قیدی تخت لہور دے:حامد میر

جنرل ضیاء الحق کے دور ستم میں جنوبی پنجاب کے ایک شاعر عاشق خان بزدار کی ایک سرائیکی نظم ’’اَساں قیدی تخت لہور دے‘‘ بڑی مشہور ہوئی ۔ یہ نظم عاشق خان بزدار کے شعری مجموعے میں شامل تھی جس کا نام ’’ قیدی تخت لہور دے‘‘ تھا ۔

ایک نظم کا آخری مصرع جنرل ضیاء کی حکومت کیلئے وبال جان بن گیا کیونکہ تخت لاہور دراصل پنجابی اشرافیہ کی علامت تھا لہٰذا عاشق خان بزدار کی کتاب پر پابندی لگادی گئی۔ پابندی نے اس نظم کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ۔ عاشق خان بزدار کی لاہور شہر یا لاہوریوں سے کوئی لڑائی نہیں تھی۔ اس سرائیکی شاعر کی لڑائی اُس جبر سے تھی جس کو مسلط کرنے والوں کی طاقت کا مرکز لاہور تھالہٰذا شاعر کی نظم کا مصرعہ پہلے ایک سیاسی نعرہ بنا اور پھر ایک طعنہ بن گیا ۔

نظم پر پابندی لگانے والا فوجی ڈکٹیٹر قصّہ ماضی بن گیا لیکن یہ نظم آج بھی زندہ ہے ۔ گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس میں اس ناچیز کو عاشق خان بزدار کی یہ نظم بہت یاد آئی ۔ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے سربراہ سینیٹر علی ظفر نے مجھے ، ناصر زیدی اور محمد مالک سمیت کچھ دیگر صحافیوں کو حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے منظور کئے جانے والے ہتک عزت کے قانون پر گفتگو کیلئے دعوت دی تھی ۔

سینیٹ سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے تحریری دعوت نامے میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب اسمبلی سے منظور کئے جانے والے ہتک عزت کے قانون کا آئین پاکستان کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے گا اور اس قانون میں ترامیم کیلئے سفارشات پیش کی جائیں گی۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں صحافیوں اور ان کی تنظیموں کے عہدیداران کو بلانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کی سربراہی مسلم لیگ (ن) کے میاں جاوید لطیف کے پاس تھی اور انہوں نے کئی مرتبہ مجھے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کیلئے مدعو کیا۔ 2020ء میں ایک صحافی عزیز میمن کو سندھ کے علاقے محراب پور میں قتل کر دیا گیا۔

صحافی برادری ان کے قتل کی تحقیقات سے مطمئن نہ تھی۔ میں نے یہ معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں اُٹھایا اور میاں جاوید لطیف نے سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کو کمیٹی کے اجلاس میں طلب کرلیا۔ کمیٹی میں پیپلز پارٹی کے ارکان بھی شامل تھے لیکن کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ قومی اسمبلی صوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔6اگست 2024ء کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس میں سینیٹر علی ظفر نے پنجاب اسمبلی میں منظور کردہ ہتک عزت کے قانون پر بحث کا آغاز کیا تو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اعتراض کیا کہ ایک صوبائی اسمبلی کے منظور کردہ قانون پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی بحث نہیں کر سکتی یہ صوبے کے معاملات میں مداخلت ہے۔

سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی نہ کرے ۔ جب میں نے عرض کیا کہ اگر صوبائی اسمبلی ایسا قانون بنائے جو آئین سے متصادم ہو اور وفاقی قوانین سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو پھر اُس پر بحث میں کوئی حرج نہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے قدرے تلخ لہجے میں میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ وفاق اور ایک صوبے میں محاذ آرائی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

محمد مالک نے کہا کہ صوبے کو ایک قانون منظور کر کے ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ ناصر زیدی نے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر صاحبان کو جمہوریت کے لئے اُن کی خدمات یاد دلائیں اور کپکپاتے ہونٹوں سے اُنہیں التماس کی کہ خدا کے واسطے ایسے قوانین کا دفاع نہ کریں جو کل کو آپ کے خلاف بھی استعمال ہوں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے تینوں سینیٹر صاحبان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور انہوں نے بار بار یہی موقف دہرایا کہ سینیٹ کی طرف سے صوبے کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سرمد علی نے بھی اس دلیل کی تائید کی۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے عاشق خان بزدار کی نظم کا آخری حصہ بہت یاد آیا

