معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
میں نے نہیں مرنا!
اللّٰہ جانے کون لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ موت ہر شخص کو آنی ہے، مجھے تو کبھی ایسا خیال نہیں آیا کہ ایک دن مجھے بھی مرنا ہے، میں مر بھی کیسے سکتا ہوں، میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ اتنی شاندار صحت کے ہوتے ہوئے اپنی موت کے بارے میں سوچنا ایک نہایت احمقانہ فعل ہے۔ یہ درست ہے کہ میں نے بے شمار لوگوں کو مرتے دیکھا ہے مگر انہوں نے مرنا ہی تھا کیونکہ کچھ لوگ اس دنیا میں آتے ہی مرنے کے لیے ہیں، وہ جب زندہ ہوتے ہیں، اس وقت بھی قسطوں میں مر رہے ہوتے ہیں۔ دراصل ان کی تعمیر مارکیٹ میں دستیاب ناقص میٹریل سے ہوئی ہوتی ہے جبکہ آپ مجھے چھو کر دیکھیں آپ کو اندازہ ہو گا کہ میری تعمیر میں کیسا اعلیٰ میٹریل استعمال کیا گیا ہے۔
جو لوگ موت کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، وہ دنیا میں کوئی کام نہیں کرسکتے، میں ایک ایسے بزنس مین کو جانتا ہوں، جس میں کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی چنانچہ وہ اگر چاہتا تو اربوں روپے کما سکتا تھا لیکن اس کم ہمت شخص کو ہر وقت موت یاد رہتی تھی اور یوں وہ ساری عمر حلال حرام ہی کے چکر میں رہا اور ایک دن واقعی مر گیا، ایک بے ہودہ بیوروکریٹ (وہ بھی مر چکا ہے) کو میں نے دیکھا وہ بھی خاصا بزدل انسان تھا، اس کے پاس جب بھی کوئی ایسی فائل آتی جس پر دستخط کرنے سے اس کی پروموشن ہوسکتی تھی یا لمبی رقم مل سکتی تھی وہ خوف خدا سے تھر تھر کانپنے لگتا، اس کے کولیگز اسے سمجھاتے کہ ایسے گناہوں کو ہضم کرنے کا چورن موجود ہے، تم فائل پر دستخط کرنے کے بعد مصلے پر بیٹھ جانا اس کے بعد تم بھی معصوم بچے کی طرح ہر گناہ سے پاک ہو جائو گے، مگر وہ کہتا ’’میں نے ایک دن مرنا ہے اور خدا کے حضور پیش ہونا ہے، میں ایسی باتوں سے خود کو تو چکر دے سکتا ہوں مگر خدا کو چکر کیسے دوں گا؟‘‘ اس بیوروکریٹ کے بچوں نے اپنے باپ کو اس کے مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کیا۔
میں نے ایسے جج بھی دیکھے ہیں جو اگر ہر وقت موت کو یاد نہ کرتے ہوئے اوپر کا دبائو قبول کرلیتے تو آج شہنشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتے، ایسے جرنیل بھی دیکھے جو پستول کی نوک پر اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے مگر یہ کم ہمت لوگ ہر وقت موت کو یاد رکھتے تھے چنانچہ ترقی نہ کرسکے۔ میری نظروں سے ایسے علماء اور مشائخ بھی گزرے ہیں، جن کی باتیں حکمرانوں اور معاشرے کے بدکردار طبقوں کوناگوار گزرتی تھیں کیونکہ وہ انہیں بتاتے تھے کہ مسجد سجدہ گاہ ہے، اس کے باہر ساری دنیا عبادت گاہ ہے، ان طبقوں کو مذہب کی یہ تعبیر اچھی نہیں لگتی تھی کیونکہ مسجد کے اندر سجدہ کرنا آسان ہے، اس کے باہر ساری دنیا کو عبادت گاہ سمجھنے سے سارے دھندے بند کرنا پڑتے ہیں۔ ایسے بہت سے صحافی، ڈاکٹر اور انجینئر بھی میری نظروں میں ہیں، جو اچھے خاصے صحت مند ہیں، انہیں موت کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے، مگر وہ بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن سب نے مرنا ہے، چنانچہ وہ ہر کام بہت ناپ تول کر کرتے ہیں اور یوں ان توہم پرستوں نے اپنی زندگیاں بھی برباد کی ہوئی ہیں اور اپنی آئندہ نسل کے راستوں میں بھی کاٹنے بو رہے ہیں۔تاہم خدا کا شکر ہے کہ میرے دوستوں میں کم از کم ایک ایسا نر شخص موجود ہے جس کو موت یاد نہیں ہے، بلکہ میری طرح اس کا بھی پکا ایمان ہے کہ اس نے کبھی نہیں مرنا،وہ ایک قابلِ رشک محنت والا صاحب اقتدار انسان ہے، چنانچہ اپنے تمام اختیارات بے دھڑک استعمال کرتا ہے، آپ اس پر لاکھ انگلی اٹھائیں، اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا، خلق خدا روکے، چلائے یا گڑگڑائے، اس پر ان کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ جب تک اس کرہ ارض پر حیات موجود ہے، وہ اس وقت تک زندہ رہے گا،دراصل وہ مغرب کے ’’طبیبوں‘‘ سے حاصل کردہ کشتوں پر بہت بھروسہ کرتا ہے اور یا پھر اس کے اعتبار کے کچھ ’’طبیب‘‘ اسے اندرون ملک بھی میسر ہیں۔ یہ طبیب بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ انہوں نے بھی نہیں مرنا اور یوں وہ بھی تاحیات اختیارات میں حصے دار ہیں، وہ میرے دوست کو بھی یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے اسے کچھ نہیں ہوسکتا، البتہ ان دنوں میرا یہ دوست کچھ ڈسٹرب ہے۔ اسے بُرےبُرے خواب آتے ہیں، ان خوابوں میں بھوت اسے ڈراتے ہیں، چنانچہ وہ راتوں کو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے، اسے جب کبھی ایسا خواب آتا ہے، وہ گھبرایا ہوا میرے پاس آتا ہے کہ وہ جانتا ہے اس بھری پُری دنیا میں، میں ہی ایک ایسا شخص ہوں جسے نہ صرف یہ کہ موت کبھی نہیں آنی بلکہ میں تو لوگوں کے دلوں سے بھی موت کا خوف نکالنے میں لگا رہتا ہوں تاکہ صاحب اختیار لوگوں کو زندگی گزارنے کا کوئی لطف تو آئے، ایسے لمحوں میں، میں اسے اپنا جسم ٹٹولنے کے لیے کہتا ہوں چنانچہ وہ میرے فولاد جیسے جسم میں انگلیاں چبھو کر دیکھتا ہے جو اندر نہیں دھنستیں بلکہ ٹیڑھی ہو جاتی ہیں، اس پر وہ کہتا ہے ’’تم واقعی نہیں مر سکتے!‘‘ پھر وہ مجھے اپنا جسم ٹٹولنے کے لیے کہتا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا جسم بھی فولاد کی مانند ہے اور یوں ہم دونوں اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ لاکھ جن بھوت خوابوں میں آکر ڈرانے کی کوشش کریں، ہمارا مقدر حیات جاودانی ہے، ہم سے پہلے فرعون، نمرود اور شداد بھی گزرے ہیں اور آپ دیکھیں صدیاں گزر گئی ہیں مگر وہ آج بھی زندہ ہیں اوردنیا کے مختلف ملکوں میں حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں، سو جو لوگ سوچنے بیٹھ جاتے ہیں کہ انہوں نے ایک دن مرنا ہے وہ یہ خیال خام دلوں سے نکال دیں۔ میرا یہ پیغام زندگی کے ہر شعبے کے صاحب اختیار لوگوں کے لیے ہے، وہ یقین رکھیں انہوں نے کبھی نہیں مرنا بلکہ فرعون اور شداد کی طرح وہ ہر دور میں زندہ رہیں گے! (قندِ مکرر)