موبائل فون نے ہماری زندگیوں کو کیسے حیران کن طور پر بدل دیا

موبائل فون سے پہلی کال 50 سال قبل کی گئی تھی جو کہ موبائل فون ٹیکنالوجی بنانے والی دو کمپنیوں کے درمیان تھی۔ اُس کے بعد اس آلے کا اب ایسا ایسا استعمال ہو رہا ہے کہ جس کی کسی کو کبھی توقع بھی نہیں تھی۔

یہ سال 1973 تھا۔ ایک امریکی انجینیئر جوئل اینجل، جس نے ناسا کے اپولو پروگرام پر کام کیا تھا، دنیا کا پہلا موبائل فون بنانے کی کوشش کرنے والی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔

’بیل لیبز‘ نامی کمپنی، جہاں اینجل نے کام کیا تھا، کئی دہائیاں قبل ایسے فونز کی تحقیق اور تیاری میں اہم کردار ادا کر چکی تھی جس سے چلتے پھرتے ہوئے بات کی جا سکتی تھی۔

اُن کی ٹیم اب ٹیکنالوجی کو ایک قدم آگے لے جانے کی کوشش کر رہی تھی یعنی ایک ایسا آلہ جسے آپ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہر جگہ گھوم پھر سکتے ہیں (موبائیل کی موجودہ شکل)۔

3 اپریل کو اینجل کی لیبارٹری میں موجود لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی۔ انھوں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے آواز آئی ’ ہیلو، جوئل‘۔

یہ آواز مارٹن کوپر کی تھی۔ جو ’موٹورولا‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی میں ایسے ہی فونز کی تحقیق کا کام کرنے والے حریف ریسرچ گروپ کے لیڈر تھے۔

کوپر نے فون پر کہا کہ ’میں آپ کو موبائل فون سے کال کر رہا ہوں۔۔۔ ایک حقیقی موبائل فون۔ ہاتھ میں تھامے کہیں لے جانے کے قابل موبائل فون۔‘

حریف کمپنی نے سب سے پہلے موبائل فون بنانے کی دوڑ جیت لی تھی اور وہ بھی کچھ ایسے انداز میں۔

نامہ نگاروں اور فوٹوگرافروں کے سامنے کھڑے ہو کر کوپر نے نیویارک کی سکستھ ایونیو پر ہلٹن مڈ ٹاؤن ہوٹل کے سامنے سے کال کی تھی، یہ جگہ اُس کی حریف کمپنی بیل لیبز سے تقریباً 30 میل دور نیو جرسی میں تھی۔

اب جلد ہی یہ ممکن ہونے جا رہا تھا کہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ سے کسی دوسرے شخص، اور یہاں تک کہ ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ موبائل فون پر بات چیت کی جا سکے۔

اس کے بعد مختصر ٹیکسٹ میسجز، اور بعد میں تصاویر اور آخر میں ایموجیز بھیجنے کی صلاحیت بھی مہیا ہو گئی۔

کوپر کی اس پہلی موبائل فون کال کے 50 سال بعد موبائل فون کے اب غیر معمولی طور پر کثیرالجہتی استعمال ہو رہا ہے۔ یہ کتنا زیادہ ’ملٹی فنکشنل‘ ہو چکا ہے اور اس نے ہماری زندگیوں کو انتہائی غیر متوقع طریقے بہت زیادہ بدل دیا ہے۔

کوپر کا پروٹوٹائپ فون اینٹ کی شکل کا اور خاکستری رنگ کا تھا، جس میں ایک بڑا انٹینا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی سکرین نہیں تھی۔

یہ دکھنے میں کوئی خوبصورت آلہ نہیں تھا، لیکن اس نے ایک تاریخ رقم کی تھی۔

اگرچہ اس وقت کی امریکی حکومت اس منصوبے کی حامی تھی، لیکن اس نئی صنعت کو بہت سے تکنیکی اور ریگولیٹری چیلنجز کا سامنا تھا۔

اس ڈیوائس یعنی موبائل فون کو عام صارفین کے لیے دستیاب ہونے میں مزید 10 سال لگے۔

لیکن موبائل فون کا دور شروع ہو چکا تھا، ایک ایسا دور ہے جس کے دوران موبائل فونز نے ہماری زندگیوں کو بہت زیادہ بدل دیا ہے۔

ابتدائی موبائل فون مہنگے اور استعمال کرنے میں مشکل تھے۔

لیسلی ہیڈن، لندن سکول آف اکنامکس میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کی ایک لیکچرر، ابتدائی موبائل فون خریدنے والوں میں سے ایک تھیں۔

