پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ڈھولا لمے نہ ونج او
ایک ٹی وی پروگرام میں ندیم افضل چن سے ربیعہ احسن نے پوچھا: کیا وجہ ہے ہر سال یونان کے ساحلوں سے جو بری خبر آتی ہے ان میں اکثریت کا تعلق سینٹرل پنجاب کے اضلاع سے ہوتا ہے‘ دیگر علاقوں کے لوگوں بارے بہت کم سنا ہے کہ وہ بھی ان کشتیوں میں سوار تھے جو ڈوب گئیں؟یہ بڑا اہم سوال ہے کہ سینٹرل پنجاب کے زیادہ تر لوگ کیوں خطروں کے کھلاڑی بن جاتے ہیں؟سرائیکی‘ سندھی‘ بلوچ یا پختون ان راستوں پر چل کر موت کو گلے نہیں لگاتے۔ کیا اس کا تعلق غربت سے ہے یا جو لوگ خطرے مول نہیں لیتے وہ بہادر نہیں ہیں یا وہ سفر کی سختیاں برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یاموت سے ڈرتے ہیں یا بہت امیر ہیں کہ انہیں باہر جا کر روزی روٹی کمانے کی ضرورت نہیں ہے؟
ہمارے بہاولپور کے دوست شہزاد عرفان نے اس ایشو پر لکھا جو قابلِ غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سنٹرل اور اَپرپنجاب کے انڈسٹریل‘ تجارتی ومعاشی شہروں سے غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ سنٹرل پنجاب ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود وہاں ایسے واقعات کا مسلسل اضافہ ہورہاہے جو آئے دن لوگوں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔دوسری طرف سرائیکی وسیب میں مقامی سرائیکی جن میں غربت ‘پسماندگی اور بے روزگاری کی شرح بقیہ پنجاب سے کہیں زیادہ ہے‘ غیرقانونی طریقے سے کسی دوسرے ملک جانے کا سفر کرنا ان کے مزاج اور رویے کا حصہ نہیں ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جاکر جو Homesick ہو جاتے ہیں‘ اتنے فیملی اورینٹڈ ہیں اور زندگی سے بزدلی کی حد تک پیار کرتے ہیں کہ زندگی کی بازی ہارنا یا جیل جانے اور عزتِ نفس مجروح کروانے کے تصور ہی سے کان پہ ہاتھ دھرکے روتے ہیں دھاڑ وو مونجھاں ہاں امڑیب( ہائے اماں مجھے اداسی مار رہی ہے)۔ اوپر سے غربت اتنی ہے کہ ایجنٹس کو ان کی مطلوبہ رقم دینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ جو ہے وہ ادھار اور قسطوں پر زیادہ سے زیادہ مڈل ایسٹ تک ویزوں پر جاتے ہیں کچھ اوور سٹے ہونے پر اس وقت تک رہ جاتے ہیں جب تک ممکن ہوسکتا ہو کہ واپسی کی ٹکٹ بھی وہاں کی حکومت بھرے اور وہ دوبارہ پیسے بھر کر ویزہ لے کر پھر سے نئے تازہ ہوکر قانونی طریقے سے جائیں۔
دوسری طرف ندیم افضل چن نے جو اپنے آبائی علاقوں میں نوجوانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا وہ بھی بہت ڈسڑبنگ ہے کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے موت کے سفر پر بھیج کر پھر معجزوں کا انتظار کرتے ہیں۔ دراصل سینٹرل پنجاب میں ایک اور رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے نوجوان جو جائز یا ناجائز راستوں سے یورپ پہنچے اور انہوں نے واپس پاکستا ن کچھ عرصے بعد ڈالریا پاؤنڈز بھیجے اور خوشحالی نے گھر کا راستہ دیکھ لیا تو دوسرے رشتہ داروں اور گائوں کی برادری میں بھی خواہش ابھری کہ اگر ان کا نوجوان بھی تھوڑا سا خطرہ مول لے لے تو وہ بھی راتوں رات امیر ہوسکتے ہیں۔ان کے گھر کو بھی نئی حویلی کی شکل دی جا سکتی ہے‘ وہ بھی موٹر سائیکل کی جگہ کار خریدسکتے ہیں‘ بہن بھائیوں کی دھوم دھام سے شادی ہوسکتی ہے‘رشتہ دار اور گائوں کے لوگ ان سے بھی قرض مانگیں گے کہ بیٹا فرانس میں ریسٹورنٹ کا مالک ہے یا بھائی ہر سال چھٹیوں پر آتے ہوئے ان کیلئے نیا آئی فون خرید لائے گا۔ دھیرے دھیرے یہ ماں باپ یا بہن بھائی اس سحر میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ان کا ہمسایہ اس لیے اچھی زندگی گزار رہا ہے کہ ان کا بیٹا باہر چلا گیا تھا‘ یوں پورا خاندان اپنے بچے کو تیار کرتا ہے یا طعنے دے کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ تم ہڈ حرام یہاں روٹیاں توڑ رہے ہو جبکہ باقی سب کے بچوں نے زندگی بدل دی ہے۔ یوں پورا گھرانہ بیس پچیس لاکھ اکٹھا کرتا ہے‘ کوئی زمین بیچے گا‘ کوئی جانور تو کوئی گھر میں رکھے زیوارت یا کسی سے ادھار مانگ لیں گے۔
