پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
افضل چن‘ میاں اظہر سے اسحاق خاکوانی تک
ان سیاسی لوگوں کی نفسیات پر غور کریں جو اس وقت گھروں سے باہر بھاگے ہوئے ہیں‘ جن پر فوج کی تنصیبات پر حملوں کا الزام ہے۔ پولیس ان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کے خاندان کو ہراساں کر رہی ہے۔ اب وہ لوگ کہاں چھپے ہیں اور کیا وہ نارمل نیند لے پارہے ہیں؟ہر وقت دھڑکا لگا ہوتاہوگا پولیس نہ آجائے یا چھاپہ نہ پڑ جائے۔ پھر اپنے گھر والوں کی فکر الگ کہ کہیں بیٹا بیٹی‘ باپ یا ماں کو ہی قید نہ کر لیا جائے اور اس طرح کے ایشوز سامنے بھی آئے ہیں جب سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے والدین یا بچوں کو اٹھا لیا گیا۔
اور تو اور ہمارے دوست ندیم افضل چن کے والدِ محترم حاجی افضل چن صاحب کوبھی گرفتار کر لیا گیا‘ کیونکہ ان کا ایک بیٹا پی ٹی آئی کا ایم پی اے رہا ہے۔ اس پر بڑا شدید ردِعمل آیا۔ ندیم افضل چن صاحب تو خود زیارت کرنے نجف گئے ہوئے ہیں۔ اب آپ بتائیں ندیم افضل چن پر کیا گزری ہوگی جب انہیں وہاں پتہ چلا ہوگا ان کے پچھتر سالہ والد کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی۔ان کے والد کو تو سیاست چھوڑے برسوں گزر گئے لیکن پھر بھی پولیس بھیج کر انہیں گرفتار کرا لیا گیا۔ میں خود حاجی افضل چن صاحب سے دو تین دفعہ مل چکا ہوں اور کیا شاندار آدمی ہیں۔ پرانے دور کی روایات کے حامل انسان۔ ہر ایک سے عزت اور محبت سے پیش آنے والے۔ جن سے مل کر آپ کو اچھا لگے اور وہ آدمی جو اپنی محفل میں کسی کو اپنے سے کم تر محسوس نہ ہونے دے۔ ندیم چن ایم این اے رہے‘ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی رہے اور بڑے دھڑلے سے کمیٹی بھی چلائی‘ لیکن ان کے اندر کا دیہاتی ہمیشہ زندہ رہا۔ پی پی پی چھوڑکر پی ٹی آئی جوائن کی۔ عمران خان کی کابینہ میں مشیر بھی رہے اور ہمیشہ ڈٹ کرکابینہ اجلاسوں میں گفتگو کرتے اور اپنے تئیں جو درست سمجھتے‘ اجلاسوں میں کہتے اور بعض دفعہ ایسی باتیں بھی کہہ دیتے جو وزیراعظم یا ان کے اہم وزیروں کو ناگوار گزرتیں۔
ندیم افضل چن سے پہلے یہ مزاج اسحاق خاکوانی کا تھا جو وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے ریلوے تھے۔ وہ بھی شوکت عزیز کو منہ پر سنا دیتے تھے۔ ایک سیاسی آدمی ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کا ذہن دوسروں سے مختلف سوچتا ہے اور وہ لڑائی جھگڑے اور مخالفوں سے ہر وقت مار کٹائی کے بجائے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے شوکت عزیز سیاسی انسان نہ تھے لہٰذا وہ ان باتوں کی اہمیت سے آگاہ نہ تھے یا پھر شوکت عزیز کو پتہ تھا کہ میں کون سا سیاسی پارٹی کا سربراہ بن کر یہاں تک پہنچا ہوں یا سیاسی جدوجہد کی ہے یا میں عوام کو جوابدہ ہوں۔ پرویز مشرف کی وجہ سے ان کی بھی لاٹری نکل آئی تھی۔ جب تک مشرف کا ڈنڈا چل رہا ہے وہ بھی وزیراعظم ہیں‘ لہٰذا انہوں نے سیاست اور سیاسی لوگوں کی پروا نہ کی۔ اکثر اجلاسوں میں اسحاق خاکوانی سے کچھ بحث ہوجاتی تھی۔ اسحاق خاکوانی بھی بادشاہ بندے تھے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی 2007ء میں بائیوگرافی چھپی جس میں لکھا تھا کہ شوکت عزیز نے انہیں ” چارم‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے لفظوں پاکستانی وزیراعظم نے یہ سوچ کر مجھ پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ ہینڈسم مرد ہیں۔ مسز رائس کی بائیوگرافی میں انکشاف کیا گیاکہ 2005 ء میں جب کنڈولیزا رائس پاکستان آئیں تو شوکت عزیز سے ملاقات ہوئی۔ شوکت عزیز کے بارے سفارتی حلقوں میں مشہور تھا کہ وہ اکثر یہ بڑھکیں مارتے پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی بھی خاتون کو دو منٹ میں گھیر سکتے ہیں۔انہوں نے اپنا trick امریکن وزیر خارجہ پر بھی آزمانے کی کوشش کی تو میٹنگ میں جس میں پاکستانی عہدیدار اور امریکن بھی موجود تھے‘ میڈم رائس نے ایسی گھوری شوکت عزیز کو ڈالی کہ ان سے بات نہیں ہورہی تھی کہ وہ کہاں نکل جائے۔