سینئر کریئر ڈپلومیٹ جلیل عباس جیلانی کا نام پاکستان کی سفارتکاری کے حوالے سے معتبر اور بین الاقوامی سفارتی کمیونٹی میں مانوس ہے ان کی سفارتی ذمہ داریوں کی تفصیل بھی طویل ہے وزارت خارجہ میں اہم نوعیت کی ذمہ داریاں دینے کے ساتھ ساتھ کئی غیرملکی اہم اداروں اور پاکستان کے سفارتخانوں میں ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں، تاہم ان کی اہم تقرریاں پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار حکومت بالخصوص سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور وزارت عظمیٰ کے دوران ہوئیں جو ان کے فرسٹ کزن ہیں۔
نگران وزیر خارجہ منتخب ہونے والے جلیل عباس جیلانی نے قانون میں بی اے اور دفاعی امور میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، مارچ 1979 میں پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت سے قبل آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور وکیل تعلیم حاصل کی، وہ فرانسیسی، عربی، سرائیکی، پنجابی اور پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، انہوں نے 1979 میں پاکستان کے وزارت خارجہ میں بطور افسر شمولیت اختیار کی، وہ سیکرٹری خارجہ تعینات ہونے سے پہلے بیلجیم، لکسمبرگ اور یورپی یونین میں پاکستان کے سفیر رہے۔
ججز پربڑی پابندی عائد جلیل عباس جیلانی اپنی سفارتی ذمہ داریوں کے دوران برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر کے ساتھ بھی رابطے میں رہے، اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے دوران انہوں نے جنوبی ایشیائی امور میں مہارت حاصل کی، وہ 1992 سے 1995 تک وزارت خارجہ میں بھارت کے لیے ڈائریکٹر رہے مظفر گڑھ کے قصبے خان گڑھ کے محلہ سادات سے تعلق رکھنے والے سید جلیل عباس جیلانی کا خاندانی پس منظر خاصا اہم اور کئی حوالوں سے قابل ذکر ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس (ر) تصدیق جیلانی ان کے انکل جبکہ والد اظہر حسین جیلانی اور بڑے بھائی اصغر حسین جیلانی بھی سول سرونٹ تھے اور پنجاب کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔
دوسری طرف بعض اہم حلقے تصدیق کرتے ہیں کہ جلیل عباس جیلانی کا نام نگران وزیراعظم کیلئے فائنل ہوچکا تھا اور اس ضمن میں ابتدائی عملی اقدامات (پروٹوکول) کے احکامات بھی جاری ہوگئے تھے لیکن نامعلوم وجوہ پر ان کا نام ڈراپ ہوا۔
سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نگران وزیر خارجہ تعینات ہوگئے۔