ہمارے رائٹر اور صحافی دوست امجد صدیق نے ایک نئی بات بتائی جس کا مجھے علم نہ تھا۔ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں ایجنٹس پر دبائو پڑتا ہے کہ انہوں نے لالچ میں آکر نوجوان بچوں کو موت کے سفر پر بھیج دیا۔ امجد صدیق کا کہنا تھا معاملہ اس کے الٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے زیادہ تر ٹریول ایجنٹس کو ماں باپ خود مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کو کسی طرح باہر بھجوا دیں چاہے غیرقانونی طریقے سے ہی۔امجد جس نے اس ناجائز ہیومین سمگلنگ پر ایک شاندار کتاب ”سفر کہانی‘‘ لکھی ہے‘ کا کہنا ہے اگر ٹریول ایجنٹس انکار کر دیں تو انہیں رشتہ داروں سے سفارشی فون کرائے جاتے ہیں۔ باقاعدہ ایک جرگہ لے کر وہ اس کے گھر جاتے ہیں کہ وہ پیسے لے کر ان کا بچہ ایران کے راستے‘ ترکی اور یورپ بھیج دے۔امجد صدیق ان تمام باتوں کا عینی شاہد ہے کیونکہ وہ اعتراف کرتا ہے کہ بیس پچیس سال پہلے اس نے بھی ایک ایجنٹ کو چھ ہزار ڈالرز دے کر کوریا سے جاپان تک اس طرح غیرقانونی سفر کیا تھا۔اس نے اس خوفناک سفر کی کہانی اپنی اس کتاب میں لکھی ہے جو ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہئے خصوصا ًجو بچے بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد کو یورپ جانے کیلئے موت کو گلے لگانے کے اس شوق کو دیکھ کر سرائیکی کا وہ فوک گیت یاد آتا ہے جس میں پردیس کو ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں لوگوں کا یہی مزاج رہا ہے کہ وہ بھوکا رہنا پسند کر لیں گے لیکن وہ اپنا گھر‘ گائوں یا علاقہ نہیں چھوڑیں گے۔ انہیں لگتا ہے پردیس میں مونجھ ( اداسی) انہیں مار ڈالے گی۔ہمارے سرائیکی فوک گیتوں میں اکثر اپنے محبوب سے جو شکوہ کیا جاتا ہے اس کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ میرے محبوب تم یہیں رہو‘ دور نہ جائو‘ پردیس نہ جائو‘ تم واپس نہیں آئو گے۔اس لیے ہماری مائیں بھی بچوں کو باہر نہیں جانے دیتی تھیں۔ایک مسلسل خوف اور ڈر اُن کے سر پر سوار رہتا تھا کہ اگر ہمارا بیٹا پردیس چلا گیا تو پھر نہیں لوٹ گا۔حالانکہ دیکھا جائے تو سرائیکی علاقوں میں غربت زیادہ ہے۔وہاں انڈسٹری نہ لگنے کی وجہ سے نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب سرائیکی علاقوں میں تبدیلی آرہی ہے کہ ہمارے نوجوان اب اپنے گھر بار چھوڑ کر فیصل آباد‘ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر د بئی چلے جاتے ہیں۔ وہ یورپ جانے کا رسک نہیں لیتے کیونکہ ایک تو ان کے پاس بیس‘ تیس لاکھ روپے ایجنٹ کو دینے کے لیے نہیں ہوتے اور پھر وہ سفر کی مشکلات اور موت سے خوف زدہ ہیں‘ جبکہ سینٹرل پنجاب کا نوجوان یہ سب خطرات مول لینے کو تیار ہے کیونکہ اب اس کا مسئلہ بنیادی ضرورت سے زیادہ گائوں میں فلاں کے بیٹے کا یورپ سے اپنے خاندان کو پیسے بھیجنا بھی ہے۔اب یہ شریکا بن چکا اور یوں جب بہت سے فیکٹرز اکٹھے ہوتے ہیں تو نوجوان اپنی زندگیاں دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اگر مسئلہ صرف غربت اور روٹی کا ہے تو جب سرائیکی علاقوں کے نوجوان سینٹرل پنجاب کے صنعتی یونٹس میں نوکریاں کرنے جاتے ہیں تو پھرسینٹرل پنجاب کے نوجوان خود وہ نوکریاں کیوں نہیں کرتے جو سرائیکی علاقوں کے نوجوان ان کے علاقوں میں جا کر کررہے ہیں اور وہاں سے اس طرح محنت مزدری کر کے پیسے کما کر اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں جیسے وہ یورپ جا کر گھر بھیجنا چاہتے ہیں؟ایک دفعہ پھر اجنبی ساحلوں پر ہزاروں میل دور اپنے خاندانوں کے خوابوں کی تلاش میں سرگرداں سینٹرل پنجاب کے ان نوجوان بچوں کی لاشیں دیکھ کر دل ٹوٹ گیا ہے۔
وہی سرائیکی فوک گیت یاد آیا:
ڈھولا لمے نہ ونج او … لما دور دا پندھ اے
لما دور سڑیندا … جہتوں ول نئیں اویندا
(میرے پیارے پردیس مت جائو۔سنا ہے پردیس بہت دور ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا)