’میں لوگوں کے لیے پرچے لکھ کر ان کی زندگیاں بدلتی ہوں‘

سنہ 2007 میں ایک نابینا شخص نے بنگلورو کی ایک مصروف سڑک پار کروانے کے لیے پشپا سے مدد مانگی۔ سڑک پار کرکے اس شخص نے ان سے ایک اور ایسی درخواست کی جس نے پشپا کی زندگی بدل دی۔

پشپا بتاتی ہیں کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اس کے دوست کے لیے ’امتحان میں لکھ سکتی ہوں‘۔

انھوں نے ہاں کر دی لیکن جب امتحان کا دن آیا تو ان کا جوش پریشانی میں بدل گیا۔ انھوں نے بطور کاتبہ تربیت نہیں لی تھی اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔

بنگلورو کے ایک باغ میں لکڑی کی کرسی پر بیٹھے وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’یہ کشمکش تین گھنٹے جاری رہی۔ امیدوار بہت آہستگی سے جوابات بول رہا تھا اور مجھ سے سوالات کو بار بار پڑھنے کو کہہ رہا تھا۔‘

البتہ انھوں نے 19 سالہ ہیما کو اپنے سکول کا فائنل امتحان پاس کرنے میں کافی مدد کی۔

اس کے بعد پشپا کو نابینا افراد کے ساتھ کام کرنے والی ایک این جی او سے درخواستیں موصول ہونے لگیں اور پچھلے 16 سالوں میں وہ 1000 سے زیادہ امتحانات میں بیٹھ چکی ہیں، اور وہ اس کے لیے پیسے نہیں لیتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’امتحانات کا ہال میرے لیے دوسرے گھر کی طرح ہیں۔‘

سکول اور یونیورسٹی کے امتحانات کے علاوہ پشپا نے سرکاری ملازمتوں کے لیے داخلہ کے امتحانات اور انتخابی امتحانات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کی بھی مدد کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب یہ میرے لیے معمول کا کام ہے۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ اس تجربے نے انھیں تاریخ سے لے کر شماریات تک بہت سے مضامین کے بارے میں جاننے میں مدد کی ہے۔

نابینا امیدواروں کے علاوہ پشپا نے دماغی فالج، ڈاؤن سنڈروم، آٹزم، ڈسلیکسیا کا شکار اور حادثات کے نتیجے میں معذور ہونے والے طلبا کی بھی مدد کی ہے۔

شروع کے دنوں میں انھیں دماغی فالج کا شکار افراد کو سمجھنے میں خاصی مشکل پیش آئی۔

ایک امیدوار کے لیے 47 امتحانات میں لکھا
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے بہت زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے، میں ان کے ہونٹوں کی حرکت دیکھ کر الفاظ سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

وہیل چئیر پر بیٹھے کارتک کے لیے پشپا نے ریکارڈ تعداد میں امتحانوں میں شرکت کی ہے۔

پشپا کہتی ہیں ’اس کے سکول کے آخری سال کے امتحان سے لے کر بزنس ایڈمنسٹریشن کے گریجویشن امتحانات کے ہر پیپر تک، میں نے 47 امتحانات میں اس کے پیپر لکھے ہیں۔‘

ایک مشکل وقت میں ان دونوں کی جان پہچان ہوئی۔

کارتک بتاتے ہیں ’میرے سکول کے امتحان کے دوران پشپا ایک اور شخص کے لیے لکھنے آئی تھیں۔ میرے ساتھ ایک اور کاتب تھا مگر وہ اچانک چلا گیا۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد پشپا آئی اور میرے لیے امتحان لکھا۔‘

25 سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ وہ سالہا سال کے دوران ان کی مسلسل مدد پر ان کے بہت شکرگزار ہیں۔

کارتک کہتے ہیں کہ ’ہم لکھ نہیں سکتے اور ہم میں سے اکثر کمپیوٹر نہیں سیکھتے کیونکہ ہمارے ہاتھ اس مشین پر ذرا سست ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے پشپا جیسی کاتبہ ملی۔۔۔ یہ لوگ ہمارے لیے خدا کا روپ ہیں۔‘

سالوں تک ایک ساتھ کام کرنے سے انھیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوئی ہے۔ کارتک اب گریجویشن کر چکے ہیں اور سرکاری کلرک بھرتی ہونے کے امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔

پشپا کہتی ہیں ’میں نے بہت سے طلبہ کے لیے متعدد امتحانات میں لکھا ہے اور ہر ایک کی ایک منفرد کہانی ہے۔‘

