معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
حضرت مریمؑ کے گھر میں
سینٹ جان حضرت عیسیٰ ؑ کے بارہ حواریوں میں شامل تھے‘ یہ انتہائی خدمت گزار‘ نرم دل اور نیک انسان تھے‘ حضرت عیسیٰ ؑکو جب صلیب کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو آپ ؑ نے سینٹ جان سے فرمایا ’’میرے بعد تم میری ماں کا خیال رکھنا‘‘ سینٹ جان نے یہ ذمے داری قبول کر لی اور اپنی باقی زندگی حضرت مریم ؑکی خدمت کے لیے وقف کر دی‘ حضرت عیسیٰ ؑکے بعد یوروشلم کی زمین مسیحیوں کے لیے تنگ کر دی گئی چناں چہ یہ لوگ ایک ایک کر کے اسرائیل سے نکلنے لگے۔
سینٹ پیٹر حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی میں وہی مقام رکھتے تھے جو نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا تھا‘ یہ یوروشلم سے نکل کر روم چلے گئے اور شہر سے باہر ایک پہاڑی مقام پر پناہ لے لی‘ رومیوں کو خبر ہو گئی اور انھوں نے انھیں اسی پہاڑی پر صلیب پر چڑھا دیا‘ ان کے پیروکاروں نے ان کی میت صلیب سے اتاری اور اسی پہاڑی پر دفن کر دی‘ یہ جگہ اب ویٹی کن سٹی کہلاتی ہے اور عیسائیوں کا مقدس ترین مقام سمجھی جاتی ہے‘ آج کا ترکی اس زمانے میں ایشیا کوچک کہلاتا تھا اور اس کی سرحدیں شام سے ہوتی ہوئیں بیت المقدس سے جا ملتی تھیں‘مسیحیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوا تو یہ چپکے چپکے ایشیا کوچک میں پھیلنے لگے‘ کیپا ڈوشیا کے غار عیسائیوں کی پہلی منزل تھے‘ یہ غازی انتب میں بھی پناہ گزین ہوئے۔
دنیا کی پہلی بائبل اسی شہر میں لکھی گئی تھی‘ یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے شہر شانلی عرفہ بھی پہنچے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے رومال کی وجہ سے اس زمانے کے بادشاہ نے عیسائیت قبول کر لی‘ یہ استنبول میں بھی داخل ہو گئے‘ آج بھی استنبول آرتھوڈاکس کرسچین کا کعبہ ہے اور یہ لوگ آرمینیا بھی پہنچ گئے‘ آرمینیا کے حکمرانوں نے عیسائیت قبول کر لی جس کے بعد یہ دنیا میں پہلی عیسائی ریاست بن گئی‘ سینٹ جان نے نقل مکانی کے اس زمانے میں حضرت مریم ؑ کو لیا اور یہ ایفسس شہر پہنچ گئے‘ یہ اس زمانے میں سینٹرل ایشیا کا سب سے بڑا اور جدید شہر تھا‘ آبادی اڑھائی لاکھ تھی‘ مکان تین تین منزلہ تھے۔
شہر کی فصیل دس کلو میٹر لمبی اور 9 کلو میٹر چوڑی تھی اور دنیا کا چوتھا بڑا عجوبہ ٹمپل آف آرٹیمس بھی وہاں موجود تھا‘شہر کی ایک سائیڈ پر سمندر تھا اور تین اطراف میں پہاڑ اور علاقے کو دو دریا سیراب کرتے تھے‘ یہ ایک آئیڈیل‘ خوب صورت اور دنیا سے جڑی ہوئی جگہ تھی‘ سینٹ جان حضرت مریم ؑ کو لے کر ایفسس پہنچ گئے۔
حضرت مریم ؑ نے شہر کی بجائے پہاڑ کے ایک غار میں اقامت اختیار کی اور زندگی کے بیس تیس سال اسی غار میں گزار دیے‘ زائرین آتے رہے اور آپ کی رہائش گاہ کے گرد چکر لگا کر واپس جاتے رہے یوں یہ جگہ مسیحیوں کے لیے مقدس ہوتی چلی گئی‘ حضرت مریم ؑ وصال سے قبل دوبارہ بیت المقدس تشریف لے گئیں لیکن آپؑ کی ایفسس کی رہائش گاہ آج تک موجود ہے‘ دنیا بھر کے مسیحی اس کی زیارت کے لیے ہر سال ایفسس شہر آتے ہیں‘ سلجوق دور میں ایفسس کے قریب سلجوق شہر آباد ہو گیا‘لوگ حضرت مریم ؑ کے گھر کی زیارت اور ایفسس کی سیاحت کے لیے پہلے سلجوق جاتے ہیں‘ سینٹ جان کا مقبرہ بھی سلجوق میں ہے۔
