معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سبزہ، درخت اور جنگل … (1)
صورتحال یہ ہے کہ میں گزشتہ ایک ماہ سے امریکہ میں ہوں مگر امریکہ کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کئی قارئین ایسی تحریر کو کبھی تو ذہنی غلامی سے تشبیہ دیتے ہیں اورکبھی امریکی یا مغربی معاشرت سے متاثر ہونے کا طعنہ مارتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض چیزیں دیکھ کر دل میں صرف ایک حسرت سی پیدا ہوتی ہے کہ آخریہ کام ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ یہ چیز ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ اور آخرہم میں کیا کمی یا کوتاہی ہے کہ ہم ایسی چیزوں سے محروم ہیں جن کے مواقع قدرت نے ہمیں بھی اسی طرح عطا کر رکھے ہیں جس طرح ان ممالک کو‘ مگر ہم ان سے فیض یاب نہیں ہو پارہے۔ اچھی اور کار آمد بات کی تقلید خدانخواستہ اس تہذیب یا معاشرت سے متاثر ہونا یا ذہنی غلامی میں مبتلا ہونا ہرگز نہیں ہے۔ میرے آقا اور دوجہانوں کے سردارﷺ نے فرمایا کہ ”حکمت (دانائی) مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘ یہ جہاں سے ملے اسے حاصل کر لو‘‘۔ حکمت دراصل علم اور بھلائی سے مشروط ہے۔ سو یہ فقیر مسافر جب ایسی بات کرتا ہے تو اس کے پیش نظر صرف اور صرف انسانِ کامل اور محسنِ انسانیتﷺ کا یہی فرمان ہوتا ہے۔
میں بھلائی‘ علم وحکمت اور بنی نوع انسان کی آسانی کیلئے کیے جانے والے کاموں اور اس کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی چیزوں کو مومن کی کھوئی ہوئی میراث سمجھتا ہوں اور اسے رہنمائے کائنات کے فرمان کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ اب اگر میں امریکہ میں لگے ہوئے بے تحاشا درختوں کی بات کروں تو بھلا اس بات میں وہاں کی معاشرت یا تہذیب کی ذہنی غلامی کہاں سے نکل سکتی ہے؟ مگر اپنے سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انگلیوں کی حرکت سے طعنوں کے تیر چلانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے ؟ مگر اس عاجز کو بھی آخر اس کرہ ٔارض کی سلامتی اور بنی نوع انسان کی بقا سے متعلق ایسی باتیں لکھنے سے کون روک سکتا ہے جسے وہ نہ صرف جائز اور درست سمجھتا ہے بلکہ بنی نوع انسان کے رہنما‘ سید الانبیاءﷺ کے ارشاد کی روشنی میں فرض عین بھی سمجھتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کا ارشادِ مقدس ہے کہ جو مسلمان درخت لگائے یا کھیت بوئے پھر اس میں سے کوئی انسان‘پرندہ یا جانور کھائے‘ اسے صدقہ کے برابرثواب ملتا رہے گا کیونکہ صدقہ کرنا بھی عبادت ہے۔ اسی طرح حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُم مبشر انصاریہؓ اور اُم معبدؓ کے باغ میں تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ یہ درخت کس نے لگائے ہیں؟ مسلمان نے یا کافر نے؟ عرض کیا: مسلمان نے۔ پھر آپﷺ نے صدقہ کی تفصیل بیان فرمائی اور فرمایا کہ اس کو قیامت تک صدقے کا اجر ملے گا۔ یعنی ملتا رہے گا۔ درخت لگانا اس قدر اہم اور کر گزرنے والے کاموں میں سے ایک ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہونے لگے اور کسی کے ہاتھ میں پودا ہو (جس کو وہ لگانا چاہ رہا ہو) تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو لگا لے۔ آپﷺ نے سیدنا سلمان فارسیؓ کی آزادی کے لیے ایک باغ میں اپنے مبارک ہاتھوں سے تین سو پودے لگائے۔
میرے آقاﷺ کے فرمان اور عمل ادھر امریکہ میں پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی عملی شکل میں موجود ہیں۔ یہ مومن کی وہ کھوئی ہوئی میراث ہے جس کا دوبارہ حصول اور اعادہ نہ صرف ہم پرفرض ہے‘ بلکہ اسے آگے بیان کرنا بھی فرضِ عین ہے اور اس پر اصرار کرنا گویا اجر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
