پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
اندراگاندھی‘ بینظیر بھٹو اور عمران خان…(2)
اندرا وزیراعظم بن چکی تھیں۔فیصلے کااعلان ہوا تو وہ کھڑی ہوئیں اور ہاتھ جوڑ کر بولیں: میرا دل بھر آیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی میں آپ سب لوگوں کا شکریہ کیسے ادا کروں۔ میرے ذہن میں مہاتما گاندھی‘ پندٹ جی ( دادا)‘ والد جواہر لعل نہرو اور شاستری جی کی تصویریں چل رہی ہیں۔ گاندھی جی کے تو قدموں میں پل کر میں بڑی ہوئی۔ان سب لوگوں نے جو ہمیں راستہ دکھایا ہے میں اُس پر چلنا چاہتی ہوں۔اپنی مختصر سی تقریر ختم کر کے اندرا سیدھی اپنے مخالف مرار جی ڈیسائی کی طرف گئی جو شکست خوردہ بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ بازی پلٹ گئی ہے۔ وہ خود کو سیاست کا گاڈ فادر سمجھ بیٹھے تھے لیکن ایک خاتون نے راج نیتی کا کھیل ان سے بہتر کھیل کر جیت لیا تھا۔وہ تو پچھلے چار گھنٹوں سے نہرو اور شاستری کی کرسی پر بیٹھ کر تصورات کی دنیا میں گم تھے۔جب سب لوگ ووٹ ڈالنے میں مصروف تھے وہ اُس وقت شاید اپنی کابینہ کے ارکان کی فہرست فائنل کرنے میں مصروف تھے۔ اندرا نے نمستے کے انداز میں اپنے ہاتھ جوڑے اور مرار جی ڈیسائی سے کہا: آپ میری کامیابی پر مجھے آشیر واددیں گے؟مرار جی ڈیسائی نے قدرے بیزاری سے کہا: جی میں آپ کی کامیابی کیلئے دعا گو ہوں۔اندرا گاندھی پارلیمنٹ سے باہر نکلیں تو ہر طرف پھولوں کی بارش ہورہی تھی۔اندرا کے نعرے لگ رہے تھے۔ اس ہجوم کو اس وقت اندرا کی شکل میں نہرو نظر آرہا تھا۔پانچ دن بعد اندرا گاندھی کو وزیراعظم کا حلف دلوایا گیا۔ جب وہ وزیراعظم کا حلف لے رہی تھیں تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کرsolemnly affirm کیا نہ کہ خدا یا بھگوان کی قسم کھائی‘ اس کا پیغام بڑا واضح تھا کہ وہ ہندوستان کا سیکولر امیج قائم رکھیں گی۔
اندرا کے وزیراعظم بننے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم کی بیٹی تھیں۔انہیں وزیراعظم بنوانے میں ہندوستانی ریاستوں کے ان بارہ وزرائے اعلیٰ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا جو مرار ڈیسائی کے خلاف تھے اور ان کا راستہ روکنے کا واحد حل نہرو کی بیٹی نظر آئی ۔ ان سب کے اتحاد کو ”سینڈیکیٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اندرا گاندھی کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ وزیراعظم کیوں اور کس وجہ سے بنی تھی‘ لہٰذا وہ ان سب کی مشکور تھی اور ان سب کی حمایت کا بوجھ اسے اپنے کندھوں پر محسوس ہورہا تھا۔ اسے ان سب کے احسانات کے نیچے لگ کر رہنا تھا۔ وزرائے اعلیٰ کامراج کا اندرا کو وزیراعظم بنوانے میں بڑا ہاتھ تھا لہٰذا اس کی بات زیادہ سننی تھی۔ کامراج کا اصرار تھا کہ اندرا اپنی نئی کابینہ میں زیادہ تر وہی وزیر رکھے جو وزیراعظم شاستری کے تھے۔ وہ ان وزیروں کو نہ چھیڑے۔اندرا گاندھی کے ذہن میں کچھ اور تھا۔ وہ کم از کم وزیراعظم شاستری دور کے وزیرداخلہ گلزاری نندا کو ہٹا کر نیا وزیرداخلہ لانا چاہتی تھیں جو دو دفعہ نگران وزیراعظم کا رول پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔ اندرا کو شاید لگتا تھا کہ جو وزیرداخلہ دو دفعہ نگران وزیراعظم رہ چکا ہو‘ چاہے چند دنوں کے لیے ہی سہی وہ اس کی کابینہ میں اس کا وزیر نہیں بلکہ خود کو وزیراعظم سمجھ کر بیٹھے گا۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ رہے گا وہ زیادہ جانتا ہے اور اسے اپنی کابینہ چلانے میں مشکل ہوگی۔ لیکن اندرا گاندھی کی تمام تر خواہش کے باوجود وہ گلزاری نندا کو وزارتِ داخلہ سے نہ ہٹا پائیں۔ اندرا ابھی اس پوزیشن میں نہ تھیں کہ وہ اس سینڈیکٹ کے سامنے کھڑی ہوسکتیں اور اپنی مرضی کی کابینہ بنا سکتیں‘تاہم اندرا گاندھی اپنی مرضی کے چند اہم وزیر اپنی کابینہ میں لانے میں کامیاب رہیں۔ سب سے اہم نام اشوک مہتہ کا تھا جو ایک دانشور اور سوشلسٹ تھا‘ جسے وزارتِ ِمنصوبہ بندی دی گئی۔ جی ایس پھاٹک کو وزیرقانون بنایا گیا‘ آسام سے فخرالدین کو بجلی و آبپاشی کا وزیر بنایا گیا‘جبکہ جاگوین رام‘ جو ہریجن لیڈر تھا‘ اسے لیبر کی وزارت دی گئی۔