میں 20 جولا ئی کو’’ کوچاداشی‘‘ سے ٹیکسی لے کر ایفسس پہنچا‘ حضرت مریم ؑ کا گھر پہاڑ پر درختوں اور بیلوں کے درمیان ہے‘ یہ پتھروں کی چھوٹی سی عمارت ہے جس پر سارا دن بیلیں سایہ فگن رہتی ہیں‘ دروازے سے اندر داخل ہوں تو چند فٹ کی ڈیوڑھی آتی ہے اور پھر بیس فٹ کا کمرہ آ جاتا ہے‘ یہ اس مکان کا کل رقبہ ہے‘ قربان گاہ پر حضرت مریم ؑ کا مجسمہ لگا ہے اور اس کے اردگرد موم بتیاں تھیں‘ مکان سے نکلنے کا راستہ دائیں ہاتھ ہے‘ آپ جوں ہی اس سے نکلتے ہیں تو آپ دوبارہ اسی صحن میں آ جاتے ہیں جہاں سے آپ داخل ہوئے تھے۔
15 اگست اس گھر کا مصروف ترین دن ہوتا ہے‘ دنیا بھر سے مسیحی اس دن یہاں آتے ہیں اور حضرت مریم ؑ کے گھر کی زیارت کرتے ہیں‘ آپ ؑ کی اصل رہائش گاہ عمارت کے نیچے تہہ خانے میں تھی‘ وہ بند رہتی ہے لیکن اوپر کا کمرہ زیارت کے لیے کھلا رہتا ہے‘ میں نے عمارت کے دو چکر لگائے‘ دعا کی‘ موم بتی جلائی اور باہر آکر بیٹھ گیا‘ وہاں ایک مقدس سا سناٹا اور روح میں گدگدی کرنے والا احساس تھا‘ عمارت سے ذرا سے فاصلے پر پانی کا تالاب تھا‘ آج سے دو ہزار سال قبل یہاں پانی جمع کیا جاتا تھا جب کہ حضرت مریم ؑ کا چشمہ آج تک رواں ہے اور زائرین اس کا پانی پیتے بھی ہیں اور اس سے ہاتھ اور منہ بھی دھوتے ہیں‘ چشمے کے ساتھ درخواستی دیوار ہے‘ زائرین اپنی دعائیں لکھ کر لاتے ہیں اور دیوار کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔
اس دن بھی دیوار کے ساتھ لاکھوں چٹیں لٹکی ہوئی تھیں‘ ہر درخواست ایک کہانی‘ ایک الگ ہی داستان تھی‘ کیا یہ ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں؟ میں نے رک کر سوچاشاید یقین بعض اوقات عقیدے سے بڑا ہو جاتا ہے اور وہ دیوار اس کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
میں حضرت مریم ؑ کے صحن سے اٹھ کر ایفسس شہر آ گیا‘ یہ شہر متروک ہو چکا ہے لیکن یہ اس کے باوجود ایک حیران کن شہر تھا‘ پورے شہر کی گلیاں پکی اور مکان تین تین منزلہ تھے‘ صحنوں میں موزیک تھے‘ پورے شہر میں تازہ پانی کے چشمے بہتے تھے‘ ایفسس کا ٹمپل ڈیلفی کے بعد پورے سینٹرل ایشیا اور یونان کا سب سے بڑا ٹمپل تھا‘ دیوی آرٹیمس (Goddess Artemis)کا دنیا کا سب سے بڑا مندر ایفسس میں تھا‘ یہ عمارت 127 ستونوں پر کھڑی تھی اور یونان سے بھی دکھائی دیتی تھی‘ آرٹیمس کا دوسرا نام ڈیانا تھا‘ اس کاٹمپل ٹھیک اس دن جل کر زمین بوس ہو گیا جب مقدونیہ میں سکندراعظم پیدا ہوا تھا۔
سکندر نے جب ایفسس فتح کیا تو اس نے آرٹیمس کا ٹمپل دوبارہ بنانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا‘ ٹمپل کی عمارت آج تک زمین بوس ہے بس ویرانے میں ایک ستون عبرت کی نشانی بن کر کھڑا ہے‘ اس کے ساتھ ایک قدیم چرچ‘ سلجوقوں کے زمانے کا قلعہ اور عثمانی دور کی مسجد موجود ہے‘ مسجد سے روزانہ پانچ مرتبہ اذان کی آواز آتی ہے اور یہ آرٹیمس کو روز یہ پیغام دیتی ہے دنیا میں صرف اللہ کا نام ہی بچے گا باقی سب خدا فانی اور بے معانی ہیں‘ شہر میں دو اسٹیڈیم بھی ہیں‘ چھوٹا اسٹیڈیم کورڈ ہوتا تھا اور یہ امراء‘ رؤساء اور حکومتی اہلکاروں کے لیے تھا جب کہ بڑا اسٹیڈیم اوپن ایئر اور پورے شہر کے لیے تھا‘ اس میں بیک وقت 24 ہزار لوگ بیٹھ سکتے تھے۔