جنگلوں اور درختوں سے محبت شاید میری روح میں شامل ہے۔ سردی اور جنگل میری کمزوری ہیں اور سردیوں میں جنگل میں گھومنے سے بڑھ کر عیاشی کا تصور میرے لیے محال ہے۔ ادھر امریکہ میں گو کہ آج کل سردی نہیں ہے لیکن جنگل تو ایسے ہیں کہ ان کا نظارہ دل کو شاد اور آنکھوں کو تازہ کر دیتاہے۔ میلوں تک درخت ہی درخت۔ اتنے گھنے‘ اتنے سبز اور اتنے تہہ دار کہ سورج کی روشنی زمین تک نہ پہنچے۔ اوہائیو سے گاڑی پرسفر شروع کیا اور ریاست پنسلوینیا کے شہر پیٹس برگ تک کوئی جگہ ایسی نظر نہ آئی کہ وہاں درخت‘ سبزہ‘ جھاڑیاں یا گھاس نہ ہو۔ آنکھ مٹی کو دیکھنے کو ترس جائے مگر مٹی نظر نہ آئے۔ خالد منیر کے ساتھ پیٹس برگ سے فلاڈیلفیا تک کا سفر بذریعہ سڑک کیا تو یہی حال۔ نہ میدان اس یکسانیت سے مبرا تھے اور نہ پہاڑیاں اور پہاڑ ہی سبزے کے علاوہ کسی رنگ میں نظر آئے۔ برادر بزرگ اعجاز احمد کے ساتھ کارلٹن سے اٹلانٹا‘ گینزول‘ کورنیلیا‘ فرینکلن اور چروکی کے راستے سموکی ماؤنٹین سے ہوتے ہوئے گیٹلن برگ تک چار سو کلو میٹر سے زائد لمبا سفرکیا تو راستہ درختوں‘ سرسبز میدانوں‘ جنگلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں اور صاف شفاف چشموں سے جنت ارضی دکھائی دے رہا تھا۔ یہ سفر دو امریکی ریاستوں جارجیا اور نارتھ کیرولینا سے گزر کر تیسری ریاست ٹینیسی میں ختم ہوا مگر مجال ہے کسی جگہ منظر نامے میں فرق محسوس ہوا ہو۔
چارپانچ ماہ بیشتر اپنی بیٹی کے ساتھ اسی خوبصورت شہر گیٹلن برگ جانے کیلئے ٹولیڈو (اوہائیو) سے گاڑی پرسفر شروع کیا تو اس آٹھ سو میل طویل سفر کے دوران بھی ہم نے تین ریاستوں کے درمیان سفر کیا‘درمیان میں شاید ہی کوئی جگہ ہو گی جہاں سبزہ نہ دکھائی دیا ہو اور صرف یہی نہیں کہ درخت اورسبزہ باافراط تھا بلکہ درمیان میں کہیں بھی بے ہنگم تعمیرات‘ سڑک کے کنارے تجاوزات اور جہاں دل چاہا دکان کھول لی اور جس زرخیز زمین کو دل کیا ہاؤسنگ کالونی میں تبدیل کر لیا جیسی کوئی خرابی دکھائی نہ دی۔ یہ تو زمینی سفرکا حال تھا جہاز سے نیچے نظر دوڑائیں تو راستے میں درختوں کے میلوں پر مشتمل تختوں سے قطع نظر شہروں میں اتنے درخت دکھائی دیے کہ حسرت حسد میں تبدیل ہو گئی اور اپنے ملک میں درختوں کے پہلے سے ماندے حالوں پرہاؤسنگ سکیموں کے نام پر ہونے والے قتلِ عام پر دل اداس ہو گیا۔ بڑے بڑے گنجان آباد شہروں میں جگہ جگہ پارک‘ درختوں کے قطعات اور کھیل کے میدان کی ایسی بھرمار کہ خیال آیا کہ کیا ان احمقوں کو کسی نے بتایا نہیں کہ ان پارکوں اوردرختوں کے وسیع و عریض قطعات پر ہاؤسنگ سکیمیں بنائی جا سکتی ہیں ؟ بوکا ریٹون میں برادرم عاصم اسد کے گھر گیا تو ساری کالونی میں بلامبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں درخت تھے اور ایسے ایسے پرانے کہ درختوں کی داڑھیاں اوپر سے نیچے لٹک لٹک کر ایک ایک درخت کے بیسیوں تنے بنائے ہوئے تھیں۔ عاصم اسد کے گھر کے باہر چیری کے درختوں پر انواع الاقسام کی سینکڑوں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ عاصم نے بتایا کہ یہ چڑیاں اس کی آدھی سے زیادہ چیری کھا چکی ہیں اور باقی بھی انہوں نے ہی ختم کرنی ہیں‘ پھر ہنس کر کہنے لگا: ان پھلوں پر پہلا حق بھی تو انہی کا ہے‘ آخر اللہ کی اس مخلوق نے بھی تو پیٹ بھرنا ہے۔
یہ نہیں کہ امریکہ میں بنجر زمین نہیں ہے‘ ریاست مونٹانا‘ وائی اومنگ‘ اوریگان‘ اڈاہو‘ یوٹاہ‘ نیواڈا‘ ایریزونا‘ نیومیکسیکو‘ کولوراڈو‘ ٹیکساس‘ کنساس اور نبراسکا وغیرہ میں ایسے ایسے بے آب و گیاہ پہاڑ اور میدان ہیں کہ خدا کی پناہ۔ مگر جوریاستیں زرخیز زمین والی ہیں وہاں درخت اور سبزہ ایسا کہ دیکھتے ہوئے آنکھیں تھک جائیں مگر سبزہ ختم نہ ہو۔ سڑکوں کے دونوں طرف درختوں کی ایسی بہار اور کثرت کہ حسرت ہوتی ہے۔ ان سڑکوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کی موٹرویز کے دونوں اطراف ”ٹانواں ٹانواں‘‘ درخت یاد آئے۔ ان میں بھی بیشتر شجرِ بے فیض یعنی پانی کا دشمن سفیدہ دکھائی دیتا ہے۔ پھلدار تو رہے ایک طرف کام کے سبزے والے درخت بھی دکھائی نہیں دیتے۔ سینکڑوں میل طویل ان موٹرویز کے دونوں طرف جنگلے کے اندر محفوظ سرکاری زمین کی ایسی ناقدری کہ اس کیلئے ملال اور افسوس کا لفظ بڑا چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔ (جاری)