معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ایک قدیم جنگجو کی موت … (2)
یہ ارشد شریف اور میرے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا۔ یونیورسٹی کا پروفیسر ارشد کو پاکستان میں اُس وقت جاری دہشت گردی پر پی ایچ ڈی کرنے پر راضی کررہا تھا تو میرے لندن کے دوست مجھے وہاں مستقل رہنے کے فوائد گنوا رہے تھے۔ میری بیوی کا بھی یہی خیال تھا کہ لندن میں رہ کر بچوں کا مستقبل بن جائے گا۔ میں نے ہنس کر بیوی کو کہا تھا کہ ایک بیٹا ابھی پانچ سال کا ہے اور دوسرا ساڑھے چھ سال کا۔ تمہیں ابھی سے ان کے مستقبل کی فکر پڑ گئی ہے۔ میرے مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔ میرا مستقبل بن گیا تو ان کا خود بخود بن جائے گا۔ اگر میرا نہ بنا تو ان کے لیے بھی مشکلات ہوں گی اور میرے خیال میں میرا مستقبل لندن نہیں‘ پاکستان میں ہے۔
ارشد نے بھی یہی کہا کہ اگر میں نے دو‘ تین سال لندن میں پی ایچ ڈی میں لگا دیے تو پھر میں صحافت نہ کر سکوں گا اور پھر ساری عمر یونیورسٹیوں میں پڑھائوں گا اور میں میڈیا نہیں چھوڑنا چاہتا کہ یہ میرا جنون ہے‘ شوق ہے‘ میری ہابی ہے۔ پھر ہم دونوں کا خیال تھا کہ ہم نے لندن میں رہ کر جو جرنلزم سیکھی تھی‘ اب اس کے پاکستان میں استعمال کا وقت آگیا ہے۔ ہم دونوں آئیڈل ازم کا شکار تھے اور شاید ساری عمر ہی رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ یہاں لندن میں رہ کر سارا دن کیا جھک ماریں گے‘ پاکستان تو صحافیوں کیلئے جنت ہے جہاں خبریں کبھی ڈھونڈنا نہیں پڑتیں بلکہ خبر آپ کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم نے صحافت میں رہنا ہے تو پھر ہماری جگہ لندن میں نہیں پاکستان میں ہے۔ ہم دونوں نے تمام تر آفرز اور لندن میں مستقبل کے سہانے خوابوں کو ایک طرف رکھ کر پاکستان لوٹنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ ہمارا مستقبل یہیں ہے۔ یقینا میرے بچوں کو پاکستان لوٹ کر ایڈجسٹ ہونے میں شدید مشکلات پیش آئیں‘ خصوصاً اُن دنوں لال مسجد آپریشن کے بعد پورے ملک میں خودکش حملوں کی نئی لہر شروع ہو چکی تھی۔
ارشد شریف نے شروع میں انگریزی اخبار میں سٹی رپورٹنگ سے جرنلزم کا آغاز کیا تو ایک دن میں نے اسے کہا: تمہارے اندر جو ٹیلنٹ ہے اس کو تم کہاں ضائع کررہے ہو۔ اسلام آباد جیسے شہر میں وہ مسائل نہیں ہیں جو دیگر شہروں کے ہوتے ہیں۔ جو تمہاری کلاس اور قابلیت ہے وہ بڑے کاموں کے لیے ہے نہ کہ روز اسلام آباد کی گلیوں میں پھرنا کہ آج کس گھر میں پانی نہیں آیا۔ ارشد سوچ میں پڑ گیا تو میں نے کہا: تم پارلیمنٹ رپورٹنگ شروع کرو۔ کمیٹی اجلاسوں میں جانا شروع کرو۔ نیشنل لیول کی رپورٹنگ کرو۔ ارشد بولا: لیکن ڈان میں کون مجھے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے دے گا۔ اتنے سینئر صحافی ہیں وہاں۔ پھر خود ضیاء الدین صاحب پارلیمنٹ ڈائری لکھتے ہیں۔ میں وہاں کیا کروں گا۔ میں نے کہا: آپ ذرا ضیاء الدین صاحب سے بات تو کریں کہ میں کمیٹی اجلاس کور کر لوں گا۔ ضیاء صاحب نے فوراً مہربانی کی اور ارشد شریف کو اجازت دے دی کہ چلو تم پارلیمنٹ کا سوال و جواب سیشن کور کیا کرو اور کمیٹی میٹنگز بھی۔ یوں ارشد شریف نے سٹی رپورٹنگ سے اچانک پارلیمنٹ کا جمپ لیا۔ ایک دن ضیاء الدین صاحب نے ارشد کو کہا: آج تم پارلیمنٹ سے کوئی رپورٹ بنا کر لانا۔ یہ کسی جونیئر رپورٹر کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ وہ ڈان جیسے اخبار میں سیاسی ڈائری لکھے۔ اس سے پہلے یہ کام خود ضیاء الدین صاحب‘ شاہین صہبائی‘ نصرت جاوید‘ محمد مالک اور حامد میر جیسے بڑے صحافی کرتے تھے۔
