ٹنگ ہل کارنیول سے عالمی امن تک: خالد ارشاد صوفی

کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں نائف اینجل (Knife Angel) کا ذکر کیا تھا اور بتایا تھا کہ کس طرح برطانوی معاشرہ سٹریٹ کرائمز کے دوران ہونے والے چاقوؤں اور خنجروں کے حملوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

اس کی تازہ ترین نظیر یہ ہے کہ پُر تشدد واقعات نے پورے یورپ کے سب سے بڑے سٹریٹ فیسٹیولز میں سے ایک ’لندن کے نوٹنگ ہل کارنیول‘ (Notting Hill Carnival) کی خوشیوں اور رنگوں کو ماند کر دیا ہے کیونکہ پُر تشدد واقعات میں متعدد شہری چاقوؤں اور خنجروں کے واروں سے زخمی ہو چکے‘ جس کے بعد سینکڑوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور یہ خطرہ برقرار ہے کہ کہیں مزید حملے نہ ہو جائیں۔

میں نے لکھا تھا کہ ایک برطانوی تنظیم نے ملک میں پُر تشدد سٹریٹ کرائمز خصوصاً چاقو اور خنجر سے ہونے والے حملوں کے سلسلے کو روکنے کے لیے ایک مہم کے طور پر ایک یادگار تعمیر کرائی تھی جسے نائف اینجل کا نام دیا گیا تھا اور جس کی تعمیر اور تیاری میں وہ ہزاروں چاقو اور خنجر استعمال کیے گئے تھے جو چاقوؤں سے حملے کرنے والوں سے بازیاب کرائے گئے تھے یا جو چاقو سے حملہ آور ہونے والوں نے رضاکارانہ طور پر تنظیم کے حوالے کر دیے تھے لیکن لگتا ہے کہ اس یادگار (Monument)کی تعمیر برطانوی معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت کے خاتمے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکی کیونکہ اب پورا فیسٹیول ہی چاقوؤں کے حملے کے خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔

واضح رہے انگلینڈ اور ویلز میں چاقو کے حملوں میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے اور برطانوی ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء میں چاقو کے حملوں کے 14577 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ ایک مہینہ پہلے برطانیہ کے ساحلی شہر ساؤتھ پورٹ میں چاقو کے حملے میں تین بچیوں کی موت کا واقعہ تو کسی کو بھولا نہیں ہو گا جس میں پانچ بچے شدید زخمی ہو گئے تھے۔

اس حملے کا الزام ایک 17 سالہ لڑکے پر عائد کیا گیا اور اس کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی گئیں کہ حملہ آور مسلمان پناہ گزین ہے۔ اس افواہ کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کو پر تشدد واقعات کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس واقعہ کے بارے میں افواہ پھیلانے والا ایک پاکستانی تھا۔ آگے بڑھنے اور اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے دلچسپ معلومات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا، یہ کہ برطانیہ میں خنجروں اور چاقوؤں کے حملوں کا سلسلہ اس قدر دراز ہو چکا ہے کہ وہاں یعنی برطانیہ میں نائف لاز (Knife Laws) بنائے گئے ہیں۔

برطانیہ کے نائف لاز آپ کو تین انچ کے بلیڈ والا (جو لاک نہ ہو سکے یعنی جو کمانیوں کے بغیر ہو) چاقو رکھنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اگر آپ کے پاس اس پیمائش سے زیادہ لمبے بلیڈوں والا چاقو موجود ہے تو اس کے لیے آپ کو جواب دہ ہونا پڑے گا کہ آپ نے اسے اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے۔

