معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اقتدار کے بھوکے
یاد پڑتا ہے برسوں سے پاکستان کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یہ ملک گورننس کے قابل نہیں رہا‘ یہ جلد دیوالیہ ہو جائے گا۔اُس وقت ہنس پڑتے تھے۔ کچھ دوست کہتے تھے کہ ملک کوئی کارپوریشن نہیں ہوتے جو دلوالیہ ہو جائیں۔ میرا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان پر ایسی صورتحال کبھی نہیں آئے گی۔ ہمیشہ ایک امید رہتی تھی کہ کسی وقت کوئی معجزہ ہو جائے گا۔
اس عرصے میں مَیں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ ہمارے اندر ایک مریضانہ قسم کا رجحان پرورش پا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنا کوئی پوائنٹ ثابت کرنے کے لیے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی وہی حالات پیدا ہوں جو سری لنکا میں ہوئے تاکہ ہم کہہ سکیں کہ دیکھا! میں نا کہتا تھا کہ پاکستان نہیں چل پائے گا۔ اپنے مخالفوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ہم ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو اس وقت کوئی سیاستدان ایسا نہیں لگ رہا جسے اس ملک اور عوام کی فکر ہو۔ اگر خدانخواستہ ملک کو کچھ ہوا تو تسلی رکھیں اس موجودہ سیاسی ایلیٹ میں سے کسی کو نقصان نہیں ہوگا۔ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بگڑے گا انہی عوام کا جو اپنے اپنے لیڈر کو سچا ثابت کرنے کے لیے سری لنکا جیسے حالات چاہتے ہیں۔
عمران خان کے حامی اس بات پر پکے ہیں کہ اگر ان کا کپتان اس ملک کا وزیراعظم نہیں ہے تو پھر ان کی بلا سے کچھ بھی ہو جائے۔ میں چند دنوں کے لیے امریکہ آیا ہوا ہوں تو یہ بات اکثر پاکستانیوں سے سنی ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگر ان کا پسندیدہ وزیراعظم نہیں ہے۔ وہ بڑے جذباتی ہیں بلکہ کچھ دوستوں کو میں نے اجنبی رویہ اختیار کرتے دیکھا۔ میں نے ہنس کر ایک دوست سے پوچھ لیا کہ میں تو اس حق میں تھا کہ عمران خان کو پانچ سال وزیراعظم رہنا چاہیے۔ اگرچہ تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے وہ تحریک جمع کروائی انہوں نے اپنے پائوں پر کلہاڑا مارا۔ عمران خان حکومت جنوری فروری میں جتنی اَن پاپولر ہو چکی تھی اس کا اندازہ اب کرنا مشکل ہے کیونکہ ان چار ماہ میں حالات عمران خان کے حق میں بدل چکے ہیں۔
عمران خان خوش قسمت نکلے‘ ورنہ اب تک عوام ان کا بھی وہی حشر کر چکے ہوتے جو اس وقت شریف خاندان کا ہورہا ہے۔ شہباز شریف نے اُڑتا تیر بغل میں لیا ہے ورنہ عمران خان خود اس وقت حکومت سے فرار ہونے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہوتے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی وہ اسمبلی سے قانون پاس کروا چکے تھے کہ سٹیٹ بینک آزاد ہوگا جس سے ملک کا وزیراعظم بھی جواب طلبی نہیں کر سکے گا۔ نواز لیگ کے لیڈرز ساری عمر خود کو بہت ذہین اور چالاک سمجھتے رہے لیکن اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کا دماغ بند ہوگیا تھا کہ انہوں نے سامنے کی بات نظرانداز کر دی اور محض نومبر میں ہونے والی ایک اہم تقرری کے معاملے پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا جو ان کی سیاست کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ نواز لیگ کو اچانک محسوس ہورہا ہے کہ چار ماہ کے اندر ان کی سیاست ختم ہوگئی ہے۔ انہیں پہلی دفعہ احساس ہورہا ہے کہ وہ ایک ایسی بند گلی میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنا ان کے لیے ناممکن ہے۔ شہباز شریف اب اسلام آباد کے چوبیس کلومیٹر تک کے علاقے تک محدود ہوگئے ہیں۔ اب پنجاب پرویز الٰہی کے پاس چلا گیا تو شہباز شریف‘ مریم نواز اور نواز شریف کے پلے کیا رہ جائے گا؟ اسلام آباد میں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر شہباز شریف کیا کریں گے اگر ان کے پاس پنجاب نہیں ہے؟ پنجاب کی ہمیشہ سے پاکستانی سیاست میں وہی حیثیت رہی ہے جو کبھی ہندوستان میں پانی پت کے میدان کی ہوا کرتی تھی۔ جو پانی پت کے میدان میں جنگ جیتتا تھا وہ دلّی کے تخت پر بیٹھتا تھا۔ پاکستان میں جس نے وزیراعظم بننا ہے اسے پنجاب سے الیکشن جیتنا پڑے گا ورنہ وہ بے شک تین صوبوں سے بھی جیت جائے وہ اسلام آباد میں حکومت نہیں بنا پائے گا۔ اس لیے شہباز شریف اور نواز شریف کی اس ساری ڈیل کے پیچھے بڑی لالچ پنجاب ہی تھا۔خیر‘ اب تین چار ماہ میں نواز لیگ نے چار سال کا سفر طے کر لیا ہے۔ اس وقت لگتا ہے کہ پچھلے چار سال سے عمران خان نہیں شہباز شریف وزیراعظم تھے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ پچھلے چار سال سے عمران خان مسلسل اپوزیشن میں چلے آ رہے تھے۔
