معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اگر عمران خان واپس آ گیا
شام میں مارچ 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور یہ آج تک جاری ہے‘ ان 11برسوں نے ملک کی چولہیں ہلا کر رکھ دیں‘ ساڑھے پانچ لاکھ لوگ ہلاک اور 21 لاکھ زخمی ہوئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے نقل مکانی کی‘اس دوران تجارت بند ہو گئی‘ ہوائی اڈے اور فضائی سروسز معطل ہو گئیں۔
ملک پر اقتصادی پابندیاں لگ گئیں اور عوام غذائی قلت کا شکار ہو گئے‘شام خانہ جنگی سے پہلے فوجی‘ اقتصادی‘ اور ثقافتی لحاظ سے اسلامی دنیا کا مضبوط ترین ملک تھا‘ دمشق دنیا کا قدیم ترین ایکٹو شہر ہے‘ چار ہزار سال سے موجودہ ہیت اور اسٹرکچر کے ساتھ چل رہا ہے اور یہ دنیا کے بڑے سیاحتی مقامات اور شہروں میں بھی شمار ہوتا ہے لیکن پھر یہ ملک دیکھتے ہی دیکھتے مٹی کا ڈھیر بن گیا‘ شام اس حالت تک کیسے پہنچا ؟ اس کی بے شمار وجوہات بیان کی جاتی ہیں لیکن ایک وجہ پر اتفاق رائے ہے اور وہ وجہ ہے صدر بشار الاسد کی اتھارٹی‘ صدر کے پاس ڈکٹیٹر کے تمام اختیارات موجود ہیں‘ پارلیمنٹ تک صدر کے تابع ہے۔
یہ کسی بھی وقت پوری پارلیمنٹ تحلیل کر سکتے ہیں اور اس فیصلے کو کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ صدر چیف جسٹس بھی ہیں‘ عدالتیں ’’آزاد‘‘ ہیں‘ جج اور چیف جسٹس فیصلے بھی کرتے ہیں لیکن کسی بھی حتمی فیصلے سے قبل صدر کی منظوری ضروری ہے اور اس منظوری کے لیے چیف جسٹس کو چل کر خود صدر کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔
صدر چیف جسٹس کودو سطریں لکھ کر ہٹا بھی سکتا ہے اور اس فیصلے کو بھی کوئی چیلنج نہیں کر سکتا‘ فوج وزیر دفاع کے ماتحت کام کرتی ہے اور وزیر دفاع حاضر سروس جنرل ہوتا ہے تاہم فوج کا سربراہ آرمی چیف ہوتا ہے لیکن ان دونوں کے تقرر‘ تبادلے اور معطلی کا فیصلہ بھی صدر کرتا ہے اور یہ کسی بھی وقت آرمی چیف اور وزیر دفاع کو ہٹا سکتا ہے اور ان کی جگہ کسی بھی افسر کو نامزد کر سکتا ہے۔
صدر کمانڈر انچیف بھی ہے لہٰذا جنگ اور امن کا فیصلہ بھی صدر کرتا ہے‘ صدر محتسب اعلیٰ بھی ہے‘ ملک میں کس وقت ‘کس کا احتساب ہونا ہے اور کس کرپٹ افسر کو کس وقت باعزت بری کر ناہے یہ فیصلہ بھی صدر کرتا ہے‘ الیکشن کب ہوں گے اور ان میں کون جیتے گا‘ یہ فیصلہ بھی صدر کے پاس ہے‘ دفاعی اور معاشی امور کے اہم فیصلے بھی صدر کرتا ہے۔
کابینہ توچلتی ہی صدر کے اشارے پر ہے‘ صدر راضی تو چور بھی قاضی اور صدر ناراض تو قاضی بھی مجرم‘باقی رہ گئی پولیس‘ انتظامیہ اور میونسپل کمیٹیاں تو ان کا فیصلہ صدر کے معاونین کرتے ہیں اور کسی میں دم مارنے کی ہمت نہیں ہوتی اور یہ تاریخی لحاظ سے ثابت شدہ حقیقت ہے جب ریاست کے تمام اختیارات کسی ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جائیں تو وہ ریاست برباد ہو جاتی ہے اور شام کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ یہ ملک بھی مٹی کا ڈھیر بن گیا۔
عمران خان اور ان کے ٹائیگرز بھی دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں اقتدار ان کا پیدائشی حق ہے اور ریاست کو یہ حق ٹرے میں رکھ کر انھیں واپس کر دینا چاہیے‘ ہم اب فرض کر لیتے ہیں عمران خان واقعی ریاست کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیتے ہیں اور انھیں ان کی مرضی کا الیکشن کمشنر‘ مرضی کی الیکشن ڈیٹس‘ مرضی کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں‘ مرضی کی حلقہ بندیاں‘ مرضی کے الیکٹورلز‘ مرضی کا پولنگ ٹائم اور مرضی کے تارکین وطن کے ووٹ بھی دے دیے جاتے ہیں اور ان کے تمام مخالفین کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھی ڈال دیا جاتا ہے اور یوں عمران خان دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر وزیراعظم بن جاتے ہیں تو یہ کیا کریں گے؟میرا خیال ہے یہ صدر بشارالاسد بننے کی کوشش کریں گے۔
کیسے؟ غائب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ذات کے پاس نہیں لیکن میں جس عمران خان کو جانتا ہوں اور میں نے ساڑھے تین برسوں میں جس طرز حکمرانی کا نمونہ دیکھا مجھے اس سے محسوس ہوتا ہے عمران خان پارلیمانی جمہوریت سے خوش نہیں ہیں‘ یہ ایم این ایز‘ سینیٹرز اور ایم پی ایز کو بلیک میلر سمجھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں یہ لوگ گروپ بنا کر حکومت پر پریشر ڈالتے ہیں۔
عمران خان ان کے ساتھ ملاقات اور ہاتھ ملانے میں خوشی بھی محسوس نہیں کرتے تھے لہٰذا عمران خان دوتہائی اکثریت ملتے ہی ملک کو صدارتی طرز حکومت میں شفٹ کر دیں گے‘ یہ آئین تبدیل کر دیں گے‘ صدر کواختیارات کا ماخذ بنا دیں گے‘ الیکشن براہ راست کر دیں گے اور امریکی صدر کی طرح جس کو چاہیں گے اسے وزارت کی کرسی پر بٹھا دیں گے اور جسے جب چاہیں گے اسے فارغ کر دیں گے۔
یہ آئین میں تبدیلی کے بعد خود وزیراعظم سے صدر بن جائیں گے اور پھر شہباز گل جیسے ماہرین کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیں گے‘ عمران خان سپریم کورٹ سے بھی خوش نہیں ہیں‘ یہ بار بار کہتے ہیں عدالتیں وقت پر فیصلے نہیں کرتیں جس کی وجہ سے 24 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور لندن میں اربوں روپے کے فلیٹس کے مالک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بن جاتے ہیں‘یہ چیف جسٹس اور ججوں کی مدت ملازمت سے بھی مطمئن نہیں ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ججوں کوحکومت کے ماتحت ہونا چاہیے اور یہ اس سلسلے میں اپنی نجی محفلوں میں قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔
یہ صاف کہتے ہیں ہماری حکومت جسٹس فائز عیسیٰ کے صدارتی ریفرنس کو منطقی نتیجے تک نہیں پہنچا سکی لہٰذا یہ ججوں کی تعیناتی اور تقرری کا سسٹم بھی بدل دیں گے اور چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں گے یوں حکومت جب چاہے گی یہ بشار الاسد کی طرح کسی بھی جج کو ریفرنس کے بغیر فارغ کر دے گی۔ عمران خان آرمی چیف کی مدت ملازمت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