تاہم مرار جی ڈیسائی کو اندرا یا ان کے سینڈیکٹ نے وزیر بننے کی دعوت نہیں دی۔ بعد میں ڈیسائی نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ اگر اسے اندرا گاندھی کی کابینہ کا وزیر بننے کے پیشکش کی بھی جاتی تو وہ قبول نہ کرتے۔وزیراعظم بننے کے چند دن بعد امریکہ کے ”ٹائم میگزین ‘‘کے سرورق پر اندرا گاندھی کی تصویر چھپی جس کی سرخی بڑی شاندار تھی ”Troubled India in a Woman’s hand‘‘۔ اندرا کے وزیراعظم بنتے ہی امریکہ کی ایک بیسٹ سیلر خاتون مصنفہ نے بوریا بستر سنبھالا اوربھارت کی ٹکٹ کٹوائی تاکہ بھارت کی پہلی خاتون وزیراعظم پر ایک طویل مضمون لکھ سکے اور امریکن خواتین کو بتا سکے کہ ‘فیمنزم‘ کی یہ کتنی بڑی جیت تھی‘ جبکہ لندن میں ”گارڈین‘‘ میں ایک بڑا مضمون چھپا کہ کیسے انسانی تاریخ میں کسی خاتون لیڈر پر اتنا بوجھ نہیں پڑا جتنا اس وقت اندرا گاندھی کے کندھوں پرہے۔ وہ بھارت جیسی جمہوریت کو کیسے سنبھالتی ہیں جب پہلے نہرو تو پھر شاستری فوت ہوگئے۔ اس سے پہلے بھارت جیسے بڑے ملک نے اپنی تقدیر کبھی کسی خاتون کو نہیں سونپی‘ وہ بھی کسی جمہوری نظام اور کلچر میں۔اخبار کا کہنا تھا کہ اگر اندرا گاندھی نے کامیابی سے سب ہینڈل کر لیا اور ملک کو چلا لیا تو یہ مردوں کی برتری پر کاری ضرب ہوگی۔
اتفاق کی بات ہے کہ جب اندرا گاندھی وزیراعظم بنی تو اس وقت یورپ میں عورتوں کی تحریک زوروں پر تھی‘ لیکن اندرا گاندھی اس بات سے انکاری تھی کہ وہ فیمنسٹ ہیں۔جب بھی ان سے پوچھا جاتا کہ وہ عورت ہو کر سیاستدان بن کر کیسا محسوس کرتی ہیں تو وہ ان سوالات کو پسند نہیں کرتی تھی۔ دراصل عورتوں کی چلنے والی تحریک نے لوگوں کو اندرا کی ذات میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا تھا۔اگرچہ دنیا بھر کی خواتین اندرا گاندھی کو اپنے لیے ایک نئی طاقت کے طور پر دیکھ رہی تھیں اور اسے ویسٹ میں گلیمرائز کیا جارہا تھا۔ چند برس بعد اوریانا فالاچی جیسی بڑی اٹالین جرنلسٹ نے بھی اندرا کا تاریخی انٹرویو کیا ‘جس کی پوری دنیا میں دھوم مچی اور اندرا نے بھٹو پر خاصے سخت حملے کئے (بعد میں بھٹو نے بھی جوابا ًسخت انٹرویو اوریانا فالاچی کو دیا ‘ جس کی وجہ سے شملہ معاہدہ ہونے میں دیر ہوگئی)۔
لیکن بھارت کے اندر اسے عورت تحریک کی کامیابی کے بجائے کانگریس کے سینڈیکٹ کی کامیابی سمجھا جا رہا تھا جس کے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات تھے اور اندرا کو وزیراعظم بنانے کا ویمن تحریک سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ایک بھارتی اخبار نے لکھا کہ ایک خاتون وزیراعظم بہت سی سوشل مجبوریوں میں بندھی ہوئی ہوتی ہے ‘جب تک وہ خود کو مرد کولیگز سے منوا لے۔ شروع میں ہر سیاسی گروپ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے چلانا چاہتا ہے کہ اسے کچھ پتا نہیں ‘لہٰذا وہ اسے بتائیں گے کہ حکومت کیسے چلانی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سینڈیکٹ کے بڑوں کی آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے کہ اسے کون کنٹرول کرے گا اور خاتون وزیراعظم کو کس کی بات سننی اور ماننی چاہئے۔ یا تو وزیراعظم یا لیڈر اتنا قابل ہوتا ہے کہ وہ سب گروپس کے لیڈروں کو مطمئن رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ سب خوش رہیں اور وہ یہ تاثر دے کہ وہ کسی ایک کے کنٹرول میں نہیں ہے‘ سب کے ساتھ ہے جیسے ملکہ الزبتھ اول نے کامیابی کے ساتھ یہ کام کیا تھا کہ لمبے عرصے کے لیے حکمرانی کرے یا شروع میں ہی اس سینڈیکٹ کے ہاتھوں ماری جائے۔
اندرا کے وزیراعظم بنتے ہی یہ آئیڈیاسامنے آیا کہ اندرا چونکہ عورت ہے لہٰذا اس تخت کے پیچھے ایک مرد ہونا چاہیے جو اس کی پاورز استعمال کرے۔لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ بھارتی اخبار نے ظاہر کیا تھا۔ کابینہ کے اندر اور پاور کوریڈوز میں اچانک یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ اندرا کا ایک سابق ریاست کے ایک خوبصورت راجہ سے خفیہ افیئر چل رہا تھا جو اس کا وزیر بھی تھا۔وہ خوبصورت خوش قسمت راجہ کون تھا جو اندرا کے اتنے قریب آگیا تھا؟(جاری)