نگران وزرائے اعظم کیلئے ’’سامنے آنیوالے‘‘ نام ’’پس منظر میں‘‘

نگران حکومت کا قیام محض چند دنوں کی دوری پر ہے اور اب نگران وزیراعظم کا فیصلہ بھی ایک یا دو دنوں میں سامنے آسکتا ہے متوقع نگران وزرائے اعظم کے ناموں کی جو فہرست کافی دنوں سے گردش میں تھی وہ تو پس منظر میں جاچکی ہے جس میں سب سے پہلے اسحاق ڈار اور پھر شاہد خاقان عباسی کے نام بھی شامل ہیں لیکن اب ایک بار پھر ایک سابق جج اور سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا نام سامنے آرہا ہے.

یادرہے کہ حفیظ شیخ حکومت کی دعوت پر بیرون ملک سے پاکستان آئےتھےاور کئی ماہ سےخاموشی سے اسلام آباد میں قیام پذیر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے یا پھر قوم کے سامنے کوئی سرپرائز آئیگا۔

آئین اور قانون کے مطابق ملک میں نگران وزیراعظم کا منصب اپنے محدود اور طے شدہ اختیارات جن میں اولین ذمہ داری ملک میں غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا ہے اور روزمرہ کے معاملات چلانے ہوتے ہیں اسے اہم فیصلوں اور پالیسی سازی کیلئے منتخب حکومت جیسے اختیارات حاصل نہیں ہوتے۔

اس لئے کسی بھی سیاستدان اور کسی دوسرے اہم شعبے کی شخصیات کیلئے اس منصب کے حصول میں کوئی غیر معمولی کشش نہیں ہوتی پھر یہ بھی احساس دامن گیر رہتا ہے کہ تین ماہ کا عرصہ نیک نامی سے گزار لیا جائے تاکہ کچھ اور بنے یا نہ بنے لیکن ایک ساکھ تو بن جائے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ نگران وزیراعظم کے منصب کے حصول کیلئے ملک بھر سے مختلف شعبوں کی لاتعداد شخصیات ناصرف غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں بلکہ اس مقصد کیلئے سبقت لے جانے کیلئے وسائل اور تعلقات استعمال کرنے کی بھی خبریں آ رہی ہیں اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ابتدا سے ہی ان قیاس آرائیوں میں یقین کے ساتھ ساتھ اعتماد بھی شامل ہوتا رہا کہ ملک میں عام انتخابات متعینہ مدت میں نہیں ہونگےاور یہی وجوہ ہیں کہ ابھی تک نگران وزیراعظم کے نام پربادی النظر میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔

اس کی ابتدائی وجہ نگران حکومتوں کے اختیارات میں اضافے کا ایکٹ اور وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے قبل از وقت یعنی 9اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ نگران حکومت کی آئینی مدت اب چھ ماہ نہیں بلکہ آئینی طور پر 9ماہ ہوگی اور اسے بھی حتمی مدت نہیں کہا جا سکتا۔

قیاس آرائیوں کے مطابق نگران حکومت کا عرصہ کئی سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے اور نئی نگران حکومت چھ ماہ،نو ماہ سے دو سال تک حکومتی امور انجام دیں گے اور ظاہر ہے کہ جب ’’نگران حکومت‘‘اتنے طویل عرصے کیلئے آئی بھی تو اس کے اختیارات میں بھی تجاوز کرنا ہوگا تو اسے آئین اور قانون سے تجاوز کر کے فیصلے کرنے ہونگے پھر پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومتوں کے قیام غیر معینہ مدت کی توسیع،اختیارات، اہم فیصلے اور کافی حد تک تعمیر وترقی کے کام گو کہ یہ ان کا مینڈیٹ نہیں تھا .

لیکن وہ’’بخیروخوبی‘‘انجام دے رہے ہیں اور نہیں لگتا کہ دونوں صوبوں بالخصوص پنجاب میں کام کرنے والی حکومت ’’نگران حکومت‘‘ہے اس صورتحال سے نگران حکومت میں وزارت عظمیٰ اور نگران کابینہ کیلئے خواہش مندوں کو ترغیب اور جلا ملتی ہے۔