برطانیہ.4: خالد ارشاد صوفی

برطانیہ- 4
خالد ارشاد صوفی

28اکتوبر کی صبح 6بجے آنکھ کھل گئی۔ پاکستان میں دن کے دس بجے تھے مگر لندن ابھی سو رہا تھا،پردہ ہٹایا تو دھندلکا تھا، فراق گورکھپوری یاد آئے؛
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
بستر سے اُٹھا، منہ ہاتھ دھو کر کمرے کا جائزہ لیا تو الیکٹرک کیٹل(Electric Kettle)کے ساتھ چائے کا سامان رکھا دیکھائی دیا۔ عرصے بعد اپنے لیے خود چائے بنائی اور پہلا گھونٹ لیتے ہی انور مسعود یاد آئے؛
یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی

میں نے دھندلکے کو غنیمت جانا اور چہل قدمی کے لیے اس اُمید پر چل پڑا کہ کئی روشن صورتیں دیکھائی اور سجھائی دیں گی۔لمبی واک سے واپسی پر ایک سٹور کھلا مل گیا۔وہاں سے ناشتے کے لیے ایک کروسینٹ(Croissant) لیا اور ہوٹل پہنچ گیا۔ میں کاغذ کے لفافے میں کروسینٹ(Croissant) لیے کھانے کے ہال میں داخل ہوا تو صرف سنہری بالوں والی لڑکی کے سامنے کرسی خالی تھی۔باقی سیٹوں پر مختلف رنگ و روپ کے لوگوں کا قبضہ تھا۔ میری جھجھک کو بھانپتے ہوئے اس نے اپنی نیلی آنکھوں میں اپنائیت کے رنگ سجائے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔وہ رنگ برنگی انواع و اقسام کی اشیاء وخوردونوش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میرے اکلوتے کروسینٹ کو دیکھ کر مسکرائی اور بولی”آپ اتنا مختصر ناشتہ کرتے ہیں“۔

”آپ اتنا بھرپور ناشتہ کرکے بھی دُبلی پتلی ہیں“، میں نے جوابی سوال کر دیا۔

وہ پھر سے مسکرائی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ مسکراتے ہوئے اور بھی حسین لگتی ہے۔زوسیا(Zosia) کاتعلق پولینڈ سے تھا۔ اسے گریجویشن کیے ایک سال ہو چکا تھا اور وہ اپنے دفتر کی طرف سے ایک ٹریننگ کے لیے چند دن کے لیے لندن آئی تھی۔چند جملوں میں ہماری گفتگو ذاتی تعارف سے اپنے اپنے ملک اور معاشروں تک پہنچ گئی۔ پولینڈ کی خوبصورتیوں کا ذکر کرتے اس کے چہرے کی شادابی اور آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی تھی۔ میں بھی بصد کوشش چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنے ملک کے ”حسن انتظام و انصرام “ اورہم وطنوں کے ”حسن کردار“سے اسے آگاہ کرتا رہا۔

زوسیا(Zosia) کے جانے کے بعد میرا دھیان دُھند میں لپٹے حالات و واقعات میں کھو گیا جس میں عام پاکستانی کو کسی رہبر کا چہرہ سجھائی دیتا ہے نا کوئی نشان ِ منزل دیکھائی دیتا ہے۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ زین عباس کی کال آگئی۔

آج کی پہلی مصروفیت اسلام ٹی وی پر زین عباس کے پروگرام میں شرکت تھی۔ دس بجے زین نے مجھے ہوٹل سے لینا تھااور11بجے لائیو پروگرام میں میرا انٹرویو تھا۔ بلندیوں کو چھونے کی اُمنگوں سے بھرپور متحرک اور پُرجوش شخصیت کے پیکر زین عباس اپنی نئے ماڈل کی گاڑی میں مجھے لینے بروقت پہنچ چکے تھے۔
زین کے اوصاف اور کامیابیوں کا ذکر کئی حوالوں سے ضروری ہے مگرپہلے اسلام چینل کی خدمات کا ذکر کرتا چلوں۔ اسلام ٹی وی کے مختلف چینلز برطانیہ اور یورپ میں مقیم مسلمانوں میں بے حد مقبول ہیں۔

