معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بربادی ایک دن میں نہیں ہوتی
امریکہ جانے کا پروگرام تو ایسے اچانک بنا کہ جہاز پر سوار ہونے تک یقین نہیں آ ر ہا تھا کہ میں واقعتاً امریکہ جا رہا ہوں۔ شام کو فون کی گھنٹی بجی‘ سکرین پر برادر خورد ڈاکٹر عاصم اسد کا نام جگمایا۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگا: کہاں ہیں؟میں نے کہا: ملتان ایئرپورٹ پر ہوں۔ سوال ہوا: کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے کہا: سعودیہ روانگی ہے۔ پوچھا: واپسی کب ہے؟ میں نے کہا‘ تیئس مئی کو واپسی ہے۔ جواباً اطمینان بھری سانس لے کر کہنے لگا: چلیں پھر تو درمیان میں بہت دن ہیں۔ میں نے پوچھا: خیر ہے کہ اس طرح کی تفتیش کی جا رہی ہے؟ کہنے لگا: وہ دراصل اٹھائیس مئی کو بالٹی مور میں ”اِکنا‘‘ کا سالانہ کنونشن شروع ہو رہا ہے‘ آپ ستائیس مئی تک امریکہ پہنچ جائیں‘ باقی تفصیلات آپ کو معوذ اسد بھائی بتا دیں گے۔
سعودی عرب میں وٹس ایپ پر کال کی سہولت میسر نہیں ہے۔ معوذ اسد سے میسجنگ کے ذریعے تھوڑی بہت تفصیلات ملیں اور ان کی روشنی میں برادرِ بزرگ کو ذمہ داری سونپی کہ وہ اس دوران ملتان سے فلاڈیلفیا کیلئے کوئی ایسی فلائٹ تلاش کریں جس میں اگلا کنکشن فوری طور پر مل جائے۔ برادرِ بزرگ نے ایک ٹکٹ تلاش کر کے اسے چوبیس گھنٹوں کیلئے ہولڈ پر ڈالا اور مجھے اس کی میل فارورڈ کر دی مگر میں اس دوران فون ہی نہ دیکھ سکا اور یہ ٹکٹ ہاتھ سے نکل گئی۔ برادرِ بزرگ نے دوبارہ کوشش کی‘ ایک ٹکٹ پکڑی‘ ابھی اس کی مہلت ختم ہونے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا کہ میں نے یہ ٹکٹ خرید لی اور ملتان واپس آ کر انعم اور اسد کو بتایا کہ میں دو دن بعد امریکہ جا رہا ہوں۔ بچے اس قسم کی اطلاعات کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے کسی نے خاص حیرانی یا اچنبھے کا اظہار ہی نہ کیا۔
ملتان سے دوحہ کی فلائٹ کا موازنہ میں نے جب اپنی سابقہ دونوں فلائٹس یعنی ملتان تا جدہ اور پھر مدینہ تا ملتان سے کیا تو مجھے اپنے اس موازنے پر ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ میں ایک کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر تھا جس میں چند سرکاری ارکان بھی تھے۔ ایک دن ایسے ہی گپ شپ کے دوران میں نے ایک ممبر سے‘ جو ایک اہم وزارت میں ایڈیشنل سیکرٹری تھے‘ پوچھا کہ آپ کو اپنی اس اہم ذمہ داری کے حوالے سے کافی ہائی لیول میٹنگز میں شرکت کا موقع ملتا ہوگا اور آپ کا اس دوران مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ انٹرایکشن بھی ہوا ہوگا۔ آپ نے ان کا طریقہ کار اور طرزِ کار بھی دیکھا ہوگا۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی چھٹی ہونے کے بعد آنے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کام کیا ہے تو آپ ان دونوں حضرات کی کارکردگی‘ معاملات پر گرفت اور مہارت کا موازنہ کریں تو آپ ان کو کس طرح رینک کریں گے؟ وہ صاحب ہنس کر کہنے لگے: ان دونوں کے درمیان کارکردگی‘ مہارت اور کام کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ریڑھے اور ایف سولہ کے درمیان موازنہ کرنے بیٹھ جائیں۔ پھر میری آنکھوں میں سوالیہ چمک دیکھ کر کہنے لگے: اب آپ ایک حاضر سروس سرکاری افسر سے یہ نہ پوچھنے لگ جائیے گا کہ ان میں سے ریڑھا کون ہے اور ایف سولہ کون ہے۔ میں نے بھی جواباً ہنس کر کہا کہ میں آپ کو اس مشکل میں نہیں ڈالوں گا۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ ریڑھا کون ہے اور ایف سولہ کون ہے۔ ایسے مواقع پر ایک پنجابی کہاوت ”روپ رون تے کرم کھان‘‘ (صورت کسی کام نہیں آتی اور نصیب مزے کرتا ہے) اپنی پوری وضاحت سے سمجھ آ جاتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اب اپنی قومی ایئر لائن اور اردگرد کے چھوٹے چھوٹے ممالک کی ہوائی کمپنیوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے یہی ریڑھے اور ایف سولہ والا معاملہ نظر آتا ہے‘ لہٰذا اب اس قسم کا موازنہ کرنا ہی بند کر دیا ہے کہ خوامخواہ دل جلانے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دورانِ سفر سہولیات‘ انٹرٹینمنٹ کے لوازمات اور کھانے کا معیار تو رہا ایک طرف‘ عملے کی سروس کا معیار بھی اس حد تک گر چکا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہوائی عملہ مسافروں سے اس طرح کا سلوک کرتا ہے کہ گویا عملہ مسافروں کو اپنے پلے سے سفر کروا رہا ہے اور ان کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہے۔ خلیجی ممالک میں کام کرنے والی ورکر کلاس کے ساتھ تو ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ سوچ کر شرم آتی ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ جب میں آخری بار لاہور سے مانچسٹر گیا تو ایک ایسا تلخ تجربہ ہوا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ کیا میں واقعی پاکستان کی قومی ایئر لائن پر سفرکر رہا ہوں۔
دورانِ پرواز اول تو پی آئی اے جہازوں کا انٹرٹینمنٹ سسٹم اکثر خراب ملتا ہے۔ ایک بار آٹھ گھنٹوں پر مشتمل اس سفر میں اس سسٹم کی خرابی کی شکایت کی تو انتظامیہ نے اس کے مداوے کے طور پر مجھے پی آئی اے ایوارڈ پلس ممبر ہونے کی وجہ سے تین ہزار پوائنٹس دے کر اپنے تئیں بات ختم کر دی۔ اگلی بار یہ سسٹم چل رہا تھا تو اس پر بھی افسوس ہوا کہ کاش یہ نہ ہی چل رہا ہوتا۔ ہوا یوں کہ میں نے سفر میں بور ہو کر انٹرٹینمنٹ سسٹم کھول لیا۔ میں نے موویز میں جا کر فہرست دیکھی تو ایک فلم کا نام ”لاہور‘‘ تھا۔ یہ بھارتی فلم تھی اور پاکستان کی قومی ایئر لائن کے انٹرٹینمنٹ سسٹم پر تھی۔ خیر یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کیونکہ بین الاقوامی مسافروں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور انہیں ممکنہ طور پر ہر قسم کی تفریحی سہولت فراہم کرنا ایئر لائن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ فلم کا ٹائٹل دیکھ کر میں نے یہ فلم لگا لی۔ میرا خیال تھا کہ یہ بھارتی فلم اگر ہماری قومی ایئر لائن کے تفریحی سسٹم پردکھائی جا رہی ہے تو یقینا پاکستان کے بارے میں عمومی بھارتی فلمی رویے کے برعکس مثبت قسم کی کہانی پر مشتمل ہوگی۔ ویسے بھی فلم کا نام” لاہور‘‘ دیکھ کر تھوڑا اشتیاق بھی ہوا کہ چلیں دیکھتے ہیں کہ لاہور کے بارے میں اس میں کیا نیا ہے۔
فلم دیکھ کر دل سے یہ غلط فہمی تو دور ہو گئی کہ بھارت میں ایسی فلم بھی بن سکتی ہے جس میں پاکستان کا معمولی سا بھی مثبت امیج دکھایا گیا ہو۔ ساری فلم پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے سے بھرپور تھی۔ یہ ایک کک باکسنگ چیمپئن سے متعلق فلم تھی جس میں بھارت سے تعلق رکھنے والے کک باکسر کا مقابلہ پاکستانی کک باکسر سے ہوتا ہے۔میچ کے دوران پاکستانی فائٹر فاؤل پلے کے بل پر بھارتی کھلاڑی کو جان سے مار دیتا ہے بعد میں اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کیلئے بھارتی کک باکسر کا بھائی‘ جو دراصل کرکٹر ہوتا ہے‘ کک باکسر بن جاتا ہے اور اپنے بھائی کے قاتل پاکستانی کک باکسر سے بدلہ لینے کیلئے قائداعظم کک باکسنگ ٹورنامنٹ میں لاہور آتا ہے۔ اس آخری فائٹ میں بھارتی کھلاڑی فائٹ تو نہیں جیت سکتا مگر اسے اخلاقی طور پر فاتح دکھایا گیا ہے۔ ساری کی ساری فلم پاکستانی فائٹر کے منفی رویے کے گرد گھومتی ہے اور یہ بالی وُڈ کے روایتی پاکستان دشمنی پر مبنی پروپیگنڈے پر بنائی گئی تھی۔ فلم دیکھ کر دکھ اس بات پر ہوا کہ ایئر لائن انتظامیہ نے فلم کاانتخاب کرتے ہوئے فلم کی کہانی اور پلاٹ پر اتنا بھی غور نہ کیا جتنا الحمرامیں ڈرامے کی مانیٹرنگ پرمامور ٹیم ہی غور کر لیتی ہے۔
ساری ایئر لائن تو برباد ہو ہی گئی تھی اس کی بطور قومی ایئر لائن ایک نظریاتی شناخت تھی جو اس قسم کی حرکتوں سے نہ صرف مجروح ہوتی ہے بلکہ اس کا اثر اس نئی نسل پر ہوتا ہے جو دیارِ غیر سے اپنے والدین کے ساتھ پاکستان کا سفر کرتی ہے اور اس قسم کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو؟ یہ سب کچھ انہیں ان کی اپنی ہی قومی ایئر لائن پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے سارے سرکاری ادارے اسی طرح بتدریج برباد ہوئے ہیں۔ اس قسم کی بربادی ایک دن میں نہیں ہوتی۔