلا تو لوگ ایک بار پھر اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
مگر میں کہ جو نیا نیا ’’مسند نشین‘‘ ہوا تھا، یہ مسند نشینی ہی تو تھی جس پر فائز ہونے کے لیے میں برس ہا برس سے کوشاں تھا، اب ملی تو مجھ سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی، چنانچہ ایک بار پھر دل مچلا اور میں نے دو انگلیاں زبان تلے رکھ کر پہلےسے زیادہ گونجدار سیٹی بجائی، جس پر کچھ معززین نے مجھے یہ حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ ان میں سے ایک میرے پاس آیا اور کہا ’’آپ کو شرم نہیں آتی؟‘‘شوق کی تکمیل میں بے شرمی کا سوال اٹھانا ان کی حماقت تھی۔ میں نے کہا ’’جناب، میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ وہ صاحب بولے ’’آپ نے ابھی جو سیٹی بجائی ہے، کیا یہ بدتہذیبی نہیں ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’جناب یہ میرا حق ہے، میں یہ سیٹی اپنے ذوقِ موسیقی کی تکمیل کے لئے بجا رہاہوں، اللہ نےاگر آپ کو روح کی اس غذا سے محروم رکھا ہے تو اللہ سے گلہ کریں، مجھ سے کیوںالجھ رہے ہیں؟‘‘ اتنے میں پانچ
سات نوجوان میرے گرد جمع ہوگئے، میں ڈر گیا، مگر الحمد للہ وہ میرے ہم نوا نکلے اور انہوں نے نہ صرف میرے عمل کی تائید کی بلکہ سب نے کورس میں سیٹیاں بجانا شروع کردیں اور پھر دیکھتے دیکھتے ستر اسی کے قریب مزید نوجوان اس سیٹی بردار طائفے میں شامل ہوگئے۔ اس دوران لبرٹی چوک کے رائونڈ ابائوٹ سے بھی کچھ نوجوان سیٹیاں بجاتے چلے آئے۔ اب شاپنگ کے لئے آئی خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی شروع ہوگئی اور انہوں نے عزت بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر کچھ لوگ آگے آئے اور انہوں نے ان نوجوانوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ میں اس دوران ایک دکان میں داخل ہوگیا اور اپنے لیے ایک جوتا پسند کرنے لگا، میں نے یہاں جس طرح کا ماحول پیدا کردیا تھا اس کے بعد میری چوائس جوتا ہی ہونی چاہئے تھی۔
میں اگرچہ جوتوں کی دکان میں تھا اور اپنے لیے جوتا تلاش کر رہا تھا تاہم میری نظر باہر کے ’’معرکے‘‘ ہی پر تھی، جب سیٹیوں کا آہنگ بہت بلند ہوگیا اور اب یہ سیٹیاں محض شوقیہ یا ہلے گلے کیلئے نہیں بلکہ خواتین نظر آنے پر بجائی جا رہی تھیں۔ جب یہ بدتمیزی اپنے عروج کو پہنچی تو کچھ معززین نے ہمت سے کام لیتے ہوئے ان نوجوانوں کو ڈانٹا اور پولیس بلانے کی دھمکی بھی دی۔ انہیں غیرت دلائی مگر بے سود، الٹا انہوں نے ان معززین کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور پورے زور شور سے چور، چور، چور کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔ اسکے بعد ایک نوجوان آگے بڑھا اس نے اپنا بازو ہوا میں بلندکیا اور نعرہ لگایا’’ایکس کا جو یار ہے‘‘ جواب میں نوجوانوں کے غول نے حلق کی پوری طاقت سے جواب دیا ’’غدار ہے غدار ہے۔‘‘ میں جوتوں کی دکان سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا یہ بے چارہ ’’ایکس‘‘ کہا ں جائے، اس کی قسمت میں شاباش ہے ہی نہیں، کبھی ادھر سے اسے صلواتیں سنائی جاتی ہیں اور کبھی ادھر سے۔ دریں اثنا کسی نے پولیس بلا لی، نعرے بازی پولیس کی موجودگی میں بھی جاری رہی ، مگر اب وہاں موجود لوگوں کی اکثریت کیلئے یہ سب کچھ ناقابلِ برداشت ہوگیا تھا۔ چنانچہ ہاتھا پائی کی نوبت آتے آتے رہ گئی۔
میں جوتوں کی دکان سے باہر نکلا تو میدان خالی نظر آیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور جب محسوس کیا کہ اب خطرے کی کوئی بات نہیں تو میں نے دونوں دانتوں کے درمیان دو انگلیاں زبان تلے رکھ کر ایسی شاندار سیٹی بجائی کہ خود ہی اش اش کر اُٹھا۔ میں اس ہنر کی مسند پر تازہ تازہ بیٹھا تھا اور پھر سیٹی بجانے اور ہنگامہ کروانے کے علاوہ کچھ اور آتا ہی نہیں تھا، لہٰذا میں اس دن سے مسلسل سیٹیاں بجا رہا ہوں اور لوگ سیٹی کے خوبصورت آہنگ پر جمع ہو جاتے ہیں اور پھر ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ میں جوتوں کی دکان میں گھس جاتا ہوں، چور ہے، چور ہے، غدار ہے، غدار ہے کے نعرے سنتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میں جوتا صرف اپنے لیے خریدوں یا دیگر مستحقین کو بھی دان کروں؟