پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
کنفرٹ زون ایک خطرناک نشہ
مینڈک بڑے مزے سے تالاب میں زندگی گزار رہا تھا لیکن ایک دن اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اس کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ کافی دیر سے کھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا تھا۔ خوراک کی تلاش میں وہ پانی سے نکل کر کنارے پر آیا تو وہاں ایک پتھر پر کھانے کی چیز پڑی ہوئی تھی۔ وہ بڑا خوش ہوا اور پتھر پر چڑھ کر جیسے ہی خوراک کے قریب ہوا تو ایک انسانی ہاتھ نے اس کو پکڑ کر تھیلے میں ڈال دیا۔ وہ چلایا، پھڑپھڑایا لیکن تھیلے سے باہر نہیں نکل سکا۔ آدمی نے گھر آکرایک برتن میں پانی بھرا، اس کو چولہے پر رکھا اور مینڈک کو اس میں ڈال دیا۔ مینڈک نے صاف پانی دیکھا تو وہ اس کو اچھا لگنے لگا۔ وہ اس میں تیرنے لگا اور اس کو انجوائے کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس کو محسوس ہوا کہ پانی کا نچلا حصہ آہستہ آہستہ گرم ہورہا ہے، اس نے پروا نہ کی۔ کچھ دیر بعد سارا پانی گرم ہوگیا اور رفتہ رفتہ وہ شدت اختیار کرتا گیا لیکن اس نے اپنی قدرتی صلاحیت سے اپنے جسم کو ٹھنڈا کرنا شروع کیا، پانی گرم ہوتا گیا اور وہ اپنی جسمانی ٹھنڈک بڑھاتا گیا۔ دو منٹ کے بعد پانی ابلنا شروع ہوگیا۔ مینڈک نے اپنے جسم کو اس کے مطابق ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے مسلز جواب دے گئے۔ اب اس نے اچھل کود شروع کر دی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اس برتن سے باہر نکلے لیکن اس کی تمام جدوجہد بے کار ثابت ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ہانپنے لگا۔ اس کے جسم میں توانائی ختم ہوچکی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر وہ مرگیا۔
ہم انسانوں کی مثال بھی مینڈک کی اس کہانی جیسی ہے۔ ہم میں سے 98ف یصد لوگ ایسے ہیں جو اپنا وقت ایک خطرناک ترین جگہ پر گزارتے ہیں۔ جی ہاں! خطرناک ترین جگہ۔ آپ کے ذہن میں ہوگا کہ میں تو ایسی کسی جگہ سے لاعلم ہوں لیکن نہیں! آپ نے بھی کہیں نہ کہیں اس جگہ وقت گزارا ہے۔ یہ جگہ Comfort Zone (خطہ آرام) ہے جو انسان کی صلاحیتوں کا قتل اور اس کے ہنر کو زنگ آلود کرتا ہے۔
گھر میں صوفے پر نیم دراز ہوکر ٹی وی دیکھنا، صبح کی سیر کے بجائے نرم بستر کے مزے لینا، ہر تیسرے دن مٹن کڑاہی، چکن بریانی، پیزا، کولڈ ڈرنک سے لطف اندوز ہونا، محنت و کوشش کے بجائے کام سے جان چھڑانا، ایک اچھی نوکری چاہنا، مناسب سی تنخواہ پر گزارا کرنا اور یہ خواہش کرنا کہ زندگی بھر کوئی تکلیف، کوئی مسئلہ کوئی آزمائش میرے سامنے نہ آئے۔ مجھے کوئی تنگ نہ کرے، کیوں کہ مسائل نمٹانے سے میری جان جاتی ہے۔ محنت کرنے سے میں تھک جاتا ہوں۔ سبزیاں اور سلاد کھانے سے میرا من نہیں بھرتا، ورزش میں پسینہ بہانا خود کو خواہ مخواہ میں تھکا دینا ہے اور نوکری کے بجائے اپنی ذات کے لیے کام کرنا مجھے بہت بڑا رسک لگتا ہے۔ یہ سب انسان کی دل کی آواز ہوسکتی ہے لیکن یہ اس قدر خطرناک جال ہے کہ اس میں پھنسنے والا انسان اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
