برطانیہ.7:خالد ارشاد صوفی

خالد ارشاد صوفی
لندن مصروفیات کے بعد میرا اگلا پڑاؤ برطانیہ کے شمال میں لیڈز(Leeds) تھا۔ اس شہر میں میرے میزبان ہم دَم درینہ آصف علی رامے تھے۔ آصف سے ان دنوں کی دوستی ہے جب وہ لاہور کے ایک کالج میں انگریزی کے استاد تھے اور میں تعلیم کے ساتھ صحافت کے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا نے کا آغاز کر چکا تھا۔

آصف کا اعجاز یہ ہے کہ وہ پاکستان میں طلبہ کو انگریزی پڑھاتے تھے مگر 2000ء میں جب وہ پیا گھر سدھار کر لیڈز(Leeds)پہنچے تو وہاں انہوں نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو بھی پڑھانا شروع کر دی۔آصف نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورسے ایم اے انگریزی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو اور بی ایڈ کیا تھا جبکہ لیڈز یونیورسٹی(Leeds University) سے ایم ایڈ کرنے کے علاوہ ٹیچر ٹریننگ کے کورسزبھی کئے۔اب وہ برطانیہ میں تدریسی خدمات کے ساتھ گورے اور کالے دونوں اساتذہ کو ٹریننگ بھی دیتے ہیں۔

ان دنوں وہ مقامی تعلیمی ادارے میں اسسٹنٹ پرنسپل کے علاوہ، لیڈز کونسل آف مساجد (Leeds Council of Mosques) کے سیکرٹری کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے لیڈز کی مسجد قباء اور اپنی رہائش گاہ پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ پاکستانیوں سے ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔

ان ملاقاتوں میں شرکاء کو کاروان علم فاؤنڈیشن کی خدمات سے آگاہ کرنے کا موقع ملا اور انہیں ادارے کا بروشر اور میری کتاب”جوہرِ قابل“ پیش کی گئی۔یہاں جن دوستوں سے ملاقات ہوئی ان میں مولانا حافظ محمدحسن مہتمم اعلیٰ الحسن ایجوکیشن سنٹر اینڈ مسجد قباء، جناب حاجی محمد ارشد، جناب حسن فاروق، جناب مدثراسلم،جناب عمران(جو بریڈ فورڈ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے)، جناب اکرام نجمی، جناب طارق فاروق اور مسز روبینہ فاروق، حاجی غلام مرتضیٰ، حاجی عبدالجبار،جناب محمد فاروق چیئرپرسن مسجد قباء،جناب عبدل فاروق،جناب شاہد باری جناب قاسم علی اور جناب ہاشم علی بھی شامل تھے۔

اگلے دن صبح دس بجے لیڈز کے مقامی ریڈیو پر انٹرویو تھا اس انٹرویو کے دوران لیڈز میں مقیم پاکستانیوں نے لائیو کالز کرکے کاروان علم فاؤنڈیشن کی خدمات سے متعلق معلومات لی۔

یہاں سے فراغت کے بعد آصف لیڈز کے آرمی میوزیم اور کچھ دیگر مقامات کی سیر کے لیے لے گئے۔یہ خزاں کی ایک اُجلی دوپہر تھی جس میں شہرکی صفائی و ستھرائی اور کشادگی خوبصورت منظر کشی کر رہی تھی۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، لیڈز میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 60,000 سے 70,000 کے درمیان ہے۔ یہ کمیونٹی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی ہے جیسے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اور ان کا شہر کی ثقافت اور معاشرتی زندگی میں اہم کردار ہے۔لیڈز میں مسلم کمیونٹی کے لیے مختلف مساجد، تعلیمی ادارے اور ثقافتی تنظیمیں موجود ہیں جو اسلامی تعلیمات، عبادات اور سماجی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان کمیونٹی شہر کی فلاحی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی سرگرم ہیں۔

