معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
عدالتی فیصلے اور انصاف مرحوم!
مجھے جب کبھی کسی عدالتی فیصلے کے بارے میں رائے لینی ہوتی ہے، استاد محترم انصاف علی انصاف سے رجوع کرتا ہوں، بفضل خدا فوت وہ ہو چکے ہیں مگر ان کا فیض ابھی تک جاری ہے، ان کے تخلص انصافؔ کی وجہ تسمیہ وہ واقعہ بنا جس نے ان کی سوچ کے دھارے بدل کر رکھ دیئے۔ انصاف مرحوم جوانی میں ایک عفیفہ پر عاشق ہوئے اس کے والدین شادی پر رضا مند نہیں تھے دراصل انہیں شک تھا کہ انصاف مرحوم چانڈو پیتے ہیں حالانکہ استاد ساری عمر اس گھٹیا نشے کے قریب نہیں گئے۔ وہ صرف ٹھرا پیتے تھے یا کبھی کبھی چرس سے شوق فرماتے تھے۔ بہرحال جب انہیں یقین ہوگیا کہ محبوبہ کے والدین اس شادی پر تیار نہیں ہوں گے تو انہوں نے اپنی محبوبہ سے خفیہ نکاح کرلیا مگر محبوبہ کے ’’شکی القلب‘‘ والدین نے ایک دفعہ پھر اس شک کا اظہار کیا کہ ان کی بیٹی کو استاد کے پالتو غنڈے زبردستی اٹھا کر لے گئے تھے۔ یہ سراسر غلط بیانی تھی کیونکہ جنہیں غنڈے قرار دیا گیا وہ استاد کے ہونہار سعادت مند اور نیک اطوار شاگرد تھے جو اکھاڑے میں ان سےفن پہلوانی کے دائو پیچ سیکھتے تھے، وہ اپنے استاد کی محبوبہ کو کیسے اٹھا کر لے جاسکتے تھے۔ وہ تو اسے ٹیکسی میں بٹھا کر لائے تھے۔ بہرحال عدالت میں کیس دائر کردیا گیا ،استاد مرحوم سال ہا سال اس کیس کی پیروی کرتے رہے جس کے نتیجے میں انہیں عدالتی نظام سے گہری واقفیت ہوتی چلی گئی۔ کیس کا فیصلہ استاد کے خلاف ہوا۔مجسٹریٹ درجہ چہارم نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مغویہ سے جبراً نکاح کے کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور یوں یہ شادی نہیں ہوئی۔ مجسٹریٹ درجہ چہارم نے استاد کو سزا سنائی اور ایک ہفتے بعد مغویہ سے خود شادی کرلی۔ استاد اس صورت حال سے اس درجہ دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے شاعری شروع کردی۔ والدین نے تو ان کا نام کچھ اور رکھا تھا مگر شاعری انہوں نے انصاف علی انصافؔ کے نام سے شروع کی اور پھر اس میں اتنا نام کمایا جتنا انہوں نے ہیروئن کی سمگلنگ ہی میں کمایا تھا۔ دور دراز سے لوگ ان سے شعر کی اصلاح کے علاوہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں رائے لینے کے لئے بھی آتے تھے۔ استاد نے اپنے گھر کے دروازے پر یہ شعر لکھ کر لٹکایا ہوا تھا :
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
میں نے ایک دن پوچھا ’’استاد، آپ کو یہ شعر اتنا پسند کیوں ہے؟‘‘
بولے ’’کس کافر کو پسند ہے اگر پسند ہوتا تو میں اسے لٹکاتا کیوں، میں تو اس شعر کے خالق کو بھی اسی طرح اپنے دروازے پر لٹکانا چاہتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا ’’استاد، میں آپ کی بات کچھ سمجھا نہیں‘‘
فرمایا ’’سمجھنے کی کوشش کرو بادشاہوں کا بھلا عدالت سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اور جب تعلق نہیں ہوتا تو کسی کے کہنے پر زنجیر ہلانے کی حماقت کا کیا جواز ہے؟ جس عدالت سے انصاف کی توقع نہ ہو اس کا دروازہ کھٹکھٹانا اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے‘‘۔
اس پر میں نے استاد مرحوم کے ہاتھ چوم لئے اور کہا ’’آپ کی وساطت سے اس شعر کے سقم مجھ پر پہلی بار آشکار ہوئے ہیں مگر بادشاہوں کے دروازے پر لگی زنجیر ہلانے سے کچھ لوگوں کو تو انصاف ملتا ہی ہوگا ورنہ لوگ بار بار یہ زنجیر کیوں ہلاتے؟‘‘
فرمایا ’’تم ابھی بچے ہو ایک سو غلط فیصلوں کے بعد ایک صحیح فیصلہ سنانے سے لوگوں کا عدالت پر اعتماد قائم ہوتا ہے جس کے نتیجے میں باقی فیصلے بادشاہ سلامت اپنی مرضی سے کرتے ہیں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے استاد مکرم انصاف مرحوم نے شفقت سے میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’دیکھو بیٹے، بیک وقت بادشاہ ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ عادل مشہور ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ آج کل بہت سے پسماندہ ممالک میں اس نوع کے تجربات کئے جا رہے ہیں۔ کہیں سیاست دانوں کی باہمی پھوٹ کام آتی ہے، کہیں بادشاہ سلامت کی راہ ایجنسیاں ہموار کرتی ہیں لیکن یہ طریقے فرسودہ ہو چکے ہیں اور ان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ ان دنوں تبدیلیاں عدالتی فیصلوں کے ذریعے عمل میں آتی ہیں، مہذب بادشاہتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے‘‘۔
یہ کہہ کر انصاف مرحوم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے حتیٰ کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے دلاسا دینے کے لئے ان کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا مگر اس کے نتیجے میں ان پر مزید رقت طاری ہوگئی۔ جب کچھ دیر بعد ان کی سسکیاں رکیں تو بولے ’’میں نے ابھی جو کچھ کہا غلط کہا، بکواس کی، انصاف اس طرح قائم نہیں ہوتا میری منکوحہ کو مجسٹریٹ درجہ چہارم لے اڑا اور حق دار کی یہ تبدیلی عدالتی عمل ہی کے ذریعے وجود میں آئی تھی۔ لعنت ہے مجھ پر میں کیا اول فول بک گیا!‘‘
میں نے دیکھا استاد کا گلاس خالی تھااور ایش ٹرے میں پڑا سگریٹ بھی بجھ چکا تھا۔ میں نے گلاس اور سگریٹ دونوں ’’بھر‘‘ کر استاد کو پیش کئے۔ استاد نے بھرے ہوئے سگریٹ کا سوٹا لگایا اورگلاس ’’ڈیک‘‘ لگا کر خالی کردیا۔ کچھ دیر بعد ان کے نتھنے کھلنے اور بند ہونے لگے اور ان کے مترنم خراٹے سنائی دیئے تو میں اٹھ کر چلا آیا۔ اس کے چند دنوں بعد استاد انتقال فرما گئے ان کی نماز جنازہ میں مجسٹریٹ درجہ چہارم نےبھی شرکت کی۔
استاد کے جنازے پر ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ ایک راہ گیر نے پوچھا کس کا جنازہ جا رہا ہے ایک شاگرد نے جواب دیا انصاف کا جنازہ جا رہا ہے جس پر مجسٹریٹ درجہ چہارم کے حکم پر پولیس نے جنازے کے شرکا پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔ (یہ پرانا کالم’’نہیں‘‘ ہے)