انھوں نے موٹورولا کے ایک موبائل فون کے لیے 1980 کی دہائی کے آخر میں 300 پاؤنڈ کی کثیر رقم ادا کی تھی۔

ہیڈن کا کہنا ہے کہ ’میں اس کے گول نمبروں کے نشانوں پر اپنی انگلیاں پھیر سکتا تھا۔ اُس مرحلے میں یہ ایک مکمل اینٹ کے سائز نہیں تھا، بلکہ ایک نضف اینٹ کے برابر تھا۔‘

’یہ ایک بھاری بھت کم آلہ تھا۔ آپ اسے آسانی سے اپنی جیب میں نہیں ڈال سکتے تھے۔‘

یونیورسٹی آف ڈربی میں کمپیوٹر سائنس کے ایک سینیئر لیکچرر کرسٹوفر ونڈ مل کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں موبائل فون کا کام لینڈ لائنز کے فونز کی طرح ہمیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے قابل بنانا تھا۔

ونڈ مل کا کہنا ہے کہ ’ہم نے صرف فون کی تار ہٹائی تھی۔ 1970 اور 80 کی دہائی میں ہمیں صوتی مواصلات تک رسائی حاصل تھی اور ان آلات پر اس سے زیادہ کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘

مگر وہ ابتدائی دور کی ساخت والا فون ہم جلد ہی بھول گئے۔

’نوکیا‘ N95 جس کا 2006 میں اجرا ہوا تھا اس میں ایک ایف ایم ریڈیو، ایک رنگین سکرین، سٹیریو سپیکر اور ایک ویڈیو کیمرہ بھی لگا ہوا تھا۔

اس میں انٹرنیٹ تک رسائی کی سہولت بھی بہت سست تھی۔ کچھ مہینوں تک یہ مارکیٹ میں سب سے بہترین فون تھا۔

بدقسمتی سے اگلے جون میں ایپل کی جانب سے آئی فون لانچ کیا گیا جو نوکیا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ یہاں 2020 کی دہائی میں آئی فونز دنیا بھر میں ہر جگہ موجود ہیں، اور نوکیا ’N95‘ کم ہی نظر آتا ہے۔

لیکن آئی فون کی طرح N95 بھی اعلیٰ میعار کی مثال ہے جو جدید موبائل آلات کو ان کے پیشروؤں سے ممتاز کرتا ہے، وہ صرف فون نہیں ہیں، بلکہ اس کے بجائے ٹیکنالوجی کی وسیع خدمات کو ایک ہی آلے میں یکجا کرنے والی ڈوائیسز ہیں۔

ونڈ مل کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر چپس اور ٹرانزسٹر چھوٹے سے چھوٹے اور تیز سے تیز تر ہو گئے ہیں جس سے ان آلات کی فعالیت اور استعمال کو وسعت ملتی ہے۔ ’ہمیں ان پر مزید پروسیسنگ پاور ملتی ہے، اور ان میں زیادہ سینسر لگانے کی زیادہ صلاحیت ہے۔‘

اس لیے ابتدائی سمارٹ فونز میں انٹرنیٹ براؤزرز، کیمروں، لوکیشن سروسز، ٹارچز، بلوٹوتھ اور ایکسلرومیٹر (رفتار پیما) جیسی سہولت شامل کردی گئیں، پھر سرکٹری سہولت بھی ہے جو بتا سکتی ہے کہ فون کس زاویے پر رکھا گیا ہے، جس سے یہ خود بخود آپ کے ڈسپلے کو پورٹریٹ موڈ سے لینڈ سکیپ میں تبدیل کر دیتا ہے۔

یہ تکنیکی صلاحیتیں وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ آج کے سمارٹ فونز میں بینکنگ، یہ آپ کا ذاتی خدمت گزار (پرسنل اسسٹنٹ) ہے، پاکٹ سائز کی سنیما سکرینز اور میوزک پلیئرز بھی ہیں۔ ان میں جائروسکوپس، بیرومیٹر، تھرمامیٹر، میگنیٹومیٹر، انفرا ریڈ سینسرز اور فنگر پرنٹ سینسر بھی موجود ہیں۔

موبائل فون کے استعمال میں جدت
موبائل فونز کے انٹرنیٹ کی رفتار میں یکسر بہتری آئی ہے، (جزوی طور پر 5G انٹرنیٹ کی بدولت۔ اور مینوفیکچررز پہلے ہی آنے والے سالوں میں 6G نیٹ ورکس کے متعارف ہونے کے امکان پر بات کر رہے ہیں)۔

