پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
آئی ایم ایف ہمارا دشمن ہے؟…( 2)
اگر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پاکستان کے کچھ اداروں نے جو اپنا پیسہ پرائیویٹ بینکوں میں ڈیپازٹ کرارکھا ہے‘ جسے وہ حکومت کو کمرشل قرضہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اربوں روپے اس پر مارک اَپ لیتے ہیں‘بہتر ہے وہ پیسہ سٹیٹ بینک کے Consolidated Fund فنڈ میں رکھیں اوروہاں سے نکلوا کر استعمال کر یں‘جب نیا ٹیکس ارینج ہو جائے تو دوبارہ وہیں رکھوا دیں‘ اس میں کیا غلط ہے؟ بینکوں نے تقریباً ایک سو ارب روپے سے زیادہ سالانہ پرافٹ کمایا ہے اور حکومت کو قرضے دے کر کمایا ہے۔بینکوں کی گاہک اس وقت حکومت پاکستان ہے‘ اس لیے بینک چھوٹے کاروباریوں کو قرض دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہیں کیا پڑی وہ چھوٹے کاروباریوں کو قرض دیں اور پھر روتے روتے ان سے واپسی کرائیں۔ اس کے مقابلے میں حکومت کو گاہک بنا لینا زیادہ محفوظ اور پرافٹ ایبل ہے۔ سو فیصد ریکوری اور کمرشل مہنگے قرضے۔ یوں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی‘ رنگ بھی چوکھا والا حساب چل رہا ہے۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چھوٹے کاروبار ترقی نہیں کرسکے کیونکہ بینک انہیں قرض دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جب ریاست ہی آپ کی گاہک ہو اور آپ کو اربوں کا مارک اَپ مل رہا ہو تو بھلا آپ کیوں پرچون کا کاروبار کریں گے؟ اس کھیل میں مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ پیسہ بینکوں کے پاس حکومت پاکستان کے اداروں کا رکھا ہے جس پر وہ چند فیصد پرافٹ دے کر حکومت کو ہی بیس سے تیس فیصد پر قرضہ دیتے ہیں۔ وہ پیسہ جو حکومتِ پاکستان کا ہے وہ ری سائیکل ہو کر حکومت کو قرض کی شکل میں ملتا ہے اور بینک تگڑا مال کماتے ہیں۔ یوں آپ کی سمال انڈسٹری کھڑی نہ ہوسکی جو پاکستانی ایکسپورٹس کو اس طرح مدد دیتی جیسے بنگلہ دیش یا چین میں ہوا۔
آئی ایم ایف کہتا ہے کہ یہ پیسہ Consolidated Fund میں رکھیں‘ حکومت کہتی ہے‘ آئی ایم ایف بڑا ظالم ہے۔ یہ بات نہ بھولیں کہ پاکستان کے کچھ وزیرخزانہ تو بینکوں کے سربراہ بھی تھے جن میں شوکت ترین بھی شامل تھے۔ جب وہ اپنا بینک ڈبو چکے تو ملک کے وزیرخزانہ بنا دیے گئے اور جب ہٹائے گئے تو انہوں نے آئی ایم ایف ڈیل رکوانے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزیروں سے خط لکھوانے کے لیے فون کرائے۔ شوکت ترین پر اس ایشو پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی لیکن پھر ترین کے تعلقات کام آگئے اور کسی نے ان سے پوچھ گچھ نہ کی۔
آئی ایم ایف کہتا ہے آپ کے ہاں شدید کرپشن ہے جس کی وجہ سے آپ کا پیسہ جہاں خرچ ہونا چاہئے‘ وہاں نہیں ہو رہا۔ پاکستانی بیوروکریٹس پاکستان سے پیسہ کما کر بیرون ملک اپنے بچے شفٹ کررہے ہیں‘ جائیدادیں بنا رہے ہیں‘ بیرون ملک شہریت لے رہے ہیں‘ پاکستانی وسائل باہر ٹرانسفر ہورہے ہیں‘ آپ ایک کام کریں‘افسران کے اثاثے پبلک کر دیں‘ جیسے سیاستدانوں کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کر دیے جاتے ہیں تاکہ سب کو علم ہو کہ ہر سال ان کی دولت یا جائیداد میں کتنا اضافہ ہوا۔ جب وہ سول سروس میں آئے تھے تو ان کے اثاثے کیا تھے اور اب وہ کہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ اب بتائیں اس میں آئی ایم ایف کیسے ظالم ثابت ہو گیا؟ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ظلم ِعظیم آئی ایم ایف کے کہنے پر ہورہا ہے اور ہم نہیں ہونے دیں گے۔پوری قوم کھڑی ہو جائے گی کہ آئی ایم ایف کون ہوتا ہے ہمیں بتانے والا۔
