معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
مارچ سے نومبر تک
کبھی پاکستانی سیاست میں مارچ بہت اہم ہوتا تھا۔ 2007ء کے بعد سے یہ سٹیٹس نومبر کو مل چکا ہے۔
ہر تین سال بعد ہر حکومت مارچ سے کچھ ماہ پہلے مشکلات میں گھر جاتی اور اکثر حکومتیں مارچ کے آنے سے پہلے ہی گھر چلی گئیں۔جنہوں نے وزیراعظم یا اسمبلی کو گھر بھیجنا ہوتا تھا تو وہ مارچ نہیں آنے دیتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی اگر مارچ گزر گیا (زیادہ تر حکومتی جماعتیں ہر تین سال بعد ہونے والے سینیٹ الیکشن میں اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں) تو پھر اگر ان کی حکومت گھر بھیج دی جائے تو بھی سینیٹ میں ان کا کنٹرول رہے گا اور نئی حکومت مشکلات کا شکار رہے گی۔اس دوران وہ حکومت تین سال مکمل کر چکی ہوتی اور عوام میں بھی غیرمقبول ہو چکی ہوتی تھی‘لہٰذا تین سال بعد اسے مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن سے پہلے چھٹی کرانا آسان ہو جاتا تھا۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ مارچ کی جگہ نومبر نے لے لی۔ سب سے پہلے نومبر کے اہم ہونے کا دور اس وقت شروع ہوا جب پرویز مشرف صاحب کے بارے میں سوال اٹھنا شروع ہوا کہ آیا وہ چیف کا عہدہ چھوڑ کر سویلین صدر بن کر بینظیر بھٹو کی اگلی حکومت کے ساتھ کام کریں گے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی جگہ نیا آرمی چیف کون ہوگا ؟
اس وقت بھی دو تین نام زیرغور تھے۔ یوں جب پرویز مشرف صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ وہ نومبر میں چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے تو ساتھ ہی نومبر کی اہمیت بن گئی۔ پاکستانی عوام 1998ء سے 2007 ء تک پرویز مشرف صاحب کو ہر وقت دیکھتے تھے‘ لہٰذا نئے آرمی چیف کی بات ان کے لیے کچھ حیران کن تھی۔ کچھ کا خیال تھا کہ پرویز مشرف صاحب ایسا رسک نہیں لیں گے اور اگر لیا تو وہ بھی پھر جلد رخصت ہوں گے۔ وہی ہوا‘ وردی کے بغیر پرویزمشرف صاحب ایک سال بھی نہ گزار سکے اور انہیں استعفیٰ دے کر جانا پڑا۔ پھر وہی ہوا‘ جب تین سال گزرے کہ نیا چیف کون ہوگا۔ نومبر 2010 ء میں نیا آرمی چیف مقرر کرنا تھا تو اس وقت بھی یہی باتیں شروع ہو گئیں کیونکہ پاکستان میں نئے چیف کی تعیناتی ہمیشہ بڑا ایونٹ سمجھا جاتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ ملک کے وزیراعظم کے الیکشن سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ نیا چیف کون ہوگا؛ تاہم پیپلز پارٹی نے بھٹو صاحب سے 1976 ء کا سبق سیکھتے ہوئے اس دفعہ کوئی رسک نہ لینے کا فیصلہ کیا اور کیانی صاحب کو ہی تین سال توسیع دے کر نومبر سے پہلے ہی اس مسئلے کو پیدا ہونے سے روک دیا۔
اس دوران 2013ء میں الیکشن ہوئے تو نواز شریف وزیراعظم بنے‘ پھر نومبر کا مہینہ اہم ہوچکا تھا کیونکہ کیانی صاحب کی ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچا تھا اور وہی پرانی بحث شروع ہوگئی کہ نیا چیف کون ہوگا۔ اس دوران پھر وہی باتیں شروع ہو گئیں کہ شاید کیانی صاحب کو چھ سال بعد نواز شریف مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع دے دیں گے۔ کیانی صاحب دور میں ہی الیکشن ہوئے تھے اور نواز شریف جلاوطنی کے بعد تیسری بار وزیراعظم بن گئے تھے‘ لیکن نواز شریف نے جنرل کیانی صاحب کو توسیع نہیں دی حالانکہ حکومت اس طرح کے اشارے دیتی رہی؛تاہم نومبر میں نواز شریف نے اچانک جنرل راحیل شریف کو نیا آرمی چیف لگا کر بہت سے لوگوں کو حیران کیا کیونکہ ان سے تین سینئر جنرلز موجود تھے اور چین کے دورے میں صحافیوں کے ساتھ غیررسمی ملاقات کے دوران (میں بھی موجود تھا) نواز شریف کہہ بھی چکے تھے کہ وہ اس دفعہ سب سے سینئر جنرل کو چیف بنائیں گے۔نواز شریف ایک اور کام بھی کرتے ہیں‘ چونکہ سب سے زیادہ آرمی چیف ان کے ادوار میں مقرر کیے گئے‘ وہ موجودہ چیف سے پوچھتے تھے کہ وہ اپنی مرضی کے جنرل کا نام دیں جو ان کے خیال میں نیا چیف ہونا چاہیے‘ یقینا ہر چیف چاہتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد وہ جنرل چیف بنے جو ان کی پالیسیوں یا سوچ کو جاری رکھے۔ نواز شریف نے ہمیشہ ہر چیف سے ان کی مرضی کے جنرل کا نام پوچھا‘ مگر اسے کبھی نہیں لگایا اور جب وہ نیا چیف وزیراعظم نواز شریف سے پہلی ملاقات کرنے گیا تو اسے ہمیشہ یہ بھی بتایا کہ ان کے سابق باس ان کو چیف نہیں لگوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے فلاں جنرل کا نام لیا تھا لیکن ہم نے آپ کو بنایا۔ مقصد یہ ہوتا کہ نیا چیف پہلے دن سے ہی اپنے سابق باس کی پالیسوں سے ہٹ کر سوچے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ اپنی تعیناتی کے لیے نواز شریف کا شکر گزار رہے۔
یہ الگ کہانی ہے کہ پانچ آرمی چیف جو نواز شریف نے لگائے ان کی ہر ایک سے لڑائی ہوئی اور اس سوچ کے باوجود وہ ایک چیف بھی ایسا نہ لاسکے جسے وہ ”اپنا بندہ‘‘ کہہ سکتے کیونکہ ان کے بارے مشہور تھا کہ وہ آئی جی پولیس جیسے کردار کی آرمی چیف سے توقع رکھتے تھے جو شاید پاکستان جیسے ملک میں ممکن نہیں۔جب نومبر 2016ء میں نئے آرمی چیف کا مسئلہ کھڑا ہوا اس وقت بھی یہی سسپنس پیدا ہوا کہ آیا جنرل راحیل صاحب کو نومبر میں تین سال کی توسیع ملے گی یا نیا چیف آئے گا۔ اس دوران جنرل راحیل صاحب اور حکومت میں شدید اختلافات ابھرے اور ڈان لیکس سامنے آئیں۔ ڈان لیکس میں نواز شریف کی پوری حکومت کی انکوائری ہوئی‘ دو‘ تین وزیر فارغ ہوئے اور معاملات بہت بگڑے۔ حکومت دعویٰ کرتی تھی کہ یہ سب اس لیے ہوا کہ نواز شریف جنرل راحیل صاحب کو ایکسٹینشن نہیں دینا چاہتے تھے۔
نومبر 2016ء میں بھی وہی ہوا جب جنرل باجوہ کو نواز شریف نے چیف لگایا اور وقتی طور پر لگا کہ شاید اب بحران کسی ٹھکانے لگ جائے گا اور واقعی جنرل باجوہ نے کچھ ٹف فیصلے کیے اور ڈان لیکس کا باب بند ہوا لیکن اس دوران پاناما لیکس شریف خاندان کو ہِٹ کر چکی تھیں اور نیا بحران پیدا ہو چکا تھا اور یوں نواز شریف نہ صرف رخصت ہوئے بلکہ جیل گئے۔ 2018ء میں الیکشن کے بعد عمران خان وزیراعظم بن چکے تھے اور نواز شریف جیل میں تھے۔ ایک سال بعد پھر نومبر میں نیا چیف لگنا تھا لیکن عمران خان نے بھی وہی پیپلز پارٹی والا راستہ چنا اور جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع دے دی اور بحران ٹل گیا لیکن اب کی دفعہ وہ مستقل انتظام کر گئے کہ آرمی چیف کو توسیع دلانے کا کام پارلیمنٹ سے کرا کے اسے قانون بنوا دیا۔
اب پھر نومبر قریب ہے اور اس دفعہ پھر بحث شروع ہے کہ نیا چیف کون ہوگا۔ بادی النظر میں جنرل باجوہ وہی صورتحال فیس کررہے ہیں جو کبھی ان کے سابق باس جنرل کیانی صاحب 2013ء میں کررہے تھے‘ مگر جنرل باجوہ کہہ چکے ہیں کہ وہ توسیع نہیں لیں گے۔ عمران خان بھی کھل کر میدان میں آ چکے ہیں کہ نیا چیف نومبر میں نہیں لگنا چاہیے۔ وہ جنرل باجوہ کو ہی اس وقت تک رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں‘ جب تک کہ نئے الیکشن کے بعد نئی حکومت نہیں آجاتی جبکہ شہباز شریف حکومت تلی ہوئی ہے کہ وہ نیا چیف لگائے گی۔
عمران خان‘ نومبر میں لانگ مارچ کا عندیہ دے چکے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو اسلام آباد کا گھیرائو ہوگا اور خون خرابے کا اندیشہ بھی خارج از امکان نہیں۔ یوں ایک دفعہ پھر نومبر اہم ہو گیا ہے۔ پاکستانی قوم کی قسمت۔ ایک نیا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ہر تین سال بعد مارچ سے نکلتے ہیں تو نومبر میں پھنس جاتے ہیں۔