فونز میں موجود کمپیوٹیشنل صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور جدید سافٹ ویئر ایپلی کیشنز نے ان آلات کو استعمال کرنے کے جدید طریقے مہیا کر دیے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ میڈیسن کی بات کریں۔ دماغ کی سرجری میں، آئی فونز نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینا شروع کر دی ہے جو اینڈو سکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیوز کو دکھاتے ہیں۔

کورونا (CoVID-19) کے وبائی مرض کے دوران بلوٹوتھ نے سافٹ ویئر انجینئرز کو رابطے کا پتہ لگانے کا نظام بنانے کے قابل بنایا جو یہ بتا سکے کہ ہم کب متاثرہ افراد کے قریب تھے، اور اس وقت ہمیں یہ موبائل فون ایک خوفناک ’پنگ‘ کی آواز سے انتباہ کرتا ہے۔

ویڈیو کالنگ ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان کی تشخیص کرنے کے قابل بناتی ہے۔

سمارٹ فونز کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ مصنوعی ذہانت کا امتزاج، مزید مواقع پیدا کر رہا ہے۔

برطانیہ کی ایک نئی کمپنی (سٹارٹ اپ) ’نووئیک‘ (Novoic)، موبائل فون پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کی آواز کا تجزیہ کر کے الزائمر کی بیماری کی ابتدائی علامات کا پتہ لگانے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کرتی ہے۔

اسی طرح فون میں موجود جی پی ایس (GPS) آلات ہمیں انھیں ’سیٹ نیوز‘ (sat-navs) کے طور پر استعمال کرنے کے قابل بھی بنا دیتے ہیں۔

لیکن بنڈل ٹیکنالوجی نے نیویگیشنل خصوصیات بھی تخلیق کرنے کے قابل بنایا ہے جو گوگل میپس کے نسبت کم معروف ہیں، لیکن ان کے صارفین کے لیے یہ خصوصیات انتہائی اہم ہیں، جیسے کہ نابینا افراد کے لیے ہیپِٹک نیو‘ (HapticNav)، یا ’ٹچ بیسڈ نیویگیشن‘ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

ریسرچرز نے زیادہ تر جدید سمارٹ فونز کے اندر وائبریشن کی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے گوگل میپس کے جیسے ایسے ڈیجیٹل نقشہ تیار کیے ہیں جن پر ایسے ٹیکسچر بن جاتے ہیں جنھیں بصارت سے محروم لوگ اپنی انگلیوں سے محسوس کر سکتے اور اپنے ماحول کے مطابق راستوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

وائبریشنز کی شدت اور فریکوئنسی کو بدل کر وہ سکرین پر مختلف ’ٹیکسچر‘ کا احساس بھی پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ صارف کسی سفر میں اپنا راستہ محسوس کر سکتا ہے، جس سے ایسی خصوصیات کا اشارہ ملتا ہے جن سے وہ آگاہ ہونا چاہتا ہے۔

ایک فون ایپ ’ہیپٹِک نیو‘ (HapticNav) کو کلائی کے بند میں جوڑ کر اسے ایک قدم مزید جدید بنا دیا گیا ہے جو وائبریشن کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی منزلوں تک لے جاتا ہے۔

تاہم سکول کے کلاس رومز میں موبائل فون کا اکثر بہت کم استقبال کیا جاتا ہے جو طلبا کے لیے ایک خلفشار کا باعث بنتا ہے۔

ونڈ مل کہتے ہیں کہ کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح انسانی جسم کے عضلات حرکت کرتے ہیں۔ آپ ہڈیوں کو جدا کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اصل میں کس چیز سے بنی ہوئی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے ایپس اعلیٰ تعلیم تک ہر ایک کو رسائی دینے میں مدد کر رہے ہیں۔ ’آپ کو مہنگے پی سی کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو مہنگے ہیڈسیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کسی بھی ڈیوائس پر آگمنٹڈ رئیلیٹی (augmented reality)، یا ورچوئل رئیلیٹی (virtual reality) ڈال سکتے ہیں۔‘

چھوٹے بچوں کے لیے ونڈ مل ڈزنی کی تحقیق کے ذریعے تخلیق کردہ ایک آگمنٹڈ رئیلیٹی (augmented reality)، والی اینیمیشن ایپ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو کارٹون کرداروں کی ڈرائنگ کو فون کی سکرین پر بناتی ہے کیونکہ وہ رنگین ہوتے ہیں۔