جب یہ خبر امریکن پریس میں چھپی تو اسحاق خاکوانی نے وہ خبر ساتھ لگا کر مشرف کو خط لکھا کہ جناب آپ اپنے وزیراعظم کی حرکتیں ملاحظہ فرمائیں۔ کچھ دن بعد اسحاق خاکوانی کو ڈی جی آئی بی بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے ملاقات کے لیے بلایا اور وہ خط ان کے سامنے رکھ دیا۔ اسحاق خاکوانی کچھ حیران ہوئے کہ وہ خط تو پرویز مشرف کو لکھا گیا تھا یہاں کیسے پہنچا۔ اعجاز شاہ نے کہا: وہ خط مشرف نے انہیں بھیجا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسحاق خاکوانی پر دبائو ڈالیں کہ وہ اپنے وزیراعظم کے خلاف اپنا خط واپس لیں۔پرویز مشرف نے وہ خط اور مسز رائس کا سنگین الزام اپنے وزیراعظم شوکت عزیز کو بھیج کر جواب طلبی کرنے کے بجائے الٹااس وزیر پر ڈی جی آئی بی کے ذریعے دبائو ڈلوایا کہ وہ خط واپس لے۔اس سے آپ اندازہ کر لیں ملک کی حکمران ایلیٹ کیسے ایک دوسرے کا تحفظ کرتی ہے۔
ندیم افضل چن بھی یہی کام عمران خان کی کابینہ میں کرتے رہے اور جب انہیں کہا گیا کہ وہ بھی دیگر وزراکی طرح میڈیا پر عثمان بزدار کی تعریفیں کیا کریں جس پر وہ انکاری ہوئے کہ اب ان کی کیا تعریفیں کریں‘ ابھی یہ معاملہ چل رہا تھا کوئٹہ میں ہزارہ نسل کے لوگوں کو قتل کیا گیا تو مظاہرین سڑک پر اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر بیٹھ گئے کہ وزیراعظم عمران خان ان کے پاس آئیں جس پر خان صاحب بھی ڈٹ گئے۔ خان نے کہا: وہ لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔اس پر ندیم افضل چن نے کھل کر بات کی تو خان صاحب نے کابینہ اجلاس میں کہا: جس کو ان کی پالیسوں سے اختلاف ہے وہ بے شک چھوڑ جائے۔ کسی اور وزیر کی غیرت نہ جاگی۔ وزارت غیرت پر بھاری پڑ گئی۔صرف ندیم افضل چن وہاں سے واپس آئے اور عمران خان کو اپنی وزارت سے استعفیٰ بھیج دیا۔ سب دوستوں نے سمجھایا کہ یہ کیا بیوقوفی ہے۔ خان نے بھی یہی کہا کہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا‘جنرل بات کی تھی۔ چن نے کہا :نہیں وہ ان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے آئے ہیں۔ وزیراعظم کی بات ٹھیک ہے اگر میں ان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتا تو مجھے کابینہ میں نہیں رہنا چاہیے۔ وہ عمران خان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے تقریبا ًایک سال پہلے وزرات چھوڑ گئے جس پر ان کے گھر اور علاقے والے سب ناراض ہوئے کہ بھلا کون وزارت چھوڑتا ہے۔
ندیم چن کے ایک بھائی پی ٹی آئی کے ایم پی اے تھے وہ سب سے زیادہ ناراض ہوئے جس پر دونوں بھائیوں میں کشیدگی پیدا ہوئی۔اب اسی ایم پی اے بھائی کو پکڑنے کے لیے چھاپہ مارا گیا۔ بیٹا نہ ملا تو باپ کو اٹھا کر لے گئے۔ یہی کچھ میاں اظہرکے ساتھ لاہور میں کیا گیا ‘جب ان کے نوجوان بیٹے پی ٹی آئی کے سابق وزیر حماد اظہر کو پکڑنے کے لیے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ وہ نہ ملے تو 80 سالہ بزرگ سیاستدان میاں اظہر کو گرفتار کر کے لے گئے۔ ایک دور تھا کہ پرویز مشرف انہیں ملک کا وزیراعظم بنانے کے لیے تیار تھے۔ میاں اظہر سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔ انہیں پہلی دفعہ اپنے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کے جنازے پر لاہور میں دیکھا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ان کا ذکر ہمیشہ بڑے احترام سے کرتے تھے۔ خود میاں اظہر جب گورنر پنجاب تھے تو انہوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے پہلی دفعہ عوام پر کھول دیے تھے اور نئی اور اچھی روایات قائم کی تھیں۔ انہوں نے سیاست میں شائستگی اور شرافت کو برقرار رکھا۔اگرچہ بعد میں میڈیا اور عوامی دبائو پر ان دونوں کو چھوڑ دیا گیا‘مگر جس طرح ندیم افضل چن کے پچھتر سالہ والد حاجی افضل چن اور اسی سالہ میاں اظہر کو ان کے بچوں کو گرفتار کرنے کے لیے اٹھا لیا گیا وہ قابلِ شرم اور قابلِ مذمت ہے۔
اپنے کالم نگار ساتھی سلیم صافی کی لکھی بات یاد آئی کہ بقول مولانا ابوالکلام آزاد‘ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو دیکھ کر لگتا ہے سیاست اور حکمرانوں کی آنکھ میں شرم بھی نہیں ہوتی۔