پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
کیا پاکستانی لڑکیوں کا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا محفوظ ہے؟: مناحل نوشین
کیا پاکستانی لڑکیوں کا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا محفوظ ہے؟ یہاں میں کوشش کروں گی کہ آپ کے تمام سوالات کا جواب دوں۔
جب سے میں باہر ملک میں پڑھنے یا یہاں رہنے کے بارے لکھنے لگی ہوں تب سے ہر روز مجھے بہت سی بہنیں یہ کہتی ہیں کہ کیا باہر ملک اکیلی لڑکی یا خواتین کے لئے محفوظ ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ سوال خواتین پاکستانی مرد سے نہیں پوچھ سکتیں کیوں کہ بعد میں یہی سوال ایسے مرد سے پوچھنا گلے پڑتی ہے.
خیر میں خود پانچ سال سے باہر مقیم ہوں تو کوشش کروں گی کہ وہ چیزیں لکھوں جو میں نے خود دیکھی ہیں.
بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا اب ہر پاکستانی طلباء میں ایک رجحان بن گیا ہے۔ تقریباً ہر وہ طالب علم جو تعلیم کی قدر جانتا ہے اب بہتر اعلیٰ تعلیم اور تجربے کے لیے کسی غیر ملک جانا چاہتے ہیں۔
انٹرنیشنل یعنی باہر ملک میں پاکستان کو ناخواندہ آبادی کا ایک غریب ملک سمجھا جاتا ہے۔
میں واقعی اس چیز میں خوش ہوں کہ کہ اب پاکستانی طالب علم بڑی سوچ بچار کر رہے ہیں۔ تاہم، ہم اب بھی کچھ طریقوں سے بہت قدامت پسند اور تنگ نظر ہیں کہ اور خاص کرکے ہمارے خواتین جو باہر آنا چاہتی ہیں۔
یہ خاص طور پر جب ہماری خواتین کی بات آتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی خواتین سے محبت کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں اور انہیں تمام حقوق دیتے ہیں لیکن یہ بات پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بھی بالکل درست نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔
کیا آپ اپنے بھائی یا بیٹے کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجیں گے اگر وہ خود جانا چاہتا ہو؟ یہاں سوچنے کے لئے آپ زیادہ وقت نہیں لیتے اور اگر اسکو سکالرشپ ملتا ہے تو آپ کا جواب “ہاں” میں ہوتا ہے ۔ اب آپ بتائیے کہ کیا آپ کی اپنی بہن یا بیٹی مطالبہ کریں تو کیا آپ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجیں گے؟ آپ شاید پہلے ہی NO کے لیے اپنے دماغ میں بہانے سوچ رہے ہیں؟
ایسا کیوں ہے؟
کیوں کہ ہمارے بہت سے والدین یا بھائی یہ سوچتے ہیں کہ باہر ملک میں سب سے عام عذر سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
لڑکیاں پردیس میں محفوظ نہیں رہیں گی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، ان کی حفاظت کون کرے گا۔
یہ خود غرض درندوں سے بھری ایک خطرناک دنیا ہے۔ اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ یہ اب بھی محض ایک بہانہ ہے جس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔
اس لیے میں آج یہ پوسٹ لکھ رہی ہوں تاکہ میں آپ کو صحیح اور منطقی وجوہات بتاؤں گی کہ ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ یہ دراصل قدامت پسند سوچ ہے۔ اس پوسٹ پڑھنے کے بعد آپ کے تمام خدشات دور ہو جائیں گے۔
***معاشرے کی ذہنیت***
ہم چیزوں کو کس طرح سوچتے اور سمجھتے ہیں یہ ہمارے معاشرے پر منحصر ہے۔
ہمارے معاشرے کا ہماری زندگی پر ہماری سوچ سے کہیں زیادہ مضبوط اثر پڑتا ہے۔