دوسروں کی زندگیاں بدل دیں
رواں برس مارچ کے تیسرے ہفتے میں انھوں نے 19 سالہ بھومیکا والمیکی کے لیے یونیورسٹی امتحان کا پرچہ لکھا۔

بھومیکا نابینا ہیں اور مطالعے کے لیے وہ ایسے ٹولز استعمال کرتی ہیں جو ٹیکسٹ کو آڈیو میں تبدیل کرکے انھیں پڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن انڈیا کا نظامِ تعلیم امتحانات کے لیے ایسی ایپس کو استعمال کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔

جذباتی آواز میں بھومیکا کہتی ہیں ’میں اپنی زندگی میں تبھی آگے بڑھ سکتی ہوں جب پشپا میرے لیے لکھے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’پشپا نے بہت صبر سے میرا ساتھ دیا اور میرے جوابات مکمل ہونے تک انتظار کرتی رہی۔ اس نے کبھی میرا دھیان نہیں ہٹایا اور میرے جوابات لکھنے سے پہلے دہرا کر مجھے سنائے۔‘

مدد کی بھی کچھ حدود ہیں
زیادہ تر لوگ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پشپا کی مدد مانگتے ہیں۔

پشا کی مدد مانگنے والوں میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جنھیں یونیورسٹی میں داخلے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے میری ہمدردی کا مطلب یہ نہیں کہ میں صحیح جواب لکھنے میں ان کی مدد کروں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ میرا کام وہی لکھنا ہے جو وہ بولتے ہیں۔

جب وہ غلط جواب پر ٹک لگانے کو کہتے ہیں یا ایسا جملہ بولتے ہیں جو گرائمر کے لحاظ سے غلط ہے تو ایسے میں، میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

’بعض اوقات ایسے طلبا (جو دوسری زبانیں بولتے ہیں) انگریزی کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو میں ان کے لیے ترجمہ کر دیتی ہوں۔‘

ہر طالب علم کے لیے ایک نگہبان مقرر ہوتا ہے اور ایک کیمرہ بھی۔ کاتبین کو کسی ایسے مضمون کے امتحان لکھنے کی اجازت نہیں ہے جس کی تعلیم انھبوں نے خود یونیورسٹی کی سطح پر حاصل کی ہو۔

پشپا کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور کام کے دوران ان کے والد ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ ان کی ماں نے پشپا اور ان کے بھائی کو پالنے کے لیے سخت محنت کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے اور میرے بھائی کو سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ ہم فیس ادا نہیں کر سکتے تھے۔‘

اس وقت ایک اجنبی نے ہماری فیس ادا کی۔ پشپا کا کہنا ہے کہ وہ اسی طرح لوگوں کی مہربانیوں کا بدلنہ چکانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پشپا اور ان کے بھائی نے ایک کورئیر کمپنی میں نوکری کی۔ پشپا نے گھر رہتے ہوئے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ بھی کیا۔

حالیہ برس خاص طور پر مشکل رہے ہیں۔ 2018 میں ان کے والد وفات پا گئے۔

سنہ 2020 میں کووڈ کے ابتدائی دنوں میں ان کے بھائی وفات پا گئے، ان کی موت کی وجہ ابھی تک پتا نہیں چل سکی۔

ایک سال سے بے روزگار پشپا کو مزید بری خبریں ملیں۔

’مئی 2021 میں، میری والدہ وفات پا گئیں۔ چند ماہ بعد اگست میں، میں نے 32 امتحانات لکھے۔ چند دن میں دو دو امتحانوں میں بھی لکھتی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس کام نے انھیں اپنا غم بھلانے میں مدد کی ہے۔

ان کی یہ انتھک محنت رائیگاں نہیں گئی اور انھوں نے دوسری خواتین کو بااختیار بنانےکا قومی ایوارڈ جیتا تھا۔

’8 مارچ 2018 کو، مجھے انڈیا کے صدر سے ایوارڈ ملا۔‘

وہ ایوارڈ جیتنے والے دوسرے لوگوں کے ہمراہ وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملیں۔

پشپا اب ایک ٹیک سٹارٹ اپ میں کام کرتی ہے اور کارپوریٹ ایونٹس میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تقریریں کرتی ہیں۔

لیکن وہ اب بھی ان لوگوں کے لیے امتحان میں بیٹھتی ہے جو خود نہیں لکھ سکتے، اور پانچ زبانیں (تمل، کنڑ، انگریزی، تیلگو اور ہندی) سمجھنے کا مطلب ہے کہ ان کی کافی مانگ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنا وقت اور انرجی لگاتی ہوں۔ اگر میں کسی کے لیے امتحانی پرچہ لکھتی ہوں تو اس سے ان کی زندگی بدل جاتی ہے۔‘