ارشد نے ایسی سیاسی ڈائریاں لکھنا شروع کیں کہ ایک دن پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں بیٹھے نصرت جاوید نے ارشد شریف کی تعریف کرتے ہوئے ایک ایسا جملہ کہا تھا جو برسوں بعد بھی نہیں بھولا۔ کہنے لگے: تمہارے لکھے میں جو کاٹ اور تازگی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نئے ہو۔ ابھی لوگ تمہیں نہیں جانتے‘ تم انہیں نہیں جانتے۔ لہٰذا تمہارا قلم کھل کر لکھتا ہے لیکن دھیرے دھیرے سیاست پر لکھنے والوں کو سیاستدانوں کے ساتھ میل ملاقاتوں کے بعد کچھ لاج شرم رکھنا پڑتی ہے۔ نوجوان ابھی تم اس سے بچے ہوئے ہو۔ ارشد شریف اپنے چہرے پر مخصوص خوبصورت مسکراہٹ لا کر خاموش رہا جیسے کہہ رہا ہو یہ دن کبھی نہیں آئے گا اور واقعی مرتے دم تک ارشد کے قلم یا زبان میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اس نے جو درست سمجھا‘ وہی لکھا اور وہی بولا۔ ارشد شریف اور میرا ایک نیا جوڑا بن گیا تھا۔ اگرچہ ہم دونوں حریف انگریزی اخبارات میں کام کرتے تھے لیکن ہر وقت خبر کی تلاش میں پارلیمنٹ کی گیلریوں میں اکٹھے پائے جاتے تھے۔ ہم دونوں روز پارلیمنٹ ہاؤس میں وقفۂ سوالات میں پہنچ جاتے جہاں سے اصل خبریں نکلتی تھیں۔ ہم وہاں وزیروں کی درگت بنتے دیکھتے اور اگلے دن دونوں ایک ہی وزیر کو پکڑ کر اس کا حشر نشر کر دیتے۔ اب اسلام آباد میں دو بڑے انگریزی اخبارات میں ایک ہی وزارت اور اس کے وزیر کا حشر نشر ہوتا تو پوری حکومت تک بات جاتی۔ اس دوران ہم دونوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی جانا شروع کیا جہاں بڑے بڑے سکینڈلز ہمارے منتظر ہوتے۔ یہیں سے ارشد شریف اور میرا انویسٹی گیٹو جرنلزم کا سفر شروع ہوا۔شروع کے برسوں میں ایچ یو بیگ صاحب کمیٹی کے چیئرمین تھے اور باقی کے ممبران بھی باکمال سابق بیوروکریٹ تھے۔ ایسے قابل لوگوں پر مشتمل کمیٹی پھر نہ بن سکی۔ اس دور میں ابھی اچھے بیوروکریٹس موجود تھے جو کتابیں پڑھتے تھے۔ وہاں موجود کمیٹی ممبران‘ آڈٹ اور فنانس منسٹری کے افسران کے درمیان ایسی خوبصورت گفتگو ہوتی تھی کہ مزہ آجاتا۔ وہیں سے ہم نے رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزیوں‘ قومی خزانے پر پڑنے والے ڈاکے اور وارداتوں کو سمجھنا شروع کیا۔ وہیں سے ہم دونوں کو اندازہ ہوا کہ اس ملک کو ایلیٹ کیسے لوٹ رہی تھی جس پر ہماری آنکھیں حیرانی سے کھلنے لگیں۔
اسی کمیٹی نے ہمیں اصل رپورٹر بنایا اور یہیں ہمیں سرکاری دستاویزات پڑھنے کا موقع ملا۔ ارشد اور میرے پاس اپنے اپنے اخبار کے لیے بہت خبریں ہوتی تھیں۔ ارشد کی بڑی خوبی تھی کہ وہ انگریزی بڑی شاندار لکھتا تھا۔ ارشد جیسی کاپی لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ یوں دھیرے دھیرے میں اور ارشد شریف پارلیمنٹ کی گیلریوں میں جانے آنے لگے۔ جب ڈان اور دی نیوز میں سکینڈلز چھپ رہے ہوں تو یقینا آپ کا نام بننا تھا۔ ارشد شریف ساری عمر میری اس وجہ سے بھی عزت کرتا رہا کہ اس کا خیال تھا میں نے اسے سٹی رپورٹنگ سے نکال کر نیشنل رپورٹنگ کی طرف مائل کیا۔ ایک دن میں کچھ لیٹ ہوگیا اور اس وقت پہنچا جب وقفۂ سوالات ختم ہورہا تھا۔ میں پریس گیلری کی سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اوپر سے ارشد شریف کو تیزی سے نیچے اترتے دیکھا۔ میں کچھ حیران ہوا۔ میں نے پوچھا: بھائی جی کدھر؟ میرا ہاتھ پکڑ کر بولا: تم لیٹ آئے ہو۔ اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری میجر (ر) تنویر حسین (ملکہ پکھراج کا بیٹا) نے ایک بڑی خبر بریک کی ہے‘ مجھے تو بہت بڑا سکینڈل لگ رہا ہے۔ آؤ اس کے چیمبر میں چلتے ہیں اور بقیہ تفصیلات لیتے ہیں۔میں نے ارشد کے ساتھ تیزی سے قدم ملانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا: سکینڈل کیا ہے؟ ارشد شریف نے پھولے سانس کے ساتھ مجھے سکینڈل کے کچھ نکات بتانا شروع کیے۔ جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو میں نے کہا: شہزادے! یہ تو بم شیل ہے۔ یہ تو اُڑا دے گا سب کو۔ اس میں تو بڑے بڑے نام آرہے ہیں۔ یہ مشرف دور کا بڑا سکینڈل ہوگا۔ ارشد نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: اب جلدی چلو‘ کہیں پارلیمانی سیکرٹری چلا نہ جائے‘ اس سے کچھ مزید تفصیلات لیتے ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ گیلری سے بھاگ بھاگ کر چلتے ہوئے مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا وہ سکینڈل آنے والے دنوں میں ارشد شریف اور میرے لیے بڑی مشکلات کھڑی کرنے والا تھا اور ہم انویسٹی گیٹو جرنلزم کی اُس دنیا میں قدم رکھنے جارہے تھے جو خطروں سے بھرپور تھی۔ (جاری)