پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
آئینی ترامیم اور عوام :خالد ارشاد صوفی
امسال 14 جولائی کو جاری ہونے والے پاور ڈویژن کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7 روپے 12 پیسے اضافہ ہوا اور اس حالیہ اضافے کے بعد گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 48 روپے 84 پیسے تک جا پہنچی ہے۔
ماہانہ 201 سے 300 تک یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کے ٹیرف میں 7 اعشاریہ 12 روپے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد فی یونٹ قیمت 34.26 روپے ہو چکی ہے جبکہ ماہانہ 301سے 400 تک یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کے ٹیرف میں 7.02 روپے اضافہ ہوا جس کے بعد ان صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت 39.15 روپے ہو چکی ہے۔
حالت یہ ہے کہ لوگ بجلی کے بل بھرنے کے لیے اپنی ضروری چیزیں فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ بجلی کی قیمت سے منسلک اور وابستہ معاملہ آئی پی پیز یعنی انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (Independent power producers) کا ہے۔ بجلی مہنگی ہوئی ہے آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے لیکن تاثر یہ قائم کیا جا رہا ہے کہ آئی پی پیز کو کی جانے والی کپیسٹی پے منٹس(Capacity Payments) کی وجہ سے بجلی کے نرخ اور بل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عام آدمی کی مالی استطاعت سے باہر ہیں۔ بھئی آئی پی پیز تو اس سے پہلے بھی موجود تھے اور ان کو کپیسٹی پے منٹس بھی پہلے سے ہی ہو رہی تھیں۔
بجلی میں ناقابلِ برداشت اضافہ تو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ہوا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آئی پی پیز کو کپیسٹی پے منٹس ٹھیک ہو رہی ہیں۔ ان پے منٹس کو کم کرنے کے لیے یقیناً کام ہونا چاہیے لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی جائے۔ اب آئی پی پیز کا معاملہ بھی سن لیں۔ چند روز پہلے یہ خبر پڑھنے اور سننے میں آئی کہ آئی پی پیز نے کپیسٹی چارجز سمیت بجلی کے نرخوں میں کمی سے انکار کر دیا ہے اور حکومت کو پہلے اپنے 52 فیصدپاور ہاؤسز کے نرخ کم کرنے اور بجلی کے بلوں پر 38 فیصد ناجائز ٹیکسز واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ آئی پی پیز مالکان نے کسی زبردستی کی صورت میں عالمی عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے یعنی اگر انہیں چھیڑا گیا تو معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔
ایک خبر یہ ہے کہ رواں سیزن میں کپاس کی پیداوار میں 60 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور کپاس کی پیداوار 1.22 ملین گانٹھیں رہی ہے جو گذشتہ سال 3.04 ملین گانٹھیں تھی اخبار میں شائع ایک مضمون کے مطابق گذشتہ سال گندم کی بھرپور پیداوار ہوئی لیکن حکومت پنجاب کی جانب سے گندم کی خریداری نہ کرنے کی وجہ سے کسان کو نقصان ہوا اور ان کو کم قیمت پر گندم فروخت کرنا پڑی، اس صورت حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسان اب رواں سیزن میں گندم کی کاشت کرنے سے کترا رہے ہیں۔ آئندہ سیزن میں کاشت کار گندم کی کاشت میں 10 سے 20 فیصد کمی کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ برس مارچ اپریل میں پاکستان کو ایک بار پھر گندم اور آٹے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اور نوبت درآمد تک پہنچ جائے گی۔
ملک کے صنعتی سیکٹر پر کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی دو ہفتے پہلے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ایک تقریب کے دوران مقررین نے بتایا کہ اس ایک شہر میں بجلی کے ناقابل برداشت بلوں کی وجہ سے 100 سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے بند ہو چکے ہیں اور اس کا نتیجہ ہزاروں مزدوروں کے بیروزگار ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔ ملک میں بیروزگاری کا یہ عالم ہے کہ ڈگری ہولڈرز بھی ڈرائیور تک کی نوکری کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ قومی قیادت ان گمبھیر مسائل کے حل کی کوئی راہ تلاش کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکمرانوں کی ساری توجہ خود کو مضبوط بنانے پر مرتکز اور مرکوز ہے، اس کا اندازہ آئینی ترامیم کے حوالے سے تین چار روز جاری رہنے والی سیاسی سرگرمیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اس پیکج کے تحت 53 آئینی شقوں میں ترامیم کی خواہاں نظر آتی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ حکومت اپنے اس اقدام میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اسے بیک فٹ پر واپس جانا پڑا ہے۔ قابل غورنکتہ یہ ہے کہ ان 53 آئینی ترامیم میں سے کوئی ایک بھی براہ راست ان مسائل کے حل کے تناظر میں نہیں ہے جن کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا ہے۔
حکومت بجلی کے بلوں پر اور مختلف کموڈٹیز پر براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے اور اس بات کا ادراک یا احساس کیے بغیر کہ جب ملک میں روزگار کے وسائل ہی نہیں ہوں گے‘کاروباری سرگرمیاں ہی فروغ نہیں پائیں گی، لوگوں میں لین دین ہی نہیں ہو گا‘ عوام کی قوت خرید ہی جواب دے چکی ہو گی‘ ہم عالمی منڈی میں ترقی یافتہ ممالک کی پروڈکٹس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی معیاری چیز تیار کر ہی نہیں پائیں گے تو برآمدات کیسے کریں گے؟ زر مبادلہ کے ذخائر کیسے اکٹھے ہوں گے؟ اور ریونیو کے اہداف کیسے پورے کیے جا سکیں گے؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قانون سازی اور پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم کسی بھی آئینی طور پر منتخب حکومت کا قانونی حق ہوتا ہے اور اسے اس حق سے کسی طور محروم نہیں کیا جا سکتالیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ عوام کے مسائل کا حل بھی حکومت ہی کو تلاش کرنا ہوتا ہے جبکہ حکومت کی اس معاملے پر کوئی توجہ نظر نہیں آتی۔
ہم اقتصادی اور اخلاقی لحاظ سے اس سطح تک نیچے آ چکے ہیں کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہو جانے پر شادیانے بجانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ملک اور قوم اس نہج تک پہنچے کیسے؟ انہیں ان حالات تک پہنچایا کس نے؟ اور یہ کہ جو قرضے لیے جا رہے ہیں وہ کل کو ادا کیسے ہوں گے؟ کون کرے گا؟ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ قانون سازی ضرور کیجئے کہ یہ آپ کا حق ہے لیکن اس ملک کے عوام اپنے مسائل کے حوالے سے آپ کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔
کوئی ایک ترمیم عوامی خوشحالی کے لیے بھی کر لیں۔