شریف خاندان کی اپنی رپیوٹیشن بھی اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پاناما کے بعد جس طرح ان کے سکینڈلز سامنے آئے اس کے بعد یہ بیانیہ لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ چکا ہے کہ کچھ بھی ہو‘ عمران خان ان کے لیول کا کرپٹ نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے ساڑھے تین برسوں کا موازنہ نواز شریف یا شریف فیملی کے چالیس برسوں سے کرنا زیادتی ہے۔ لیکن لوگ اس وقت شریفوں اور زرداری کے کارناموں سے اتنے تنگ ہیں کہ انہیںعمران خان حکومت اور ان کی لاڈلوں کی کرپشن محسوس ہی نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں عمران خان ابھی ان سے بہت بہتر ہیں۔ وہ خان صاحب کی کرپشن کی کہانیوں کو نظر انداز کرنے کو تیار ہیں۔ وہ بزدار حکومت کی نالائقیاں‘ مانیکا‘ گجر اور فرح صاحبہ کے بارے حیران کن کہانیوں پر بھی یقین نہیں کرتے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ شریف خاندان جو ہر دفعہ اچھی بزنس ڈیل کرتا تھا اس دفعہ سودے بازی میں مار کھا گیا۔ وہی بات کہ بندہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوتا ہے تو غلطیاں کرتا ہے۔ جب ساڑھے تین سال بعد عمران خان آخرکار عوام میں اپنے فیصلوں کی وجہ سے نامقبول ہونا شروع ہوگئے تھے اور پی ٹی آئی کے وزیروں کا باہر نکلنا بھی مشکل ہو رہا تھا‘ جیسے آج کل شہباز شریف کی کابینہ کے وزیروں کا ہو چکا ہے‘ تو اس وقت شہباز شریف نے اپنے کندھے پیش کر دیے اور عمران خان کو بیل آئوٹ کر دیا۔ اب لاکھ نواز لیگ کے لیڈر کہتے رہیں کہ انہوں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانی دی‘ ورنہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا‘ وہ یہ کریڈٹ لینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ریاست بچائی اور اپنی سیاست ڈبو دی لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کا لالچ اور خوف انہیں لے ڈوبا۔ لالچ اقتدار کا تھا جبکہ خوف نومبر کا۔ اب انہیں احساس ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔
دوسری طرف تمام جماعتیں مل کر زور لگا رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو پوری دنیا میں تماشا بنا کر پیش کریں۔ مان لیا کہ پوری دنیا اس وقت بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور ہر ملک کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہے لیکن جو حالت اس وقت پاکستان کی ہو چکی ہے وہ آپ کو کہیں نظر نہیں آتی۔ پہلی دفعہ پاکستان کے حالات دیکھ کر خوف آرہا ہے۔ لگتا ہے ہم سب پر خودکشی کا ایک دورہ پڑگیا ہے۔ ہم اس وقت اپنے دشمن خود بن چکے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر جائیں تو اندازہ ہوگا کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ خود کو اذیت دے رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ روز کوئی نہ کوئی نیا دبائو ریاست اور اداروں پر ڈالتے چلے جائیں تاکہ نومبر سے پہلے انتخابات ہو جائیں۔ اس دوران ملک دلوالیہ ہوتا ہے تو ہو جائے انہیں پروا نہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف ہیں جو ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں چاہے ملک کا بیڑا غرق ہو جائے۔ یوں عمران خان اور شریف خاندان کی پاور سٹرگل ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ہمارے اندر ایک عجیب سی اذیت بھر گئی ہے۔ ہم خودکو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنا اقتدار چاہتے ہیں چاہے ملک کا کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ ہو جائے۔
ان برسوں میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کے ذاتی اور سیاسی مفادات ریاست پر بھاری پڑ گئے ہیں۔ ریاست چند اقتدار کے بھوکوں کے ہاتھوں خطرے میں ہے اور اسے دور دور تک بچانے والا کوئی نظر نہیں آرہا۔