تقریباً 113 مربع کلومیٹر (44 مربع میل) پر پھیلے اس شہر میں کئی اہم تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں دنیا بھر سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لیڈز یونیورسٹی (University of Leeds) سرِفہرست ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر معروف ہے اور مختلف شعبوں میں تحقیق اور تعلیم فراہم کررہا ہے۔اس کے بعدلیڈز بیکٹ یونیورسٹی (Leeds Beckett University)یہ یونیورسٹی بھی مختلف فیلڈز میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہے۔لیڈز کالج آف میوزک (Leeds College of Music)اورلیڈز سولڈن کالج (Leeds City College) بھی مختلف پیشہ ورانہ کورسز اور تعلیمی پروگرام کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

لیڈز، یارکشائر(Yorkshire) کا سب سے بڑا شہر ہے اور اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔اس کی بنیادرومی دور میں رکھی گئی جب یہاں ”لوڈیشیا”(Loidis) کے نام سے ایک چھوٹا سا فوجی قلعہ بنایا گیا تھا جبکہ نرمن دور میں یہاں ایک اہم تجارتی مرکز قائم ہوا۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے دوران لیڈز کی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوا۔ انیسویں صدی کے دوران صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی شہر میں مزید ترقی ہوئی اور یہ برطانوی صنعتی انقلاب کا ایک اہم مرکز بن گیا۔

شہر میں مختلف ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کے مراکزاور مواقع بھی موجود ہیں۔ جن میں میوزیم، تھیٹر، گیلریاں (Galleries) اور میوزک فیسٹول شامل ہیں۔ لیڈز کا فٹ بال کلب بھی بہت مشہور ہے۔لیڈز ایک متنوع، جدید اور ترقی پذیر شہر کے طور پر اپنی شناخت بنا چکا ہے، جہاں قدیم تاریخ اور جدید دور کی ترقی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔

میوزیم میں رائل آرمی کی خصوصاً برصغیر میں ”فتوحات“کے آثار دیکھنے کے بعد آصف مجھے فش اینڈ چپس(Fish & Chips) کھلانے لے گئے۔ مغربی ممالک میں یہ ڈش بڑی مقبول ہے۔ اس میں خاص قسم کی فرائی مچھلی کو آلو کے فرائی چپس کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس لذیذ ڈش کی خاص بات یہ ہے کہ آئل میں تَلی ہونے کے باوجود مچھلی اور چپس میں چکنائی نہیں ہوتی۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم شہر کے معروف راؤنڈہے پارک(Roundhay Park) پہنچے۔ پارک میں داخل ہوئے تو دائیں ہاتھ جھیل اور سامنے درختوں کی ایک لمبی قطارتھی۔سڑک کے دونوں کناروں پروسیع میدان تھا اوردور ایک خوبصورت عمارت دیکھائی دے رہے تھی۔

پگڈنڈی پر چلتے ہوئے ہم جھیل کنارے پہنچ گئے۔ جھیل کے پانی میں بطخیں تیر رہی تھیں۔ کچھ نوجوان کشتی چلا رہے تھے۔اس وسیع و عریض پارک کے مختلف حصوں میں مختلف سرگرمیوں کے مقامات ہیں۔ جہاں ہم کھڑے تھے وہاں کشتی رانی کا کلب تھا۔ اس کے علاوہ دیگر کھیلوں کے کلبز(Clubs) بھی ہیں۔ جھیل سے واپسی پر ہم گھنے درختوں کے درمیان سڑک پر چہل قدمی کرنے لگے۔خزاں جوبن پر تھی۔ درختوں سے جھٹرے زرد اور سنہرے پتوں نے سٹرک اور اردگرد کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میں خزاں کے اس منظرکا ایک عرصے سے متلاشی تھا۔ اس ربّ مہربان کی عنایت سے مجھے اس منظر کو اپنی آنکھوں کے راستے روح میں سمونے کا موقع مل گیا تھا۔ زرد پتوں پر چلتے ہوئے مجھے پرنم الہ آبادی کا شعر یاد آگیا۔

افسردگی بھی رُخ پہ ہے ان کے نکھار بھی
ہے آج گلستان میں خزاں بھی بہار بھی