معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو “سنکی” مشہور تھی
ایملی ڈکنسن کی نظمیں غم و اندوہ اور گہری یاسیت کا مرقع ہیں۔ امریکہ میں انگریزی زبان کی یہ سب سے بڑی شاعر تنہائی پسند تھی اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے کم ہی باہر نکلتی تھی۔
ایملی ڈکنسن کی خلوت پسندی تو غیرمعمولی یا پریشان کُن نہیں تھی، لیکن وہ پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی گریزاں رہتی تھی۔ ایملی ڈکنسن لوگوں سے میل جول بڑھانے میں ہمیشہ جھجکتی رہی۔ اسی بنیاد پر مقامی لوگوں کے درمیان وہ ایک سنکی عورت مشہور ہوگئی تھی۔ جواں عمری میں ایملی موت کو ایک بڑا خطرہ تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب انھوں نے ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔
انیسویں صدی کی شاعرہ ایملی ڈکنسن نے موضوعات کے برتاؤ اور ہیئت کے تجربات میں جس جدّت کا اظہار کیا، اس نے اگلی صدی میں بھی پڑھنے والوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔ تاہم اس شاعرہ کو ابدی نیند سونے کے بعد دنیا بھر میں پہچان مل سکی۔ امریکہ میں ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
ایملی ڈکنسن نے 10 دسمبر 1830ء میں امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے، لیکن یہ کنبہ مالی طور پر مستحکم نہیں تھا۔ مگر وہ اپنے بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے اور ان کو کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور ڈسپلن کا خیال رکھنے والے انسان تھے اور یہی عادت ایملی ڈکنسن میں بھی منتقل ہوئی تھی۔ اس نے پرائمری کی تعلیم قریبی اسکول سے مکمل کی اور پھر ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں داخلہ لیا جہاں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ ایملی ڈکنسن نے کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں دل چسپی لینے لگی تھی اور بعد میں طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کیا۔ اسی زمانے میں اس نے شاعری کا آغاز کیا، مگر ایک عرصہ تک وہ کسی پر بطور شاعرہ نہیں کُھلی تھی۔ ایملی ڈکنسن نے مکتوب نگاری کے ذریعے دوسروں سے رابطہ رکھنا پسند کیا اور اس کے ذریعے دوست بنائے۔
اگرچہ ایملی ڈکنسن کے شناسا جانتے تھے کہ وہ شاعری کرتی ہے، لیکن اکثریت اس کا کلام پڑھنے سے قاصر تھی۔ ایملی کی موت کے بعد اس کی بہن نے کئی نظمیں کتاب میں یکجا کیں اور 1890 میں اس کا پہلا مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے دوستی کے بعد ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں اور یوں اسے بڑا حوصلہ ملا۔ سموئیل اور اس کی بیوی میری ایملی ڈکنسن سے ملنے کے لیے اکثر اس کے گھر آتے تھے۔ اس زمانے میں ڈکنسن نے مذکورہ مدیر کو تین درجن سے زائد خطوط لکھے اور پچاس کے قریب نظمیں ارسال کی تھیں۔ چند نظمیں دیگر رسائل کی زینت بنی تھیں، لیکن یہ قابلِ ذکر تعداد نہیں۔
ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس امریکی شاعرہ کو عام طور پر ایک گوشہ نشیں خاتون اور غم زدہ شاعرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
15 مئی 1886ء کو ایملی وکنسن نے اُس خطرے کا سامنا کیا جس کے تصوّر سے کئی سال تک وہ خوف زدہ رہی تھی۔ ایملی وکنسن کو موت نے ابدی نیند سلا دیا۔ اس نے شادی نہیں کی تھی۔
تعجب کی بات ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال کے دوران ادبی رسائل اور ایملی ڈکنسن سے متعلق تحریروں کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں ایک مداح نے نیلام کے دوران ایک تصویر میں شاعرہ کو پہچان کر اسے خرید لیا تھا۔تاہم یہ تصویر بھی اس کے دس سال بعد منظرِ عام پر آئی اور شاعرہ کے آبائی قصبے ایمہرسٹ کے کالج کی جانب سے اعلان میں کیا گیا کہ تحقیق کے بعد یقین سے کہا جا رہا ہے کہ انگریزی کی اس بڑی شاعرہ کی ایک اور تصویر بھی موجود ہے۔ یوں ایملی ڈکنسن کی زندگی کی صرف دو تصویریں ملی ہیں جن میں سے پہلی اس وقت کی ہے جب شاعرہ کی عمر 17 برس تھی۔ دوسری اور دریافت کی گئی تصویر میں ایملی اپنی ایک سہیلی کے ساتھ نظر آرہی ہے جس کا نام کیٹ ٹرنر بتایا گیا ہے۔ یہ تصویر 1859ء کی ہے۔