ساڈے منہ تے جندرے جبر دے
ساڈے ہتھ کڑیاں وچ بند
اَساں قیدی تخت لہور دے
اَساں قیدی تخت لہور دے

قائمہ کمیٹی میں صوبے کے معاملات میں مداخلت کے نام پر پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ ایک ایسے بل پر گفتگو سے مکمل پرہیز کا مشورہ دیا گیا جسے پاکستان کی تمام صحافتی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسترد کر چکی ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) صرف پنجاب میں نہیں بلکہ وفاق میںبھی برسر اقتدار ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی سے ہتک عزت کا یہ قانون منظور نہیں کرایا لیکن پنجاب اسمبلی میں یہ قانون منظور کرانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ کچھ شکی مزاج اور گستاخ دوستوں کا کہنا ہے کہ دو بڑی جماعتوں میں تابعداری کا مقابلہ چل رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے میڈیا کو لگام ڈالنے کیلئے ہتک عزت کا قانون منظور کرانے میں جلدی اس لئے دکھائی تا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مستقبل میں بڑی کارآمد وزیراعظم ثابت ہو سکتی ہیں ۔ اس قانون کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ ہوتا تو ہم اس قانون کی ضرور حمایت کرتے لیکن اس قانون کے ذریعہ نہ صرف آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی گئی ہے بلکہ ایک متوازی عدالتی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔

تخت لاہور نے اس قانون کے ذریعہ جبر کے ایسے تالے اور زنجیریں متعارف کرائی ہیں جو پنجاب میں استعمال کرنے کے بعد سب پاکستانیوں کو پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے معزز سینیٹر صاحبان نے وہی کیا جو اُنکی پارٹی کا حکم تھا لیکن ہمیں وہی عرض کرنا ہے جو ہم صحیح سمجھتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ ہتک عزت کے قانون میں صحافی کی تعریف کو بدل دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کردہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021ء میں صحافی کی تعریف اور ہے اور اس صوبائی قانون میں کچھ اور ہے۔ اس صوبائی قانون کے سیکشن تین کے تحت آپ بغیر ثبوت کے کسی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر سکتے ہیں اور دعوے کی سماعت کرنے والا ٹربیونل کارروائی کے آغاز سے قبل ہی آپ کو 30 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔

آپ جرمانہ پہلے ادا کریں گے اور اپنا دفاع بعد میں کریں گے ۔یہ آئین پاکستان کی دفعہ 10 اے کی خلاف ورزی ہے جو ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ صوبائی قانون کے تحت خصوصی عدالتیں بنائی جائیں گی جن کے ججوں کی تقرری صوبائی حکومت کرے گی۔ صوبائی قانون میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار آئین پاکستان کی دفعہ 175 کے خلاف ہے جس میں ججوں کی تقرری کا ایک پروسیجر موجود ہے۔

اس نئے قانون کے تحت وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیراعلیٰ، گورنر، اسپیکر صوبائی اسمبلی، چیف الیکشن کمشنر، آرمی چیف سمیت سروسز چیفس پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ یہ آئین کی دفعہ 19کے خلاف ہے اور 248 کے بھی خلاف ہے جس کے تحت استثنیٰ صرف صدر کو حاصل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب کا یہ قانون بنگلہ دیش میں 2018 ء کے بعد نافذ کئے جانے والے قوانین سے نکالا گیا ہے جن کے تحت حسینہ واجد پر تنقید کو جُرم بنا دیا گیا تھا۔ صحافتی تنظیموں نے یہ بل عدالتوں میں چیلنج کر دیا ہے لیکن موجودہ حکومت تو عدالتی فیصلوں کو مسترد کرنے کی روایت کو مضبوط کر رہی ہے تو پھر پاکستان کے صحافی کدھر جائینگے؟ پاکستان کے اہل صحافت کو یا تو تخت لاہور کی غلامی قبول کرنے پڑے گی یا پھر عاشق خان بزدار کی طرح مزاحمت کرنی پڑے گی۔ فیصلہ کسی حکومت یا عدالت نے نہیں بلکہ ہم نے خود کرنا ہے۔