مینڈک والی مثال کا جائزہ لیجیے۔ اگر مینڈک پتیلے کے صاف پانی کے مزے نہ لیتا اور پانی شدید گرم ہونے سے پہلے وہ چھلانگ مار لیتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی لیکن وہ پڑا رہا، اس نے ایک بہترین موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، اس نے چیلنج کو عارضی سمجھ کر نظرانداز کیا لیکن جب بات اس کی برداشت سے باہر ہوگئی اور اس کے لیے پانی سے نکلنا بے حد ضروری ہوگیا تب اس کے پاس اتنی توانائی ہی نہیں بچی تھی کہ وہ اپنی جان بچا پاتا۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ ہم گزارے لائق زندگی کو قبول کرلیتے ہیں۔ ہمارے پاس محنت کرنے، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، خود کو نکھارنے اور عام سے خاص بننے کا ایک سنہری موقع موجود ہوتا ہے لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ ہمیں اس قدر لطف و سرور کا عادی بنا لیتا ہے کہ ہم اس کو چھوڑ ہی نہیں سکتے۔ اس کی پہنائی ہوئی بیڑیوں کو ہم توڑ ہی نہیں سکتے۔ ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بس زندگی گزر رہی ہے نا، تو گزرنے دو۔ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب پانی ہمارے سر سے اوپر چلا جائے اور ہماری سانس بند ہونے لگے تو پھر ہمارے اندر توانائی ہی نہیں بچی ہوتی۔ ہم صرف ہاتھ پیر ہی مار سکتے ہیں، پانی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
’’کمفرٹ زون‘‘ جس قدر خوش نما نظر آتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ایک نشہ ہے جو غیر محسوس طریقے سے انسان کی رگوں میں اترتا ہے اور اس کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔ اس میں رہتے رہتے انسان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کے اندر جو قابلیتیں موجود ہیں وہ زنگ آلود ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی صلاحیتوں سے محروم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور پھر ایک وقت آتاہے کہ وہ ایک نکما، تن آسان اور انتہائی سست انسان بن جاتا ہے۔
قابلیت سے محروم ایسا انسان اپنی زندگی میں چیلنج نہیں لے سکتا۔ معمولی سے حالات خراب ہونے پر بھی اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ اس کے اندر زندگی کے حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔ ایسا شخص اپنی زندگی بدلنا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ میں ایک نامور انسان بن جائوں لیکن یہ صرف خواہش ہوتی ہے اس کو عملی شکل دینے کے لیے وہ کچھ کرتا نہیں ہے۔ وہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ راستہ بدلنے، ہجرت کرنے، پسندیدہ نوکری چھوڑنے اور تبدیلی کی قیمت چکانے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے کیوں کہ رشتے بنانے اور نبھانے کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ توجہ، ٹائم اور پیسہ۔ ہر رشتے کو توجہ دینی ہوتی ہے، اس کے لیے وقت نکالنا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ اور غمی خوشی میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور بوقت ضرورت پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے ہیں لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ کا قیدی شخص یہ سب نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہوتا ہے۔
’’کمفرٹ زون‘‘ میں رہنے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ انسان کی پیشہ ورانہ زندگی کو کھوکھلا کرنا شروع کرتا ہے، جس کی وجہ سے ایسا شخص اپنے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کی ساری زندگی نکل جاتی ہے لیکن وہ وہیں رہتا ہے جہاں آج سے بیس سال پہلے تھا۔
