معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سبزہ، درخت اور جنگل …(2)
اللہ مجھے میری کم علمی پر معاف فرمائے! یورپ اور امریکہ دیکھنے سے پہلے میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین کامل تھا کہ ہم جیسا سرسبز ملک تو خیر سے دنیا میں اور کوئی ہوگا ہی نہیں۔ برطانیہ کے بارے میں تو یہ بات دل میں راسخ تھی کہ سردی اور پالے سے مارے ہوئے اس ملک میں سوائے کنکریٹ کے جنگل کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ درخت، سبزہ اور فصلیں تو صرف تصاویر میں ملیں گی اور اگر کہیں دکھائی بھی دیں تو ایسی مریل، بے جان، سردی کے باعث پیلیے کی ماری ہوئی کہ دیکھ کر ترس آئے گا، لیکن جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پہلے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اور پھر اپنے خیالات اور علم پر شرمندگی ہوئی کہ ہم بھی کیا کنویں کے مینڈک کے مانند اپنے گنجے کانے سبزے اور قابل شرم حد تک کم درختوں پر اپنی عمر کا اتنا حصہ اینڈتے رہے جن کی حقیقت میں کوئی اوقات ہی نہیں تھی۔
ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں ایسے درخت نہیں ہو سکتے۔ نہ صرف ہو سکتے ہیں بلکہ اس کی فی الوقت جتنی ضرورت ہمیں ہے شاید اور کسی کوبھی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ماحولیات میں جتنی خرابی پیدا ہو چکی ہے اور آئندہ چند سالوں میں یہ توازن مزید خرابی کی جس حد تک پہنچنے والا ہے‘ اس کا شاید ہمیں اندازہ ہی نہیں اور اگر ہے تو پھر ہم اس صورتحال پر اس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں جس پر بلی جھپٹنے والی ہوتی ہے۔ بلین ٹری وغیرہ جیسی مہم کے باوجود عالم یہ ہے کہ سال بہ سال درخت کٹ زیادہ رہے ہیں اور لگ کم رہے ہیں۔ اب درختوں کے لگنے کی بھی بھلی پوچھیں۔ لگنے کو تو لگ بھی رہے ہیں مگر پودے کے درخت میں بدلنے کی شرح اتنی کم ہے کہ درخت تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے جہاں ملکی ضروریات کے لیے لکڑی مہنگے داموں دوسرے ملکوں سے منگوائی جا رہی ہے وہیں ماحول پر جو منفی اثرات پڑ رہے ہیں‘ ان کا نہ کوئی حل ہے اور نہ ہی کوئی مداوا۔
میں نہ تو کوئی ماہر نباتات ہوں اور نہ ہی ہارٹی کلچر کے بارے میں کوئی شد بد رکھتا ہوں مگر جو چیز آنکھ سے دیکھ کر محسوس کی جا سکتی ہے اس کے لیے بھلا اس شعبے میں مہارت کی ضرورت بھی کیا ہے ؟ مجھے امریکہ میں لگے ہوئے بے شمار اقسام کے درختوں کے نہ تو عام مستعمل نام معلوم ہیں اور نہ ان کے سائنسی یا نباتاتی نام ہی معلوم ہیں۔ لیکن ان درختوں کی شادابی، سرسبزی اور ماحول پر پڑنے والے مثبت اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ سوائے میپل، اوک، پائن اور پاپلر کے درختوں کے‘ مجھے شاید ہی کسی دوسرے درخت کی پہچان ہو۔ وہ بھی ایسے کہ میپل کو پتے سے، اوک کو شکل سے اور پائن کو اس کی تکونی پھلیوں کے سبب پہچانتا ہوں، لیکن ان سب چیزوں کو محسوس کرنے کیلئے علم نباتات کی ڈگریوں کے علاوہ دیکھنے اور محسوس کرنے والی آنکھ ہی کافی ہے اور الحمد للہ! مالک نے ابھی اپنی دنیا کو دیکھنے کی نعمت عطا کر رکھی ہے۔ درختوں کی اَن گنت اقسام اور وہ ایک سے ایک مختلف۔ چھوٹے چھوٹے جھاڑی نما درختوں سے لے کر بلامبالغہ سینکڑوں فٹ تک بلند و بالا درخت۔ کچھ ایسے کہ اوپر جا کر محض پھننگ پر ہی شاخوں اور پتوں کی چھتری۔ بعض ایسے کہ بے تحاشا چوڑائی میں پھیلے ہوئے اور بہت سے ایسے درخت کہ زمین سے لے کر اوپر چوٹی تک‘ شاخوں اور پتوں سے اس طرح ڈھکے ہوئے کہ ان کا تنا دکھائی بھی نہ دے۔ ستر اسی فٹ بلکہ سو فٹ تک بلند درختوں کی تو ایسی افراط کہ عقل دنگ رہ جائے۔ تنے موٹے، مضبوط اور ایسے سیدھے کہ گویا کسی مشین میں ڈال کر بنائے گئے ہوں۔
