کچھ ملکوں کی جانب سے پاکستانیوں کے روئیوں کی شکایات کی تفصیلات سامنے آگئیں

کچھ ملکوں کی جانب سے پاکستانیوں کے روئیوں کی شکایات کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

چیئرمین ذیشان خانزادہ کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں وزارت کے حکام نے بریفنگ دی کہ نیشنل امیگریشن اینڈ ویلفیئر پالیسی اس وقت 90 فیصد مکمل ہوچکی ہے۔

وزارت سمندر پار پاکستانی کے حکام نے بتایا کہ ہمارے ماتحت ادارے بزنس میں آسانی کے حوالے سے رکاوٹ ہیں، اس میں آسانی کے لیے 120 ترامیم تجویز کی ہیں، او پی ایف کا چھ سال بعد نیا بورڈ بن گیا ہے،ای او بی آئی ابھی وفاق کے پاس ہے۔

حکام نے کہا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ ای او بی آئی کے معاملے کو کھولنا چاہتے ہیں، ای او بی آئی 60 سے 65 ارب پنشن دے رہی ہے جو آئندہ چند سال میں سو ارب ہو جائے گی، ای او بی آئی میں انشورڈ افراد1 کروڑ سے زیادہ ہیں ،چار لاکھ 27 ہزار افراد کو پنشن دی ہے، ای او بی آئی میں اس سال رکارڈ وصولی 60 ارب ہوئی ہے۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ ہمارے 96 فیصد افراد جی سی سی ممالک میں جارہے ہیں، چھ سے آٹھ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں، دو تین لاکھ لوگ واپس بھی آجاتے ہیں۔ ہالینڈ، فرانس، امریکا میں اینٹی امیگریشن جذبات ہیں، دبئی کے ساتھ مسائل ہیں، وہ کہہ رہے ہیں آپ سے 16 لاکھ کا زبانی کوٹہ تھا لیکن آپ 18 لاکھ پر آگئے۔

بریفنگ میں کہا کہ ملیشیا میں لوگ ایک سال کے معاہدے پر گئے اور وہیں رک گئے، پھر جیل میں جاتے ہیں، عراق میں لوگ غائب ہوئے ان کی درست تعداد معلوم نہیں، جاپان نے نسٹ کی الیکٹریکل انجینئرنگ کی پوری کلاس اپنے پاس بلالی۔

حکام وزارت سمندر پار پاکستانی نے کہا کہ ہم چھ سے آٹھ لاکھ لوگ بارڈر کے ذریعے باقاعدہ بھیج رہے ہیں، پھر بھی کشتیوں میں کون لوگ پکڑے جا رہے ہیں، یہ پاکستان کا تشخص خراب کر رہے ہیں، باہر والے ہم سے تنگ ہیں۔

حکام نے کہا کہ یورپی یونین کہتا ہے آپ ایف آئی اے کا نظام، بارڈر کنٹرول بہتر کریں ہم آپ کو ملازمت میں چھوٹا کوٹا دیں گے، کل یورپی یونین کی ٹیم آرہی ہے، ہم بارڈر اور انسانی اسمگلنگ کو کنٹرول نہیں کریں گے تو ہم پھنس جائیں گے۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ دبئی میں خواتین بیٹھی ہوتی ہیں اور پاکستانی ان کے سامنے ویڈیوز بنانا شروع کردیتے ہیں، دبئی میں پاکستانی وی لاگرز لوگوں سے غزہ سے متعلق سوال شروع کردیتے ہیں، یو اے ای نے دبے الفاظ میں یہ کہا ہے کہ بھیجنے والے لوگوں کے رویے بہتر بنانے کی تربیت نہ کی تو مسائل پیدا ہونگے۔

وزارت سمندر پار پاکستانی کے حکام نے کہا کہ نئے پروفیشن اور ممالک کا اصل ڈیٹا چاہیے کہ وہاں کون سی نوکریاں دستیاب ہیں، یہ ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، امیگریشن سے متعلق تمام معاملات دیکھنے کے لیے وزیراعظم کے ماتحت ایک کابینہ کمیٹی بنی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا تصور ابھرے کہ یہ لوگ ہنر مند ہیں اور یہاں لائق لوگ ہیں۔