مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
ملک یا چرا گاہ
روز ہی کوئی نہ کوئی نئی بات ہوتی رہتی ہے‘روز ہی پڑھتے ہیں‘ کچھ دیر دل جلاتے ہیں اور اگلے دن پھر تیار ہوجاتے ہیں کہ آج کا دن اچھا گزرے گا۔
اب دل کرتا ہے ایسی باتوں کو نظر انداز ہی کیا جائے کیونکہ یہاں ہر کسی کو اپنے اپنے لٹیر ے عزیز ہیں۔ وہ ان کیلئے جانیں دینے پر بھی تیار ہیں۔ سیاستدانوں کے روپ میں ایسے ایسے فنکار موجود ہیں کہ انہیں اداکاری پر آسکر ملنا چاہیے۔ اگر ایک اداکار کسی سینما ہاؤس میں بیٹھے چند سو لوگوں کو اپنی اداکاری سے رُلا سکتا ہے تو ہمارے سیاسی اداکار تو روزانہ لاکھوں کا مجمع اکٹھا کر کے رلاتے ہیں۔ انہیں اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں اور انہی کے ٹیکسوں پر عیاشیاں کرتے ہیں اور یہی عوام ان کے نعرے مارتے ہیں۔اس ملک کو کون اون کرتا ہے؟ کم از کم اشرافیہ تو نہیں کرتی۔ اس ملک میں اب وہی رہ رہا ہے جو باہر کی شہریت افورڈ نہیں کرپایا یا وہ بیوروکریسی میں نہیں جا سکا۔ اب ہر کوئی اس ملک سے نکل رہا ہے۔ اب یہاں وہی رہیں گے جو کہیں نہیں جاسکتے یا وہ رہیں گے جنہوں نے ابھی یہاں سے بچا کچھا مال نکال کر لے جانا ہے۔ انہی عوام سے وہ سب پیسہ نکلوائیں گے، دبا کر رشوت لیں گے، بجلی گیس پٹرول کے نام پر ٹیکس لیں گے اور پھر ایک دن بیگ اٹھا کر فلائی کر جائیں گے۔ اس کام میں بیورو کریسی نمبر لے گئی۔ سیاستدان بھی لوٹ مار میں مصروف رہے اور بابوز بھی مال بنانے اور بچے باہر سیٹل کرنے میں لگے رہے۔ خود کو معاشرے کی پڑھی لکھی کریم سمجھنے والے آخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ ملک ان کے رہنے کے قابل نہیں۔ پہلے اکثر نے غربت دور کرنے کے لیے مقابلے کے امتحان پاس کیے، کچھ عرصہ بابو بن کر گزارا‘ اور اب انہیں لگتا ہے کہ یہ ملک ان کے رہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اب وہ افورڈ کرسکتے ہیں کہ یہاں سے نکل کر اچھی اور صاف ستھری زندگی گزاریں۔ انہیں داد دیں‘ یہ ساری دنیا پھرنے کے بعد کسی ایک ملک کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے پسند کرتے ہیں اور وہیں سیٹل ہو جاتے ہیں۔ انہیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ہم بھی اپنے ملک کو ویسا بنا سکتے تھے جیسے وہ ملک ہیں جہاں وہ مستقل رہنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کبھی کوشش تک نہ کی کہ پاکستان کو بھی وہ سب کچھ مل سکے جس کی تلاش میں وہ دوسرے ملکوں میں سیٹل ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ شہر میں گندگی کیسے پھیل رہی ہے، کچی آبادیاں ابھر رہی ہیں، ہر طرف گند ہی گند ہے، دنیا کا بدترین ٹریفک ہر شہر میں جینا حرام کر چکا ہے، شہروں کی آبادیاں بڑھ گئی ہیں۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ معاشرے میں ظلم بڑھ رہا ہے، غریب امیر کا فرق بڑھ رہا ہے، دھڑا دھڑ جعلی ڈرائیونگ لائسنس‘ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری ہورہے ہیں۔ ان کو بس پیسہ چاہیے‘ وہ جہاں سے بھی کما سکیں۔ وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں‘انہوں نے اب معاملات میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے۔ اب ان کی منزل کچھ اور ہے۔ پاکستان دنیا کا شاید اکلوتا ملک ہے جہاں ہزاروں سرکاری افسران‘ جنہوں نے ملک کو چلانا ہے‘ بیرو نِ ملک شہریت لے چکے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئر مین نادرا طارق ملک نے انکشاف کیا کہ 500 افسران جن کی حساس معلومات تک رسائی تھی وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان چھوڑ کر بیرونِ ملک شہریت لے کر شفٹ ہوگئے ہیں۔ انہیں اب پاکستان سے کوئی غرض نہیں رہی‘ اب وہ بقیہ عمر کسی ترقی یافتہ ملک میں گزاریں گے جہاں وہ اچھے اور قانون پسند شہری بن کر رہیں گے۔ نہ سڑکوں پر گند پھینکیں گے‘ نہ سرخ بتی پر گاڑی تیزی سے گزاریں گے اور نہ ہی افسر بن کر دوسروں پر رعب جھاڑیں گے۔آپ کا کیا خیال ہے ان 500 افسران نے ایک رات میں یہ پلان بنایا ہوگا ؟ نادرا میں کئی سکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں کہ کیسے غیرملکیوں کو پیسوں کے عوض شناختی کارڈز بنا کر دیے گئے جن کی مدد سے بعد میں پاسپورٹ بنے اور انہوں نے پاکستان میں جائیدادیں خریدیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ہی انکشاف ہوا کہ دبئی میں ہمارے ہمسایوں نے میچ میں جو لڑائی جھگڑا کیا اورجو ہلڑ بازی ہوئی اور پاکستان کے خلاف نعرے لگے‘ وہ تین سو لوگ بھی پاکستانی پاسپورٹس پر وہاں موجود ہیں‘ جنہیں شاید اب ڈیپورٹ کیا جائے گا۔ پی پی پی دور میں وزیرداخلہ رحمن ملک نے خود بیان دیا تھا کہ سرکاری طور پر نوے ہزار پاکستانی پاسپورٹ بنا کر ہمسایوں کو دیے گئے۔ ضیاء الحق کے دور میں برما کے مسلمانوں کو بھی ہزاروں کی تعداد میں پاسپورٹس دیے گئے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی ڈرگز اور دیگر جرائم پر لوگ پکڑے گئے وہ اکثر ہمارے ہمسایوں کا کام تھا‘ جنہیں پاکستانی پاسپورٹس دیے گئے تھے۔اب ہمارے پاسپورٹ کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ اپنے بابوز اور سرکاری افسران بھی وہ رکھنے کو تیار نہیں۔ یہ سب ان پالیسیوں میں شامل تھے جو پاکستان کو اس حالت میں لے آئی ہیں کہ اب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔اب سب بوریا بستر سمیٹ کر جانے کے تیاریوں میں ہیں۔ سیاستدان اور حکمران طبقہ پہلے ہی سیانا نکلا اور انہوں نے دبئی اور لندن کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا۔ صرف دبئی میں پاکستانیوں نے دس ارب ڈالرز سے زائد کی جائیدادیں خرید لیں۔ پیسہ پاکستان سے گیا اور سب کچھ ہنڈی کے ذریعے کیا گیا۔ کوئی بینکنگ چینل استعمال نہیں ہوا تاکہ ایف بی آر ان کی جائیداد اور دولت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ سب بڑے لوگ تھے۔
مرحوم پولیس افسر شاہد حیات جب ایف آئی اے میں ڈائریکٹر تھے تو انہوں نے دو‘ تین ہزار ایسے پاکستانیوں کی فہرست تیار کی تھی جنہوں نے پاکستان سے غیرقانونی طور پر پیسہ دبئی لے جا کر جائیدادیں خریدیں۔ اس کی پوری فائل اُس وقت کے نواز لیگ کے وزیرداخلہ کو دی کہ کارروائی کی اجازت دیں۔ موصوف نے وہ فائل وہیں دراز میں رکھ لی۔ شاید آج بھی وہیں پڑی ہو یا گھر میں محفوظ کر لی ہو لیکن کارروائی نہیں ہونے دی۔ اندازہ کریں ملک سے دس ارب ڈالرز نکل گئے اور دبئی میں جائیدادیں خریدنے پر لگ گئے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
سینیٹ میں صغریٰ امام نے بل پیش کیا تھا کہ جن سرکاری افسران کے پاس غیرملکی شہریت ہے انہیں عہدوں سے ہٹا دیا جائے۔ اس پر بھی کچھ نہ ہوا۔ سپریم کورٹ نے عمران خان حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس سلسلے میں پالیسی بنائے کہ ایسے بیوروکریٹس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے‘ وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان اور مشیر برائے بیوروکریسی ارباب شہزاد اور بیوروکریسی میں ریفارمز کے مشیر عشرت حسین (تینوں ڈی ایم جی افسران تھے) نے یہ ایشو کابینہ تک جانے ہی نہیں دیا اور آج تک سپریم کورٹ کا وہ آرڈر وزیراعظم آفس کی کسی دراز میں پڑا ہوگا۔
سب کو اس ملک سے ہمدردی اتنی ہی ہے کہ ایکسپورٹرز نے روپیہ ڈی ویلیو کرایا کہ ہم ڈالرز لائیں گے۔ پتا چلا کہ اکثر ایکسپورٹرز ان ڈالروں سے بیرونِ ملک جائیدادیں خرید رہے ہیں یا ڈالرز وہیں پارک کررہے ہیں کہ روز بروز ڈالرز کی قیمت بڑھ رہی ہے پھر کیش کرائیں گے تاکہ زیادہ روپیہ ملے۔ آٹھ بینکوں کے بارے پتا چلا ہے کہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابل گرانے میں ان کا کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان آٹھ بینکوں نے وہ گندا کھیل کھیلا ہے کہ ڈالر آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ اب اندازہ کریں اس ملک کے ایکسپورٹرز اور بینکوں کا کہ وہ اس کا بھٹہ بٹھانے پر تل گئے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اگر وہ یہ کام کرتے رہے تو سونے کی وہ مرغی‘ جس کا انڈہ وہ روز کھا رہے ہیں‘ نہیں رہے گی۔ انہیں انڈوں سے کوئی غرض نہیں‘ یہ سب کچھ ایک ہی دن میں ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات صرف ایکسپورٹرز کی نہیں، ہم سب اندر سے ایسے ہی ہیں۔ ہم سب یہی کام اپنے اپنے لیول پر کررہے ہیں۔ اپنے ایک پائو گوشت کیلئے پورا اونٹ ذبح کررہے ہیں۔