پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
سپریم کورٹ کا ایمانی فیصلہ:پیر فاروق بہاو الحق شاہ
22 اگست 2024ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے آنیوالے ہوا کے خوشگوار جھونکے نے پورے ملک کی فضا معطر ومعنبر کر دی۔
لوگ ایک لمحے کیلئے مہنگائی، دہشت گردی، بجلی کے بلوں اور دیگر معاشی و سیاسی مسائل سے باہر نکل آئے اور سب یکجان ہو کر عقیدہ تحفظ ختم نبوت کیلئے ایک پیج پر نظر آئے۔کچھ یوٹیوبر دانشور اس پر معترض بھی دکھائی دیئے لیکن وہ سارے احباب شاید اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت سے پوری طرح آگاہ نہیں۔
عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس ہے اور یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر قصر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ عقیدہ تحفظ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد جو لشکر سب سے پہلے روانہ کیا گیا وہ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کیلئے تھا۔ عقیدہ ختم نبوت کو دستور پاکستان کا تحفظ بھی حاصل ہے کیونکہ دستور کے آرٹیکل (1) کے مطابق یہ اسلامی مملکت ہوگی جبکہ آرٹیکل 2 میں درج ہے یہاں کا کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگا۔
اسی طرح دستور کی شق 227(1) کے تحت پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ قرآن و سنت کیخلاف قانون سازی کرے۔اس عقیدہ کے تحفظ کیلئے 1954 ء میں مسلمانوں نے اپنا خون بہایا۔29 مئی 1974 ءکو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پیش آنیوالے واقعہ کے نتیجے میں ایک بڑی تحریک چلی۔پھر یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آیا۔
طویل مباحثہ اور سوال و جواب کے بعد 7ستمبر 1974ء کو پارلیمان نے قانون سازی کے ذریعے متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم قرار دیدیا۔ 26اپریل 1984ءکو اس وقت کی وفاقی حکومت نے امتناعِ قادیانیت کا آرڈیننس جاری کیا۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس وفاقی شرعی عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں آیا جہاں پر جسٹس محمد افضل ظلہ، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور جسٹس تقی عثمانی پر مشتمل بینچ نے ایک فیصلے کے ذریعے یہ آرڈیننس پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق قرار دیا۔
اسکے علاوہ متعدد فیصلے بھی ریکارڈ پر ہیں۔1988ء میں قادیانیوں نے پہلی مرتبہ کسی عالمی فورم پر یہ مسئلہ اٹھایا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ جس کے دفاع کیلئے ریاست پاکستان کی جانب سے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری جنیوا تشریف لے گئے جہاں انہوں نے دلائل کی طاقت سے پاکستانی موقف بیان کیا۔ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے حوالے دیئے۔
اس قانونی جنگ کے نتیجے میں 30اگست 1988ء کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے قادیانیوں کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عالمی فورم میں اس کاری ضرب کے بعد طویل عرصہ تک قادیانی خاموش رہے یہاں تک کہ 2019ء میں قادیانیوں کی طرف سے لٹریچر کی تقسیم سے ایک تنازع شروع ہوا۔ 2022ء میں مقدمہ درج ہوا اس مقدمے میں نامزد ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کیلئے سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ نے اپیل مسترد کی تاہم چھ فروری 2024ء اور 24جولائی 2024ء کو سپریم کورٹ میں اس پر متنازع فیصلہ پورے ملک میں بے چینی کا باعث بنا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر راہنمائی کیلئے دیگر دینی اداروں کیساتھ ساتھ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کو بھی خط لکھا۔
جس پر ادارہ کے سربراہ پیر محمد امین الحسنات شاہ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ڈاکٹر پیر ابوالحسن محمد شاہ الازہری اور مفتی اعظم پاکستان مفتی شیر محمد خان پر مشتمل تھی۔ بھیرہ شریف کے اسکالرز نے طویل محنت اور عرق ریزی سے دلائل تیار کئے۔ ڈاکٹر مفتی تقی عثمانی، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سمیت متعدد علماء اور اسکالرز عدالت میں پیش ہوئے۔
تاہم مفصل گفتگو کا موقع مفتی تقی عثمانی اور مفتی شیر محمد خان کو ہی ملا اور سب حضرات نے مفتی شیر محمد کے دلائل کی تائید اور توثیق کی۔ ان دلائل کا بنیادی نکتہ یہ بھی تھا کہ جس طرح چار دیواری میں ملک کیخلاف سازش کرنا جرم ہے اسی طرح بند کمروں میں لوگوں کو مرتد کرنا بھی جرم ہے۔
اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان نے بھی اس امر کی تائید کی کہ اس معاملے میں علما کی آرا کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے اس ایمانی فیصلے نے 1974ء میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کی یاد تازہ کر دی۔ ملک گیر سطح پر تمام مکاتب فکر نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دارالعلوم بھیرہ شریف کی طرز پرقائم دینی اداروں کے فارغ التحصیل علماء کی مدد سے سپریم کورٹ اس بحران سے نکل سکی۔
پوری قوم اس فیصلے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ دینی ادارے ہی پاکستان کی نظریاتی اساس کے محافظ ہیں۔ یہاں پر یہ امر بھی باعث اطمینان ہے۔ دانشوروں اور نام نہاد مفکرین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ختم نبوت محض دینی قانونی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ 2 ارب مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔کسی اقلیت کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اکثریت کے حقوق غصب کرے یا انکے بنیادی عقائد مجروح کرے۔
قادیانیوں کو بطور اقلیت تمام حقوق حاصل ہیں لیکن انہیں اکثریت کے جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو اس حوالے سے تعلیم دیں اور عقیدہ ختم نبوت کی تعلیم کا معقول بندوبست کریں۔کیونکہ عقائد کا تحفظ خیالی باتوں یا محیر العقول واقعات بیان کرنے سے نہیں بلکہ ثقہ کتب کے مطالعے اور جید علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