’’کمفرٹ زون‘‘انسان کی صحت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اور ایک ہاتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ لے کر گھنٹوں گزارنا، واک نہ کرنا، کھانا اور سو جانا، تلی ہوئی چیزوں کے سہارے جینا اور اس جیسی بے شمار عادات کے نتیجے میں اس کی صحت جواب دے جاتی ہے۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی طبی مسئلے کا شکار ہوتا ہے۔ یہ معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے اور اسی کی بدولت ہر علاقے میں آپ کو میڈیکل اسٹورز پر رش نظر آئے گا۔
’’کمفرٹ زون‘‘انسان کی قابلیت کو بھی زنگ آلود کر دیتا ہے۔ وہ نئی چیزیں نہیں سیکھتا، اپنی شخصیت پر محنت نہیں کرتا، اپنی کمزوریوں کو دور نہیں کرتا۔ نتیجتاً وہ ایک بے ثمر انسان بن کر رہ جاتا ہے جو نہ اپنی زندگی کو بدلنے کی ہمت رکھتاہے اور نہ دوسروں کی۔
’’کمفرٹ زون‘‘ انسان کے رشتوں کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ وہ رشتے نبھانا تو چاہتا ہے لیکن اپنے ’’کمفرٹ زون‘‘ کی شرط پر۔ وہ اپنے وقت اور توجہ کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ اس کے دوست احباب اور رشتے دار اس سے دور چلے جاتے ہیں۔
’’کمفرٹ زون‘‘ انسان کی Will Power (قوت ارادی) کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ اس کے اندر کچھ نیا کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ حالانکہ انسان تو وہ مخلوق ہے کہ اگر وہ اپنی سوچ بدل لے تو اس کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں کوئی اچھا استاد، دوست یا کتاب شامل کرلے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ ’’کمفرٹ زون‘‘ نے اس کی ہمت کی عمارت کو شکستہ کر دیا ہوتا ہے۔
تو کیا آپ کے اندر ’’کمفرٹ زون‘‘سے نکلنے کی ہمت ہے؟ اگر ہے تو اٹھیے اور اپنے زورِ بازو سے جیل کی یہ سلاخیں توڑ کر خود کو آزاد کیجیے لیکن آپ اب بھی آزاد نہیں ہوں گے۔ ’’کمفرٹ زون‘‘ سے نکل کر آپ ایک اور دائرے میں آجائیں گے جس کو Fear zone (خطہ خوف) کہا جاتا ہے۔ یہاں آپ کو ہر وقت یہ فکر کھاتی رہے گی کہ میں کوئی نیا قدم تو اٹھا لوں گا لیکن لوگ کیا کہیں گے؟ آپ جب بھی خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے تو اندر سے آواز آئے گی: ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہ خوف آپ کے ذہن پر سوار ہوکر آپ کو کچھ نیا کرنے نہیں دے گا۔ بار بار کی کوشش کے بعد آپ کو اپنے اوپر کچھ شک ہونے لگتا ہے کہ شاید میرے اندر قابلیت کی کمی ہے اس وجہ سے میں کچھ نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک فریب ہوتا ہے جس میں آپ کا خوف آپ کو دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں رہ کر آپ کا نفس بہانے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ کسی بھی ناکامی پر آپ کے اندر سے فوراً یہ بات آتی ہے کہ یہ تو فلاں شخص کی وجہ سے ایسا ہوگیا وگرنہ میں تو یوں کرنے والا تھا۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے آپ کے اندر قوت فیصلہ کی بھی کمی ہوتی ہے۔ آپ دوسروں کے فیصلوں کے محتاج ہوتے ہیں، یعنی گاڑی تو آپ کی ہوتی ہے لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور بیٹھا ہوتا ہے۔
یہاں آپ کے اندر کوئی بولتا ہے کہ بغاوت کرو، ان حالات کو قبول مت کرو، یہاں سے نکلو۔ آپ اپنا پورا زور لگا کر ان سلاخوں کو بھی مروڑ دیتے ہیں۔ آپ Fear zone سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ اب ایک تیسرا دائرہ شروع ہوتا ہے جس کو Learning zone کہتے ہیں۔ اب آپ کے اندر ہمت آچکی ہوتی ہے۔ آپ نئے چیلنجز لیتے ہیں۔ آپ نئے تجربات بھی کرتے ہیں، اس سوچ کے ساتھ کہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیا جائے۔ آپ ہر انسان اور ہر واقعے سے سیکھتے ہیں۔ مختلف طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی بدولت آپ کے اندر Problem solving (مسائل حل کرنے کی صلاحیت) آجاتی ہے۔ آپ کو جتنی بھی مشکلات کا سامنا ہو، جتنی بھی تنقید آپ کے اوپر آئے آپ ان سب چیزوں کو Part of the life سمجھتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہیں آپ اپنے اندر نئی اسکلز بھی پیدا کرتے ہیں۔ آپ کے دل میں سوالات مچلتے ہیں ،جن کے جوابات آپ تلاش کرتے ہیں اور آپ کے سامنے نئے راستے کھلتے ہیں۔
سیکھنے کا یہ سفر آپ کو ایک بہترین شاندار دائرے میں لے آتا ہے جس کو Growth zone (خطہ نمو) کہتے ہیں۔ نمو کا مطلب ہے قدم بہ قدم پروان چڑھنا۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس خطہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ یہاں آکر سب سے پہلی کامیابی آپ کو یہ ملتی ہے کہ آپ کو زندگی کا مقصد مل جاتا ہے۔ آپ کے اندر خواب پلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ خواب آپ کو بے چین رکھتے ہیں۔ آپ کو تڑپاتے ہیں، آپ کروٹ پہ کروٹ بدلتے ہیں، آپ راتوں کو اچانک اٹھ کر اپنے خوابوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ آپ کی آنکھوں میں نیند نہیں ہوتی کیوں کہ وہاں خوابوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ یہ تڑپ، یہ شوق آپ کو ’’جواز ہستی‘‘(مقصد حیات) کے انعام سے نواز دیتا ہے۔
زندگی کا مقصد آپ کو آگے بڑھنے کی موٹیویشن دیتا ہے۔ یہ آپ کو ٹریک پر رکھتا ہے۔ کبھی آپ سمت کھو جائیں تو یہ آپ کو واپس ٹریک پر لاتا ہے۔ کبھی آپ کے پائوں ڈگمگا جائیں تو یہ آپ کو دوبارہ سے ہمت دیتا ہے۔ آپ کی زندگی کا مقصد جس قدر بڑا ہوگا اتنا ہی مرنے کا خوف بھی کم ہوگا۔ کیوں کہ موت انسان کو آتی ہے، مقصد کو نہیں۔ بامقصد انسان اگر چلا بھی جائے تو اس کے مشن کو دوسرے لوگ آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کی مثال اولمپک مشعل کی طرح ہے جس کو ایک کے بعد ایک کھلاڑی تھامتا ہے اور مشعل اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
’’گروتھ زون‘‘ میں آپ اپنے لیے نئے اہداف طے کرتے ہیں۔ ایک منزل مل جائے تو اس کے بعد دوسری منزل ٓ، دوسری کے بعد تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل، پھر آپ منزل سے زیادہ راستے کو انجوائے کرتے ہیں۔ اس خطے میں آپ فتوحات سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ آپ کے لیے تالیاں بجتی ہیں، نعرے لگتے ہیں، آپ اپنی فتح کو سیلی بریٹ کرتے ہیں اور ہر فتح کے بعد ایک اور منزل کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس راستے پر چلنے میں ایسا سرور، ایسا سکون اور اطمینان ہے جو دنیا کی کسی بھی چیز میں نہیں۔
اٹھیے، اپنا شمار دنیا کے دو فیصد ان خوش قسمت لوگوں میں کیجیے جو ’’کمفرٹ زون‘‘ کی سلاخوں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اپنے آپ کو دھکیلے دھکیلتے ’’Growth zone‘‘ میں لے آئیے کہ کامیابی کا راز بھی یہی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر ایک دانا آدمی کی یہ بات یاد رکھیے کہ ’’اگر تم وہی کر رہے ہو جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہو تو تمھیں ملے گا بھی وہی جو ہمیشہ سے ملتا آرہا ہے‘‘ اور مولانا رومیؒ کے یہ الفاظ تو انسان کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہیں:
’’خدا نے تمھیں اُڑنے کے لیے بنایا مگر تم رینگ رہے ہو!!‘‘