اس میں گلیڈی ایٹر مقابلے بھی ہوتے تھے‘ غلاموں کو بھوکے شیروں کے سامنے بھی پھینکا جاتا تھا اور موسیقی کے مقابلے بھی ہوتے تھے‘ یہ کنوئیں کی طرح پیچ در پیچ اوپر سے نیچے کی طرف جاتا ہے اور پیندے میں پتھر کا اسٹیج بنا ہے‘ یونان کے قدیم باشندے نکی نام کی دیوی کی پوجا بھی کرتے تھے‘ ایفسس میں نکی کا ٹمپل بھی تھا‘ ٹمپل ختم ہو گیا لیکن دیوی کا بت بچ گیا‘ نکی کے پاؤں میں پر لگے تھے‘ پر دور سے ٹک مارک کی طرح دکھائی دیتے ہیں‘ اسپورٹس کلاتھ کاانٹرنیشنل برینڈ نائیکی اسی مجسمے کو دیکھ کر بنا اور اس کی ٹیگ لائین ’’جسٹ ڈو اٹ‘‘ نکی کے پروں کی سلوٹ سے اخذ کی گئی‘ ڈمیشن ایفسس کا ایک کردار تھا‘ یہ انتہائی سخت گیر تھا‘ یہ سب کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا تھا اور جو اس کی حکم عدولی کرتا تھا یہ اسے قتل کر دیتا تھا۔
اس نے عیسائیت کے شروع کے دنوں میں سیکڑوں عیسائیوں کو بھی قتل کر دیا تھا‘ ڈمیشن کے ٹمپل کا ملبہ بھی آج تک ایفسس شہر میں موجود ہے‘ انگریزی زبان کا لفظ ڈامی نیشن (Domination) اسی کردار سے نکلا‘ لیٹرین کا تصور اور لفظ بھی ایفسس میں پیدا ہوا تھا‘ شہر میں پبلک ٹوائلٹس ہوتے تھے‘ زمین میں پلیٹ فارم بنا کر ان میں سوراخ کر دیے جاتے تھے ‘ ان کے نیچے سے پانی بہتا رہتا تھا‘ یہ ٹوائلٹ مسافر استعمال کرتے تھے‘ لوگ اس جگہ کو لائٹیریا کہتے تھے لیٹرین (Latrine)کا لفظ اسی سے نکلا‘ شہر کے شروع میں پتھر پر عورت کے پاؤں کا نشان بنا تھا۔
یہ طوائف خانے کا سائن تھا‘ پورا شہر پتھر سے بنا ہوا تھا لیکن طوائفوں کے کوٹھے سرخ اینٹوں سے بنائے جاتے تھے‘ سرخ اینٹوں کے یہ گھر دنیا کی پہلی ’’ریڈ لائیٹ ڈسٹرکٹ‘‘ تھی‘ دنیا کی تیسری بڑی لائبریری بھی ایفسس میں تھی‘ یہ عمارت بہت ہی شان دار اور چار پانچ منزلہ تھی‘ ہومر تک اس سے لطف اندوز ہوتا رہا تھا‘ آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو یونان کا قدیم فلاسفر ترکی کے شہر ازمیر سے تعلق رکھتا تھا اور یہ ایفسس میں پڑھتا اور پڑھاتا رہا تھا‘ ایفسس کی لائبریری سے فائدہ اٹھانے کے لیے دنیا جہاں سے طالب علم آتے تھے اور مہینوں اس شہر میں رہتے تھے اور عیسائیت کی پہلی تحریر بھی اسی شہر میں ہے‘ تثلیث نے بھی اسی شہر میں جنم لیا تھا‘ یہ نظریہ پتھر پر لکھا گیا تھا اور وہ پتھر ابھی تک اس شہر میں موجود ہے۔
ایفسس اب تک صرف دس فیصد ریکور ہوا ہے‘ نوے فیصد آج بھی مٹی میں دفن ہے لیکن یہ دس فیصد بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے‘ اس کی آرچز‘ اس کے ستون‘ اس کے مجسمے‘ اس کی دیواریں‘ اس کی گلیاں اور اس کے ٹمپل انسان کو ورطہ حیرت میں لے جاتے ہیں اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیا یہ شہر بھی ختم ہو گیا‘ کیا یہ بھی زوال پذیر ہو گیا‘ بے شک اللہ کے سوا کائنات کی ہر چیز فانی ہے‘ صرف وہ ہے جسے کبھی زوال نہیں آئے گااور ایفسس اس حقیقت کی عملی تفسیر ہے۔