یہ عام کہتے رہتے ہیں حکومت اگر آئی جی کو ہٹا سکتی ہے تو یہ آرمی چیف کو کیوں نہیں ہٹا سکتی؟ لہٰذاعمران خان اگلی بار اپنا یہ اختیار استعمال کریں گے‘ یہ وزارت دفاع کا قلم دان اپنے پاس رکھیں گے‘ سیکریٹری دفاع بھی ان کا کوئی قریبی ساتھی ہو گا‘ وہ بنی گالا میں رہائش پذیر ہو گا اور یہ آئی جی کی طرح ہر سال چھ ماہ بعد آرمی چیف بھی بدل دیں گے‘ ڈی جی آئی ایس آئی کے سلسلے میں بھی یہی ہو گا‘ یہ جب چاہیں گے اور جس کو چاہیں گے یہ ذمے داری دے دیں گے اور جب چاہیں گے واپس بھی لے لیں گے۔
عمران خان بزنس مینوں‘ چیمبر آف کامرس اور تاجر تنظیموںسے بھی خوش نہیں ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں یہ لوگ حکومت کو بلیک میل کر کے ٹیکس میں چھوٹ لیتے ہیں لہٰذا یہ انھیں بھی ٹائیٹ کر دیں گے‘ ٹیکس دینا پورے ملک کی ذمے داری ہے چناں چہ حکومت جب چاہے گی اور جتنا چاہے گی ٹیکس وصول کرے گی اور جو شخص حکومت کے اس ارادے میں مزاحم ہو گا سرکار اس سے آہنی ہاتھوں سے نبٹے گی۔
عمران خان پاکستان کے سفارتی تعلقات کو بھی ’’ری وزٹ‘‘ کرنا چاہتے ہیں‘ یہ امریکا اور سعودی عرب کی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں ہم ان کو سلام کریں اور روس کے ساتھ جپھی ڈال لیں‘ گیس‘ تیل اور گندم روس سے خریدیں اور اگر اس کی پاداش میں عالمی پابندیاں بھی لگ جائیں تو ہم گھاس کھا لیں گے لیکن غلامی قبول نہیں کریں گے چناں چہ یہ اگلی بار اقتدار میں آنے کے بعد وسیع پیمانے پر گھاس کا بندوبست کریں گے تاکہ قوم دس پندرہ سال تک اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے‘یہ چین سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
یہ سمجھتے ہیں ہم نے مشکل وقت میں چین سے مدد مانگی لیکن اس نے ہمیں ایک دو بلین ڈالر دے کر ٹرخا دیا‘ ہمیں اب اس سے بھی دور ہو جانا چاہیے لہٰذا یہ دوسری بار اقتدار میں آ کر ’’سی پیک‘‘ کو بھی پیک کر دیں گے‘ یہ میڈیا سے بھی مطمئن نہیں ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں میڈیا ان کے خلاف ہر سازش میں شریک ہو جاتا ہے چناں چہ عمران خان کی اگلی حکومت میں میڈیا کے پاس صرف دو آپشن ہوں گے۔
یہ مین اسٹریم سے سوشل میڈیا پر شفٹ ہو جائے تاکہ وہاں مخالف اینکرز اور چینلز کی چھترول کی جا سکے اور دوسرا یہ پی ٹی وی بلکہ پی ٹی آئی بن جائے اور اگر چینلز یہ نہیں کر تے تو پھر یہ بھی اپنا دسترخوان لپیٹ لیں‘ عمران خان قوم کو قوم بنانا چاہتے ہیں۔
آلو ٹماٹر ان کی ترجیح تھے اور نہ مستقبل میں ہوں گے لہٰذا یہ دو تہائی اکثریت کے بعد بھی آلو‘ ٹماٹر‘ گندم اور چینی کو اللہ کے بھروسے پر چھوڑدیں گے اور صرف اور صرف نیشن بلڈنگ اور نوجوانوں کی کردار سازی پر توجہ دیں گے تاکہ دس پندرہ کروڑ نوجوان مل کر چور چور کے نعرے لگا سکیں اور آخری بات اگر دوسری بار بھی کسی نے ان کے خلاف سازش کی یا ان کی حکومت گرانے کی کوشش کی تو نتائج کا ذمے دار وہ خود ہوگا‘ کیوں؟ کیوں کہ ایٹم بم کا بٹن براہ راست ان کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کے بعد دنیا میں صرف عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا گانا رہ جائے گا ’’جب آئے گا عمران‘ سب کی جان‘ بنے گا نیا پاکستان‘‘۔