ہم بات کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرح بات کرتا ہے، ہم لباس پہنتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کیسے پہنتا ہے، یہاں تک کہ اچھے اور برے کی ہماری تعریف بھی وہی ہے جو معاشرہ کی تعریف کرتا ہے۔
ہم لاشعوری اور غیر یقینی طور پر اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی پیروی نہیں کرتے ہیں تو ہم برے لوگ سمجھے جائیں گے۔ وہ ہمارے بارے میں برا سوچیں گے اور بات کریں گے۔ یہ وہی اصل مسلہ ہے جس سے ہم خوفزدہ ہیں۔
ہم سب معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم نے ایک دوسرے کو اس خوف سے جکڑ رکھا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن ’’معاشرہ ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہے‘‘، ہم نے اسے (غیرت) کا نام دیا ہے۔ اور جب غیرت کی بات آتی ہے تو ہم مارنے اور مرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر معاشرے بہت ہی قدامت پسند ہیں باوجود اس کے کہ وہ کتنے ہی غور و فکر سے کہہ سکتے ہیں۔ معاشرہ جو سوچتا ہے وہی ہم سوچتے ہیں۔ ہمیں اس سرحد کو توڑنا ہوگا اور سکون سے سوچنا ہوگا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے کیا اچھا ہے۔
کیا ہم اپنے خاندان سے زیادہ پیار کرتے ہیں یا معاشرے سے؟ معاشرے کی مختصر ذہنیت کو اپنے پیاروں کے خوابوں کو صرف اس وجہ سے برباد نہ ہونے دیں کہ وہ لڑکی پیدا ہوئے ہیں۔
اس لئے پیارے والدین اور بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے بہن بیٹی باہر ملک پڑھنا چاہیں تو یہ مسئلہ کبھی نا بنائیں۔
***والدین کی پریشانی****
پیارے والدین اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ آزاد ہیں اور اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے کہ معاشرہ کیا سوچتا ہے! اور پھر بھی آپ کی بیٹی یا بہن بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوچتی ہیں، اور آپ کو پریشانی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے پیاروں کا خیال ہے۔
بلاشبہ ہم ہمیشہ اپنے خاندان کی فکر کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں (خیال رکھنا اصل محبت ہے) اس لئے اپنی بہن بیٹیوں کے خواہشات کا خیال رکھیں۔
لڑکیوں کے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانا، آپ کو ڈر ہے کہ آپ کے خاندان کے ساتھ کچھ برا نہ ہو جائے۔ یہ ایک مکمل طور پر جائز وجہ ہے کہ کیوں کوئی لڑکی کو تعلیم کے لیے غیر ملک نہیں بھیجنا چاہتا۔ لیکن نیچے میں کچھ مزید عرض کرنا چاہتی ہوں اس کو بھی پڑھیں.
باہر ملک سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھ پر یقین کرو، یہ صرف آپ کے دماغ میں ہے. اگر خدانخواستہ کوئی مسئلہ ہو بھی جائے تو ان کے پاس دنیا کی بہترین پولیس اور عدالتی نظام ہے جو آپ کو انصاف دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
میں نے برطانیہ میں چار سال اکیلے گزارے وہاں یونیورسٹی طالبات کو رہائش اور سیکیورٹی فراہم کرتی ہے اور جو بھی بری کہانیاں آپ نے سنی ہوں گی میڈیا کی جانب سے اسے غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
حکومتیں تمام بین الاقوامی طلباء کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اگر ایک لڑکی غیر محفوظ ہوتی ہے تو اتنا ہی ایک لڑکے کو سیکیورٹی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ یعنی باہر ملک سب کو ایک برابر سیکورٹی دی جاتی ہے.