ہمیں سابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر پر غصہ تو بہت ہے کہ وہ آئی ایم ایف کا بندہ ہے۔ایک مشہور کالم نگار نے اپنے کالم میں جنرل باجوہ سے ملاقات کے بعد انکشاف کیا تھا یہی وہ رضا باقر تھے جنہوں نے ایک دن گھبراہٹ میں آرمی چیف کو فون کیا اور کہا کہ آپ کی فوری مدد درکار ہے‘ وزیراعظم سے بات کریں ورنہ ہم بچے کھچے ڈالروں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اگلے دن جنرل باجوہ‘ رضا باقر اور وزیراعظم کی ملاقات ہوئی۔ رضا باقر نے انکشاف کیا کہ ہماری لبرل امپورٹ پالیسی کی وجہ سے ڈالر دھڑا دھڑ باہر جارہے ہیں۔ عمران خان نے جواباًکہا: دیکھیں ہماری ٹیکس کولیکشن کتنی بڑھ گئی ہے۔ اس پر وزیراعظم کو بتایا گیا کہ یہ ٹیکس کولیکشن ان امپورٹس پر ہو رہی ہے۔ ہم ڈالرز باہر بھیج رہے ہیں اور ان سے خریدی گئی اشیاپر کسٹم ڈیوٹی کے نام پر پاکستانی روپے اکٹھے کر کے خوش ہورہے ہیں۔ امپورٹ کے نام پر ڈالرز باہر پارک کیا جارہا تھا۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا بھر کی منتیں کی جائیں اور جب وہ ڈالرز آ جائیں تو وہ ہم امپورٹ کے نام پر باہر بھیج کر ان اشیاپر روپوں میں کسٹم ڈیوٹی لے کر شادیانے بجائیں؟ عمران خان کی پشاور سے ایک اے ٹی ایم کو ڈالرز کے بحران کے دنوں میں چین سے گاڑیاں امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی اور کروڑں ڈالرز ضائع کیے گئے۔ بات یہیں تک رُک جاتی تو ٹھیک تھا لیکن پتا چلا کہ خان صاحب کے وزیراعظم بننے سے پہلے پاکستان کی امپورٹ پچپن ارب ڈالرز سے ساٹھ ارب ڈالرز تک تھی جو اَب80 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھی‘جبکہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے بھیجے گئے پیسے اور ایکسپورٹس مل کر بھی کل پاکستان کے پاس60‘ 61 ارب ڈالرز اکٹھے ہو رہے تھے۔ اب 20 ارب ڈالرز کا گیپ آپ نے کہاں سے پورا کرنا تھا؟ اس کا وہی حل نکالا گیا جو پاکستانی حکمران اور پالیسی میکرز برسوں سے کرتے آئے تھے کہ دنیا بھر سے بھیک مانگنے چل پڑیں یا قرضہ لیں۔
ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ کہیں کہ امپورٹ کا مطلب تھا کہ پاکستانی اکانومی Grow کر رہی تھی لہٰذا لوگ باہر سے خام مال منگوا کر اسے فنشنگ ٹچ دے کر ایکسپورٹ کر رہے تھے۔ ہاں اگر ایسا تھا تو پھر بات بنتی ہے‘ لیکن ایکسپورٹ کے فِگرز چیک کریں تو پاکستانی روپیہ گرا کر اور20 ارب ڈالرز کی امپورٹ بڑھا کر بھی صرف چند ارب ڈالرز کی ایکسپورٹس بڑھیں‘ حالانکہ جتنا روپیہ گرایا گیا تھا اس کے بعد یہ ایکسپورٹ 50 ارب ڈالرز تک جانی چاہئے تھیں‘ لیکن یہ 31 ارب ڈالر تک پہنچ سکیں۔ یوں 20 ارب ڈالرز کا وہ گیپ پیدا ہوا جس نے معیشت کی کمر توڑ دی۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ کل ٹیکس انکم پانچ ہزار ارب روپے کے قریب ہے جس میں ڈھائی ہزار ارب روپے تو صرف ان قرضوں کے سود پر سالانہ ادا کیے جارہے ہیں جبکہ ایک ہزار ارب روپے کی سابق افسران اور اہلکاروں کی پنشن اور دو ہزار ارب دفاعی بجٹ۔ اب اس میں کہیں بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے پیسہ نہیں ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کے ملازمین‘ ان کی پنشن یا دیگر اخراجات یا صوبوں کو سالانہ این ایف سی کے لگ بھگ تین‘ چار ہزار ارب کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
اب آپ بتائیں جس ملک کی پانچ ہزارارب روپے ٹیکس آمدن میں سے ڈھائی ہزار ارب روپے صرف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہورہے ہوں اور ڈھائی ہزار ارب میں آپ نے دفاعی بجٹ اور پنشن بھی دینی ہو‘ سالانہ ترقیاتی پروگرام بھی چلانا ہو‘ صوبوں کو این ایف سی کا ہزاروں ارب شیئر بھی دینا ہو‘ لاکھوں ملازمین اور اداروں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات بھی ادا کرنے ہوں تو پھر آئی ایم ایف کیا کہے گا آپ سے؟ وہ تو یہی کہے گا کہ جو سرکاری ادارے خسارے میں چل رہے ہیں‘ جن میں کرپشن ہو رہی ہے‘ انہیں بند کریں تاکہ کم از کم ایک ہزار ارب تو سالانہ بچیں‘ تو ہم سب رولا ڈال دیتے ہیں کہ جناب یہ ظلم ہے۔تو پھر آپ 20ارب ڈالرز کا گیپ پورا کر کے دکھائیں یا پانچ ہزار ارب روپے انکم میں اپنا سالانہ بجٹ بنا کر دکھائیں۔ اس لیے ہم نے آئی ایم ایف کو گالیاں دینے کیلئے رکھا ہے کہ وہ سب ظلم کرا رہا ہے کہ سبسڈی ختم اور ٹیکس بڑھائو۔ قرضہ نہ مانگو اپنے وسائل میں رہو یا وسائل بڑھائو۔ ہم دونوں کام نہیں کرتے اور نعرہ لگاتے ہیں آئی ایم ایف پاکستان کا دشمن ہے۔(جاری)