اسلام چینل کا آغاز 2004 میں ہوا اور اس کا مقصد مسلمانوں کے عقائد، ثقافت اور روزمرہ زندگی کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ اس چینل کی نشریات شروع میں صرف برطانیہ تک محدود تھی لیکن بہت جلد اس کی پہنچ یورپ اور دیگر دنیا کے خطوں تک پھیل گئی۔ اسلام چینل نے خود کو ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت کیا جس کے ذریعے مسلمان اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں اور اپنے مسائل پر گفتگو کر سکتے ہیں، چاہے وہ مذہبی، ثقافتی یا سماجی ہوں۔

اسلام چینل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی ثقافت، تاریخ اور روایات کو جدید میڈیا کے ذریعے پھیلائے۔ اس چینل کا فریم ورک ایسے پروگرامز پر مرکوز ہے جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں بلکہ اسلامی دنیا کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ اس میں مذہبی پروگرامز، خبریں، دستاویزی فلمیں، اور تفریحی پروگرامزشامل ہیں جو خاص طور پر مسلم کمیونٹی کے لئے تیار کیے جاتے ہیں۔

اسلام چینل کے پروگرامز میں ”قرآن کی تلاوت“، ”حدیث کی تعلیم“، ”فقہ کے مسائل“اسلامی تاریخ، مسلم معاشروں کے چیلنجز اور روزمرہ دلچسپی کے امورپر مبنی پروگرام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ چینل مختلف ثقافتی اور سماجی موضوعات پر بھی پروگرامز پیش کرتا ہے

اسلام چینل کا انتظام اور ملکیت Ahlul Bayt TV اور Islamic Centre of England جیسے فلاحی اداروں کے پاس ہے۔ ان اداروں کا مقصد مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ اسلام چینل کی انتظامیہ میں کئی معروف شخصیتیں شامل ہیں جو میڈیا، مذہبی اور ثقافتی شعبوں میں اپنے کام کے لیے جانی جاتی ہیں۔

اسلام چینل کی انتظامیہ میں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک ٹیم ہے جو اس چینل کو ایک متوازن اور جامع پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس ٹیم کا مقصد صرف اسلامی تعلیمات کو پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ چینل پر نشر ہونے والے پروگرامز تمام طبقات کے لیے مفید اور معلوماتی ہوں۔

اس چینل کے دفتر جانے سے مجھے معلوم ہوا کہ انگریزی زبان میں نشریات کا آغاز کروانے والا یہ چینل اب عربی، اردو، فارسی، ہندی اورترکی زبانوں میں الگ الگ ٹی وی چینل چلا رہا ہے۔ جس سے مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کی مضبوط آوازیں بن رہا ہے اور دیگراقوام کے دلوں میں موجود شک و شبہات کو نا صرف دور کر رہا ہے بلکہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان رابطے کو فروغ بھی دے رہا ہے۔

اسلام چینل کی مختلف زبانوں میں نشریات اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ مختلف علاقوں اور ثقافتوں کے مسلمان اپنے مسائل، عقائد اور ثقافتی موضوعات کو اس چینل کے ذریعے بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

اسلام چینل کی اہمیت اس بات میں بھی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں مسلمانوں کے لیے آواز بن چکا ہے جب عالمی سطح پر ان کے خلاف منفی تاثر قائم کیا جا رہا ہے۔ اس چینل نے مسلمانوں کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کا مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سماجی، ثقافتی اور مذہبی حقیقتوں کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرے۔

لائیو پروگرام میں زین عباس سے کاروان علم فاؤنڈیشن کی خدمات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پروگرام کے بعد چینل کے مختلف شعبوں کے ذمہ داران سے بھی ملاقات ہوئی۔روانگی سے پہلے زین عباس نے کافی پینے کی تجویز دی کیونکہ اس کے بعد ہماری اگلی منزل سینٹرل لندن میں سفارت خانہ پاکستان تھی۔ جہاں پہنچنے کے لیے ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ لندن کی ٹریفک میں رینگتے سفر طے کرنا تھا۔