بہت سے والدین اپنے بیٹیوں کے لئے پریشان ہوتے ہیں تو ان والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچیوں کو نہ صرف جڑے رہیں بلکہ اپنی بیٹی میں خود اعتماد پیدا کریں۔
ان کی رہنمائی کریں کہ وہ کس طرح دنیا کا سامنا کر سکتی ہیں اور اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ آپ ان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ موجود نہیں ہوں گے۔ انہیں خود مختار رہنے کا طریقہ سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ان کو باہر ملک کے طرف بھیجیں تاکہ ان کو اپنے حقوق کے بارے بخوبی علم۔
اگر آپ کو خدشہ ہے کہ وہ بری عادتوں کو اپنا سکتی ہے تو بس اس کے بارے میں ان سے بات کریں، اسے کیسا ہونا چاہیے اور اسے کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ کسی عقلمند مرد یا عورت نے ایک بار کہا تھا کہ ’’بغیر بات چیت کے کوئی رشتہ نہیں ہوتا‘‘۔ ایسے مسئلے ہم اپنی بیٹیوں سے کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن یہ ایک ضروری چیز ہے کہ ہم ان کو اچھی طرح سے سب چیزیں سکھائیں اور یہی حقیقی اسلام میں بھی سمجھایا گیا ہے.
پاکستانی لڑکیاں کیا چاہتی ہیں؟
بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا سوچنا بھی لڑکیوں کے لیے بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کچھ لڑکیاں اس کا خواب تک نہیں دیکھتیں اور کچھ جو دیکھتی ہیں مگر اس کے بارے میں بات کرنے سے بھی ڈرتی ہیں۔
لیکن اس کے بعد وہ بہادر خواتین آتی ہیں جو اس خواب کو اپنے گھر والوں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ مجھے ایک خاتون نے میسج کی جس نے ایک بار کہا تھا کہ میں بیرون ملک تعلیم حاصل کروں گی لیکن ایسا کوئی امکان نہیں ہے کہ میرے والدین اس کی اجازت دیں گے۔
میں خود ایک پاکستانی لڑکی ہوں اور میں نے نے حال ہی میں برطانیہ سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری مکمل کی ہے۔اور ابھی اس وقت کینیڈا میں اپنی ماسٹرز کر رہی ہوں میرے بھائی اور امی والے کینیڈا مقیم ہیں۔
بڑے بھائی کا شکریہ ہے جس نے مجھ پر بھروسہ کیا اور مجھے کبھی یا طعنہ نہیں دیا کہ آپ اکیلی نا جاؤ یا آپ کو باہر کوئی مسئلہ پیش آسکتے ہیں. مجھ سمیت اور بھی بہت سے ایسے پاکستان میں گھرانے ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا ہے اور وہ بے وقوف نہیں ہیں۔
کیا باہر ملک واقعی محفوظ ہیں؟
جی ہاں! یہ یقینی طور پر محفوظ ہیں۔ حکومت ہمیشہ بین الاقوامی طلباء کی ساکھ کے تحفظ کے لیے ان کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ محکمہ پولیس ہے، کیمپس اور اس کے علاوہ دوست بھی ایک دوسرے کے لیے ہیں۔
جب میں برطانیہ میں تھی تو ہمارے فلیٹ سے ایک پاکستانی لڑکے کو گرفتار کرلیا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی انڈر ایج یعنی نا بالغ لڑکی کو دوستی پر اکسا رہی تھی تو اس وجہ سے نا صرف اس کو گرفتار کیا گیا بلکہ اس کو ملک بدر بھی کیا گیا. اس لئے یہاں ہر طرح سے خواتین کو تحفظ دی جاتی ہے.
آخر میں یہی لکھوں گی کہ اگر پاکستانی خواتین کو باہر ملک میں کسی سے خطرہ ہے تو وه اپنے ہم وطن سے ہو سکتا ہے لیکن ایک لوکل یعنی گورا کبھی بھی کسی انٹرنیشنل طالب علم یا پردیسی کو اُف تک نہیں کہتا.
پیاری بہنوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو باہر ملک آنے کا کوئی موقع ملے تو اسکو سیکیورٹی کا مسئلہ بنا کر ضائع نا کریں.
اللّه تمام بہنوں کو لاکھ کامیابیاں عطاء فرمائے