پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
بھاری معاوضہ مانگنے والے اداکاروں کو کرن جوہر کا چیلنج
ممبئی: بالی ووڈ کے نامور فلم ساز کرن جوہر نے بھاری معاوضہ مانگنے والے نئے اور کم تجربے کار اداکاروں کو کارکردگی دکھانے کا چیلنج دے دیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق فلم کمپینئین تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کرن جوہر نے انکشاف کیا کہ وہ نئے اور کم تجربے کار اداکاروں کے بڑھتے ہوئے معاوضوں سے تنگ آچکے ہیں۔
انہوں نے مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اُن نئے اداکاروں نے اپنے معاوضوں میں اضافہ کیا جو اپنی گزشتہ فلم نہ چلنے یا ناکام ہونے کے حوالے سے خوب جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرانے اور منجھے ہوئے اداکاروں کے ساتھ معاہدے سمجھ آتے ہیں کیونکہ اُن کی فلمیں باکس آفس پر راج کرتی ہیں مگر نئے فنکار جب بیس سے تیس کروڑ روپے معاوضے کی بات کریں تو یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔
کرن کا کہنا تھا کہ اگر کسی اداکار کو اتنا معاوضہ چاہیے تو وہ اپنی کارکردگی رپورٹ دکھائے اور خود کو باکس آفس پر کامیاب اداکار کے طور پر ثابت کرے، اس کے علاوہ کسی بھی وجہ سے اتنا زیادہ معاوضہ نہیں دیا جاسکتا۔
دھرما پروڈکشن کی جانب سے اداکاروں کو مسترد نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فلم ساز نے کہا کہ پروڈکشن ہاؤس کی بہتری کے لیے ہم کسی بھی فنکار کو انکار نہیں کرتے، جو بہت زیادہ غلط ہے، ہاں! مگر میں اپنے تکنیکی اسٹاف کو زیادہ پیسے دینے کا حامی رہا ہوں کیونکہ اُن کی وجہ سے ہی فلم بہت خاص ہوتی ہے۔
انہوں نے بغیر کسی پروڈکشن ہاؤس یا ہدایت کار کا نام لیے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کیوں کسی اداکار کو 15 کروڑ اور ایڈیٹر کو 55لاکھ روپے ادا کروں‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کرن جوہر کے پروڈکشن ہاؤس نے بالی ووڈ انڈسٹری کو عالیہ بھٹ، اننیا پانڈے، جھانوی کپور جیسے اداکار دیے جبکہ اب وہ سنجے کپور کی صاحبزادی شانایا کو بھی اپنی نئی فلم ’روکی اور رانی کی پریم کہانی‘ میں موقع دے رہے ہیں، جس میں عالیہ بھٹ اور رنویر سنگھ بھی اداکاری کرتے نظر آئیں گے۔
اس تقریب میں زویا اختر اور ریما کاگتی نے بھی گفتگو کی اور بتایا کہ فلم کی شوٹنگ کے دوران متعدد بار بجٹ کی کٹوتی کرنا پڑتی ہے،اس پریشانی کو اداکار نہیں سمجھتے اور وہ اپنے بھاری معاوضے کے مطالبے پر ہی اڑے رہتے ہیں۔