سڑک کے کنارے لگے ہوئے بجلی کے کھمبوں کی غالب اکثریت انہی تنوں پر مشتمل ہے۔ بہت بڑے اور ہیوی ٹرانسمیشن والے کھمبے تو سٹیل سٹرکچر کے ہیں لیکن شہروں میں بجلی کے عام ترسیلی نظام کیلئے یہی سیدھے تنے والی لکڑی کے کھمبے استعمال ہوتے ہیں۔ موٹے اور مضبوط ایسے کہ ان کے اوپر چڑھنے کیلئے لوہے کے سریے نما ہک اس طرح لگائے ہیں کہ آدھے کھمبے کی لکڑی کے اندر ہیں اور آدھے باہر‘ جن پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھا جا سکے۔ لوگوں نے اشتہاری کاغذ کیلوں سے لگائے ہوتے ہیں۔ ایک ایک کھمبے میں بلامبالغہ سینکڑوں کیل ٹھکے ہوئے ہیں مگر کھمبے کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے جنوبی پیلے پائن، ڈگلس فِر، مغربی سرخ سیڈر اور جیک پائن کے مطلوبہ لمبائی کے درخت کاٹ کر کارخانے میں بھیج دیے جاتے ہیں جہاں ان کو چھیل چھال کر ایک خاص موٹائی اور لمبائی میں تیار کرنے کے بعد دوائی وغیرہ لگا کر کیمیائی عمل کے ذریعے اسے دیمک سے بچاؤ اور موسم کی سختیوں کو جھیلنے کے قابل بنا دیا جاتا ہے۔
ابھی تو شکر ہے کہ ہمارے ہاں گھر بناتے ہوئے صرف دروازے لکڑی کے بنائے جاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اچھی لکڑی کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر ہمارے ہاں مکان اس طرح بنائے جاتے جس طرح یہاں امریکہ وغیرہ میں بنائے جاتے ہیں تو شاید اب تک ہمارے ہاں درخت ناپید ہو چکے ہوتے۔ گزشتہ ہفتے گھر سے سیر کرنے نکلا تو تھوڑے ہی فاصلے پر نئے گھر بن رہے تھے۔ لکڑی کا پورا ڈھانچہ بن چکا تھا اور اب اوپر تکون نما چھت کا لکڑی کا فریم بن رہا تھا۔ سارا کچھ اتنا پیچیدہ لیکن ایک طے شدہ حساب کتاب سے بن رہا تھا۔ ہر شے طے شدہ اور ہر مرحلہ ایک خاص ترتیب اور قاعدے کے مطابق ہو رہا تھا۔ دو دن بعد گیا توکیا دیکھا کہ ساری چھت لکڑی کے تختوں سے تیار ہو چکی ہے۔ یہ سارے تختے کٹے کٹائے اور تیار شدہ حالت میں لائے گئے تھے اور ان کے سائز میں شاید ایک ملی میٹر کا بھی فرق نہیں تھا۔ بس اپنے دیے گئے سائز کے تختے لائیں اور لگا دیں۔ وقت کی ایسی بچت اور کام کی اتنی سہولت کہ عقل دنگ رہ جائے۔ چوتھے دن چھت پر کھپریل لگ چکا تھا۔ ہمارے ہاں جو کام مہینوں میں ہونا تھا وہ چند دنوں میں میرے سامنے مکمل ہو چکا تھا۔ سب سے مشکل اور دقت طلب کام مکان کا لکڑی پر مشتمل ڈھانچہ بنانا ہے۔ آگے سارا کام آسان ہے۔ گھر کی ساری درمیانی دیواریں اور پارٹیشنز چپ بورڈ ٹائپ میٹریل کی شیٹوں سے بنائی جاتی ہیں اور ان پر رنگ کر دیا جاتا ہے یا وال پیپرز لگا دیے جاتے ہیں۔ لکڑی کے اس قدر استعمال کے باوجود اتنے درخت دکھائی دیتے ہیں کہ لگتا ہے اس ملک میں درخت کو کسی نے شاید کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ درختوں کی شجرکاری اور کٹائی میں ایک توازن ہے جو بنا کسی خرابی کے چل رہا ہے اور کسی ٹمبر مافیا کا وجود نہیں ہے۔ ادھر کوئی ”بلین ٹری‘‘ نامی شور شرابا نہیں ہے مگر درخت واقعتاً Billions یعنی اربوں کی تعداد میں ہیں جو سارے ماحول کو انسان دوست بنائے ہوئے ہیں۔
ہمارے زرعی ماہرین اور ہارٹی کلچر کے نابغوں نے ہمارے ملک میں ایسے ایسے فارغ اور فالتو قسم کے درآمد شدہ درخت متعارف کرائے کہ آنے والے دنوں میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ سارے ماحول کوبرباد کر دیا بلکہ کمرشل حوالوں سے بھی بے فائدہ ثابت ہوئے۔ اسلام آباد میں لگایا جانے والا درآمدی جنگلی شہتوت ایسا ڈھیٹ اور کم ذات نکلا کہ پولن پھیلانے کے علاوہ اور کسی کام نہ آیا۔ سفیدے نے سوائے بجلی کی تاریں توڑنے اور نقصان کرنے کے اور کچھ نہ کیا۔ ماہرین کی توجہ صرف اس امر پر رہی کہ درخت دنوں میں بڑا ہو جائے اور ہماری کارکردگی سامنے لے آئے۔ نہ لکڑی کسی کام کی نکلی اور نہ ہی ماحول کو بہتر بنایا جا سکا۔
موٹرویز کے کنارے ایسے درخت لگائے گئے جو نہ تو پھلدار تھے اور نہ ہی ایسے کہ ان کی لکڑی کسی کام آ سکتی۔ ملتان کی لکڑ منڈی جانا ہوا تو ساری منڈی درآمدی لکڑی کے شہتیروں اور پھٹوں سے بھری پڑی تھی۔ پاکستانی دیار کی لکڑی کو تو چھوڑیں، قیمتوں کا یہ عالم تھا کہ کیل اور پڑتل وغیرہ کو چھونے سے کرنٹ لگتا تھا۔ (جاری)