پُر تشدد واقعات صرف برطانیہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ سوچوں‘ منصوبوں اور اقدامات میں تشدد ایک بڑھتا ہوا عنصر ہے اور یہ ایک عالمی مظہر ہے‘ کہیں کم کہیں زیادہ۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا پر امن تو نہیں تھی پھر بھی لوگ پُرسکون تھے۔ آج وہ سکون غارت ہو چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ بین الاقوامی سطح پر بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی مسائل ہیں‘ جنہوں نے ہر فرد‘ گروہ‘ ملک اور قوم کو مضطرب کر کے رکھ دیا ہے۔ مسائل اس دنیا میں ہر زمانے میں موجود رہے ہیں لیکن اتنیگھمبیر کبھی نہ ہوئے تھے جتنے اب ہو چکے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر انسان اور انسانیت نے ترقی کی ہے تو یہاں ماضی کے ادوار کی نسبت زیادہ امن ہوتا‘ زیادہ سکون ہوتا‘ زیادہ انصاف ملتا‘ زیادہ دانش مندانہ فیصلے کیے جاتے‘ لوگوں کو زندگی گزارنے کے بہتر حالات اور مواقع میسر آتے اور روئے ارض کو حقیقتاً امن کا گہوارہ بنا دیا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ جوں جوں حضرتِ انسان ترقی کر رہا ہے توں توں اس کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ اس کی بے انصافی‘ بد انتظامی اور عدم مساوات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی قوموں اور ملکوں کے فیصلے جنگوں کے ذریعے ہو رہے ہیں؟ فلسطین میں اسرائیل ظلم اور بہیمیت کی انتہا کر رہا ہے لیکن اقوامِ عالم معصوم بچوں کو قتل ہوتے اور ان کے والدین کو شہید ہوتے دیکھ رہی لیکن مہر بلب ہیں جیسے ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو‘ تو سوال یہ ہے کہ اگر افراد‘ گروہوں‘ شہروں اور سماجوں کی سطح پر ہونے والی بے انصافیوں اور بد انتظامیوں کا نتیجہ برطانیہ جیسے پُر تشدد واقعات کی صورت میں نکل رہا ہے تو ملکوں اور قوموں کی سطح پر ہونے والی بے انصافیوں کے نتائج کیا برآمد ہوں گے؟ فلسطین کے حقائق کے بارے میں آج کون لا علم ہو گا کہ حق پر کون ہے اور ناحق خون کون بہا رہا ہے۔

اسرائیل کس طرح اپنی حدود پھلانگتا چلا جا رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہو گی اس کے باوجود دنیا کے کچھ ممالک آج بھی اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں‘ اسے ہر طرح کا تعاون پیش کر رہے ہیں۔ یہ ممالک اور قومیں فلسطین کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں لیکن اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور اقدامات پر وہ ایسے خاموش ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

تو پھر وہی سوال کہ اگر سماجی سطح پر ہونے والی بے انصافیوں اور مالی و معاشی مسائل کے نتائج پُر تشدد واقعات کی صورت میں نکل رہے ہیں تو اقوام اور ممالک کی سطح پر ہونے والی بے انصافیوں کا نتیجہ آنے والے وقت میں کیا نکلے گا؟

آج مختلف سطح پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انسانی آبادی کے بڑھنے کی اگر یہی رفتار رہی تو آنے والے برسوں‘ دہائیوں اور صدیوں میں اس دنیا کے حالات کیا ہوں گے؟ اور یہ کہ انسانی آبادی کے بڑھنے کی کوئی انتہا بھی ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ اگر بے انصافیوں اور جانب داریوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو انسانی آبادی کسی انتہا کو چھونے سے پہلے ہی تباہی اور بربادی کا شکار ہو جائے گی؟ دو عالمی جنگوں کے نتائج ہم نے دیکھے اور تیسری عالمی جنگ کی بازگشت بار بار ہم سنتے رہتے ہیں۔ میرا خدشہ اور اندیشہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی بے انصافیاں اور بین الاقوامی مسائل کے حل کی طرف سے مجرمانہ غفلت نسل انسانی کو کسی بڑے چیلنج سے دوچار نہ کر دیں۔

اس سوال کا جواب انفرادی اور اجتماعی اور عالمی سطح پر تلاش کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی محسوس نہ کی گئی ہ گی۔