معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
دو وزیراعظم رکھ لیں
اسلام آباد اس وقت گھیرے میں ہے اور شہریوں کا جینا حرام ہوا ہوا ہے۔جتھوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
یہ لانگ مارچ اور دھرنوں کا کام طاہرالقادری صاحب نے پیپلز پارٹی کے دور ِحکومت میں شروع کیا تھا اور وہ پریڈ گراؤنڈ پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے۔ رحمن ملک اُس وقت وزیرداخلہ تھے۔ اس کے بعد ہر سیاسی پارٹی کا یہ ٹرینڈ بن گیا کہ جب تک وہ دھرنے نہیں دیں گے ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ اگرچہ لانگ مارچ کا تصور پرانا ہے‘ جب نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے مارچ شروع کیا۔ اس سے پہلے بینظیر بھٹو بھی نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف لانگ مارچ پلان کر رہی تھیں۔ لیکن دھرنوں کو اصل مشہوری عمران خان نے عطا کی جب وہ 126 دن تک اسلام آباد میں بیٹھے رہے اور حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ پھر مولانا فضل الرحمن اپنا لانگ مارچ اور دھرنا لے کر پہنچے اور کئی دنوں تک انہوں نے سماں باندھے رکھا۔ اب خان صاحب کا دل پھر مچل گیا ہے کہ کافی عرصہ ہوگیا انہوں نے لانگ مارچ نہیں کیا اور وہ اب سڑکوں پر ہیں۔
جن علاقوں سے پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی کرنی ہے وہاں اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت ہے لہٰذا پچیس مئی کی طرح کی کوئی صورتحال نہیں ہے جب پنجاب میں نواز لیگ کا وزیراعلیٰ تھا اور مظاہرین پر شدید تشدد کیا گیا تھا۔عمران خان کو علم تھا کہ محض خیبرپختونخوا سے جتھے لا کر وہ اسلام آباد فتح نہیں کرسکیں گے جب تک پنجاب سے وہ جلوس نہ لائیں۔ اس لیے ان کی حکمت عملی کامیاب رہی اور نئے لانگ مارچ سے پہلے انہوں نے پنجاب میں اپنی حکومت بنائی اور اب پنجاب سے ہی اپنا لانگ مارچ شروع کیا ہے۔
شہباز شریف کی صرف چوبیس کلو میٹر پر حکومت ہے جبکہ اسلام آباد کی سرحدیں پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر سے ملتی ہیں‘ سبھی جگہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت پی ٹی آئی ملک پر راج کررہی ہے اور اس وقت شہباز شریف حکومت گھیرے میں ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ عمران خان سے کیسے نبٹے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے مقتدر قوتوں کے ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں۔ عمران خان کو ایک ایڈوانٹج ہے کہ وہ جھوٹا سچا بیانیہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کا فن جانتے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی سیاستدان کے لیے یہ فن ہونا لازمی ہے ورنہ اس کے بغیر اسے سیاست کی ڈگری نہیں ملتی اور ماضی میں یہ سب سیاستدان اس فن کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔لیکن عمران خان کو یہ فائدہ ہے کہ ان کے مخالفین کی ساکھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ زرداری ہوں یا شریف‘ وہ تین تین‘ چار چار دفعہ باریاں لے چکے ہیں۔ وہ سب لوگوں پر اپنی گورننس اور کرپشن کی وجہ سے بری طرح ایکسپوز ہوچکے ہیں جبکہ عمران خان کا صرف ایک دور گزرا ہے اور وہ بھی ساڑھے تین سال کے لیے۔
انسانی فطرت ہے کہ اس نے کسی کو جج کرنا ہو تو وہ موازنہ کرتا ہے کہ فلاں شخص کے مقابلے میں کون شخص ہے اور اس کی ساکھ کیا ہے۔ اس موازنے نے یقینی طور پر عمران خان کو فائدہ دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان کے پاس نہ پہلے ٹیم تھی جو ملک کو چلا سکتی اور نہ اب ہے اگر وہ پاور میں آ جائیں۔ لیکن پھر بھی وہ زرداری اور شریفوں سے اس لیے اچھے سمجھے گئے کہ ان کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں ہے جیسے زرداری اور شریفوں کی ملیں ہیں یا بیرونِ ملک جائیدادیں ہیں۔ عمران خان نے اپنے اس ایڈوانٹج کو اچھی طرح لوگوں سے کیش کرایا ہے اور خصوصا ًنوجوان نسل ان کے ساتھ جڑ گئی ہے جبکہ مریم نواز اور بلاول اس پر خوش رہے کہ ان کے پاس والدین کی وارثت میں دی گئی سیاست ہے لہٰذا انہیں جوانوں کے ساتھ جڑنے کے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں کہ ستر سالہ عمران خان 34 سالہ بلاول بھٹو سے زیادہ نوجوانوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی بڑی قوت نوجوان ووٹرز کی ہے جو کئی برسوں تک ان کے کام آئیں گے۔لیکن کیا عمران خان صرف اپنا ذاتی فائدہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ نوجوان ان کے ووٹر ہیں اور جب تک وہ عملی سیاست میں ہیں انہیں وزیراعظم بنواتے رہیں گے یا ان کے ذہن میں ان نوجوانوں کے لیے کوئی لانگ ٹرم پلان بھی ہے ؟ نوجوان نسل ان کو فالو کرتی ہے لیکن لگتا ہے کہ ان کے اندر گالی گلوچ اور جارحانہ پن بھر دیا گیا ہے۔ ان کو اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم نہیں ہیں تو پھر اس ملک پر کوئی اور حکومت نہیں کر سکتا اور عمران خان وہ سارا عرصہ سڑکوں پر گزاریں گے۔ یہی کام عمران خان نے 2013ء کے الیکشن کے بعد کیا تھا جب وہ پانچ سال سڑکوں پر رہے کہ وہ وزیراعظم نہ تھے۔ اب بھی وہ چھ ماہ سے سڑکوں پر ہیں کہ میں وزیراعظم کیوں نہیں ہوں۔ اب کیا کریں۔ یا تو اس ملک میں دو وزیراعظم ہونے چاہئیں تاکہ ملک میں امن و امان رہے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
ملک کا ایک وزیراعظم بیرونی دنیا سے ڈیل کرے۔ روز دورے کرے‘ مہنگے تحفے تحائف وصول کرے‘ اقوام متحدہ میں سالانہ خطاب کرے‘ دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈاکا جواب دے‘ بیرونِ ملک سے آنے والے مہمانوں کی گاڑی ڈرائیور کرے‘ انہیں ایئرپورٹ سے پک اینڈ ڈراپ سروس دے تاکہ وہ پاکستان کو کوئی اچھی ڈیل اوراچھا پیکیج دے کر جائیں اور عوام کو کچھ ریلیف ملے۔جبکہ دوسرا وزیراعظم ملک کے اندرونی حالات کو دیکھے جو پارلیمنٹ‘ کابینہ کو چلائے‘ ملک میں امن و امان‘ نوکریاں‘ ترقیاتی کام کو دیکھے۔یوں اس ملک سے دھرنے اور ماردھاڑ کسی حد تک ختم ہوسکتی ہے۔ ورنہ یہ بات طے ہے کہ اس ملک کا سیاستدان نہ خود صبر کرسکتا ہے نہ کسی کو کرنے دے سکتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو نہ خود کھیڈے گی نہ کسی کو کھیڈنے دے گی۔ان سیاستدانوں کے ہاتھ دوسروں کے بچے چڑھ گئے ہیں جنہیں وہ اپنے سیاسی کھیل کے لیے مسلسل استعمال کرتے ہیں اور ان کے منہ میں ایسے نعرے دے دیے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر تل گئے ہیں۔
نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ ان سب کے بچے پاکستان سے باہر ہیں لیکن یہاں کے بچے ایک دوسرے سے اب نفرت کرتے ہیں۔عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد جس سیاسی ماحول میں تیزی آئی اس سے واضح ہے کہ یہ بات اب سیاسی سے زیادہ ذاتی دشمنی بن چکی ہے۔ اب سب لہو کے پیاسے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت عمران خان کو ہے لیکن وہ سب سے زیادہ بے صبرے ہیں اوربے احتیاطی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہ اس وقت پاپولر لیڈر ہیں اور سب سے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ اگلے وزیراعظم بن جائیں لیکن جس طرح وہ جتھے لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کررہے ہیں اور نومبر میں وہ آسمان گرانے کے چکر میں ہیں‘ انہیں نقصان ہوگا۔انہیں جو لوگ اس نہج پر لے آئے ہیں وہ ان کے دوست نہیں۔ عمران خان نے اچانک سیاست کو ٹی ٹونٹی میچ سمجھ کر کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ سیاست لمبی دوڑ کے گھوڑے کا نام ہے۔ گھوڑے پر اتنا بوجھ اور وزن ڈالیں یا اسے اتنا دوڑائیں جتنی اس کی سکت ہے۔ باقی کرنی خان صاحب نے اپنی مرضی ہے اور ویسے بھی کامیاب انسان کبھی کسی کی نہیں سنتا خصوصاً جب وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق ایک دفعہ ملک کا وزیراعظم بھی بن چکا ہو۔