انسانی کوششوں کے چند میدان ایسے ہیں جنہیں سمارٹ فون نے تاحال چھوا بھی نہیں ہے۔ فون قدرتی دنیا کے ساتھ ہماری مصروفیت میں بھی ثالثی کا ایک کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ ’پکچر دِس‘ (PictureThis) یا ’گوگل لینز‘ (Google Lens) جیسی ایپس پودوں کی شناخت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کسان اپنے کھیتوں میں جڑی بوٹیوں، بیماریوں، کیڑوں اور تناؤ کی علامات کی شناخت کرنے کے لیے فون پر مبنی ایپس کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

مقامی موسمی سٹیشنوں سے ڈیٹا حاصل کرکے کسان ان فونز میں دیے گئے ٹولز کا بھی زیادہ استعمال کر رہے ہیں جو انھیں آبپاشی کے نظام الاوقات کو منظم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اور سائنس دان ’لی ڈار‘ (LiDAR) سکینرز کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا سے جنگل کی کاربن کی منجمد اور عمومی صحت کی نگرانی کر سکتے ہیں جو کہ اب حالیہ آئی فونز سمیت کئی معروف فونز میں دستیاب ہے۔

’لی ڈار‘ (LiDAR) کا مطلب ہے ’لائٹ ڈٹیکشن اینڈ رینجنگ‘ اور کسی چیز یا کمرے کے ڈی-3 (3D) ڈیجیٹل ماڈل کو تیزی سے بنانے کے لیے فاصلے کی پیمائش کرنے کے لیے لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔

یہ وہی چیز ہے جو ’آئیکیا پلیس ایپ‘ (IKEA Place app) استعمال کرتا ہے، مثال کے طور پر آپ کو یہ دکھانے کے لیے کہ آپ کے گھر میں ایک فرنیچر کیسا لگے گا یہ ایپ اس کی تھری ڈی 3D شکل بنا دے گا۔

کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے ان فون سینسرز کو جنگل میں درختوں کے قطر کی پیمائش کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا ہے، جس سے وہ جنگل کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

سمارٹ فون کا ’نشہ‘
لیکن فون فوائد کے ساتھ مسائل بھی لاتے ہیں۔ سمارٹ فون کے ’نشے‘ کے مضر اثرات اور انسٹاگرام اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا تک ان کے لیے تیار رسائی نے بڑے پیمانے پر خوف بھی پیدا کیا ہے۔

مثال کے طور پر موبائل فون بچوں کی ذہنی صحت کو کس طرح متاثر کرتا ہے، اگرچہ اس کے ثبوت متضاد ہیں۔

جیسا کہ سمارٹ فونز کا اپنا ارتقا جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سارے نئے سے نئے استعمال کے طریقوں کا بھی انکشاف ہو رہا ہے۔

الزبتھ ووئک جو کہ ’دی سمارٹ فون: اناٹومی آف این انڈسٹری‘ کی مصنفہ ہیں، کہتی ہیں کہ ’فولڈنگ فونز کی نئی جنریشن کے ساتھ اس سے بھی بہتر فونز بن رہے ہیں، اور وہ بھی ہماری جیبوں میں فٹ ہونے والی بہت بڑی سکرینوں کی گنجائش کے ساتھ۔

وائک کے خیال میں ’سمارٹ گلاسز‘ کا بھی یہی حال ہے، ایک ایسی تبدیلی جس کا ہدف ہے کہ سمارٹ فون کی صلاحیتوں کے ساتھ ایک ڈھل جانے والا ڈیوائس۔

ووئک کہتی ہیں کہ گوگل گلاس ایک بڑی معروف ناکامی تھی، ’لیکن حقیقت میں سمارٹ گلاسز کی بہت منطق ہوتی ہے جب وہ یہ جان لیں کہ ایک اچھا جوڑا کیسے بنایا جائے‘۔

کسی آلے کو اپنی جیب میں ٹٹولنے کی کیا ضرورت ہے جب آپ آڈیو کو براہ راست سن سکتے ہیں اور تصاویر آپ کو منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے یا خریداری کروا سکتی ہیں اور یہاں تک کہ لوگوں کو پہچاننے میں آپ کی مدد کرسکتی ہیں۔

کس نے سوچا ہو گا کہ اینجل کا خاکستری باکس ایسا تماشا بنائے گا؟