معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
خان صاحب بھی سمجھداری دکھاتے
آپ حیران ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں ہوا۔ یہ پہلا یا آخری وزیراعظم نہیں جو وزیراعظم ہوتے ہوئے یا سابق ہونے کے بعد نااہل ہوا ہو۔ نواز شریف صاحب اور گیلانی صاحب پہلے ہو چکے ہیں بلکہ نواز شریف تو دو دفعہ نااہل ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ اگر انہیں تیسری دفعہ موقع ملا تو وہ ہیٹرک کریں گے۔خیر عمران خان بھی بہت جلدی میں تھے اور میں نے اپنے جمعہ کے کالم کا اختتام بھی اس بات پر کیا تھا کہ خدا نے اچھی چیزیں اور انعام ان لوگوں کیلئے رکھ چھوڑے ہیں جو صبر اور انتظار کرتے ہیں۔ خدا تو قرآن میں فرماتا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ جب آپ صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے جو سامنے ہے۔
دنیا کے چند عظیم ناولوں میں سے ایک‘ گاڈ فادر کے مصنف ماریو پزو نے اسی ناول میں ایک جگہ لکھا کہ اگربدلہ لینا ہو تو ٹھنڈا کر کے بدلہ لو۔ مطلب جلدی نہ کرو۔اس کا اپنا سواد ہے کہ جس بندے سے آپ نے بدلہ لینا ہو اسے یاد ہی نہ رہے کہ آپ نے اس سے بدلہ لینا ہے۔ جب وہ آپ سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرنے لگے اور بھول جائے تو پھر پوری طاقت سے بدلہ لو۔ ایک تو وہ حیرانی میں مارا جائے گا اور دوسرا اس کی تیاری مکمل نہیں ہوگی جبکہ آپ پوری تیاری کے ساتھ وقت کا صحیح استعمال کر کے اس پر حملہ آور ہو کر اپنی مرضی کا دن‘ وقت‘ سال یا جگہ کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اس کے پیچھے بڑی فلاسفی ہے کہ انتقام جلدی نہیں لینا چاہیے کیونکہ آپ غصے میں ہوتے ہیں اور غصے میں آپ درست فیصلہ نہیں کرتے اور مارے جاتے ہیں۔
خیر عمران خان کو شدید غصہ تھا کہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے نکالا گیا۔ وہ جمہوریت صرف اسے سمجھتے ہیں جس میں وہ وزیراعظم ہوں‘ اگر وہ وزیراعظم نہیں ہیں تو پھر وہ 2014 ء کی طرح دھرنے دے کر سڑکوں پر اگلے چار سال گزاریں گے۔ وزیراعظم بن گئے تو ان کے نزدیک پارلیمنٹ ٹھیک ہوگئی۔عمران خان نے بھی وزیراعظم بننے کیلئے وہی گیٹ نمبر چار استعمال کیا جو شہباز شریف کرتے تھے۔خان صاحب ساڑھے تین سال بعد وزیراعظم کی کرسی سے اس طرح ہٹا دیے گئے جیسے نواز شریف کو ہٹا دیا گیا تھا تو وہ بھی پارلیمنٹ سے باہر چلے گئے۔ وہی مزاج اور رویہ کہ اگر میں اس پارلیمنٹ کا وزیراعظم نہیں ہوں تو نہ پارلیمنٹ اصلی ہے نہ وزیراعظم۔ اصلی پارلیمنٹ وہی ہوگی جس میں وہ وزیراعظم ہوں گے۔
خان صاحب اپنا بدلہ لینے پر تل گئے کہ اگر میں نہیں تو پھر کوئی نہیں۔ وہی رویہ جو ہندوستان میں افغان‘ پٹھان‘ ترک‘ ایرانی‘ عرب‘ سینٹرل ایشیا کے جنگجو دلی کے بادشاہوں کے ساتھ روا رکھتے تھے کہ فیصلہ تلوار کرتی تھی کہ نیا بادشاہ کون ہوگا۔ عمران خان بھی قدیم ہندوستان کے جنگجوئوں اور سرداروں والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں کہ بادشاہ اگر ہمارا ہوا تو تسلیم کریں گے ورنہ جنگ ہوگی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی دور اٹھا کر دیکھ لیں شاید ہی کوئی ایک آدھ بادشاہ سکون یا آرام یا مشترکہ رائے سے بنا ہو ورنہ فیصلہ تلوار کرتی تھی اور پھر جو جیتتا وہ ہارنے والے بادشاہ یا شاہی خاندان کو چن چن کر قتل کرتا تھا۔ بچوں تک کو قتل کیا جاتا یا آنکھوں میں سوئی پھروا دی جاتی تھی۔ ترک‘ افغان‘ پٹھان‘ عرب‘ ایرانی یا لوکل ہندوستانی راجپوت‘ مرہٹے‘ چوہان یا دیگر مارشل اقوام یہی کھیل کھیلتی تھیں کہ ہمارے قبیلے کا بادشاہ نہ ہوا تو جنگ ہوگی اور جنگ ہی ہوتی تھی۔انگریزوں نے اس خونی کشمکش کو روک کر جمہوریت کے ذریعے بادشاہ کی تبدیلی کا نظام متعارف کرایا‘ لیکن کیا کریں پاکستانیوں کا ڈی این اے بھی تو ان افغان‘ پٹھان‘ ترک‘ عرب‘ ایرانی یا سینٹرل ایشیا اور ہندوستان کی مقامی اقوام سے بنا ہے‘ لہٰذا ہمارے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ ہم آج بھی تلوار پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ ہم پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں پر لڑنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہزاروں سال سے ہمارے مزاج کا حصہ ہے کہ فیصلہ تلوار کرے گی۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عمران خان کیوں چھ ماہ یا سال پارلیمنٹ کے اندر انتظار نہیں کرسکتے؟ اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کا فورم وہی پارلیمنٹ ہے۔ ہر وقت لڑنے مرنے پر تیار یا لانگ مارچ کرنے سے ماضی میں کیا نتائج نکلے ہیں؟ ملک تباہی کے کنارے پہنچ چکا۔ میں اپنے دوست کاشف عباسی کے شو میں کہہ چکا ہوں کہ اس وقت اگر کسی کو دھیرے اور احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے تووہ عمران خان ہیں کیونکہ اگلی حکومت ان کی بننے کے زیادہ چانسز ہیں‘ لیکن خان صاحب کا وہی خیال ہے جو 1993ء میں نواز شریف کا تھا کہ ہر وقت جنگ کرنے سے وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچیں گے اور پھر 1997 ء میں وہ پہنچے بھی مگر صرف دو سال بعد 1999ء میں وہ لانڈھی جیل میں بیٹھے تھے۔
عمران خان کی توشہ خانہ والی سزا سے یاد آیا کہ سابق وزیراعظم گیلانی صاحب کے دور میں ایک طاقتور وفاقی وزیرسے اچھا تعلق تھا۔ صدر زرداری بھی ان پر مکمل بھروسا کرتے تھے بلکہ یوں کہہ لیں گیلانی صاحب نام کے وزیراعظم تھے‘ اختیارات وہی وزیر استعمال کرتے تھے۔ گیلانی صاحب بھی روز رات کو سونے سے پہلے اس وزیر کو فون کر کے پوچھتے تھے کل صبح ہم نے کیا کرنا ہے۔ وہ جو کچھ بتاتے وہی حکومت کرتی۔ ان دنوں عدالت سے زرداری کے ساٹھ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ بچانے پرحکومت کا میچ چل رہا تھا۔ سپریم کورٹ گیلانی صاحب سے خط لکھوانے پر تلی ہوئی تھی تو زرداری اور ان کے وزیراعظم اور وزیر ڈٹے ہوئے تھے۔ ایک دن ان وزیرصاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے فون اٹھا کر وزیراعظم ہاؤس بات کی۔ فون رکھا تو میں نے کہا: آپ نے مجھ پر اعتماد کر کے میرے سامنے اتنی اہم ذاتی بات کر دی۔ مجھے چپ رہنا چاہئے لیکن میرا خیال ہے آپ جو کرنے جارہے ہیں اس سے آپ کو ذاتی نقصان ہوگا اور آپ جس غلط یا درست کاز کیلئے لڑ رہے ہیں یا زرداری صاحب نے آپ کو جو ڈیوٹی سونپی ہے اسے شدید نقصان ہوگا۔ مجھے لگا آپ اپنے چھوٹے بھائی کو شریعت کورٹ کا جج لگوا رہے ہیں۔ کل یہ خبر باہر ہوگی۔ سپریم کورٹ فوراً اس پر سوموٹو لے کر انہیں ہٹا دے گی۔ آپ پر تنقید کا ملبہ گرے گا کہ اپنے خاندان کے لوگوں کو جج لگوا رہا ہے۔ آپ اپنی کمزوری کیوں مخالفوں کو دے رہے ہیں؟انہوں نے ایک لمحے کیلئے مجھے دیکھا اور فون اٹھا کر وزیراعظم ہاؤس فون کیا اور کہا: ابھی نوٹی فکیشن جاری نہ کریں اور پھر وہ نوٹی فکیشن کبھی جاری نہ ہوا۔یہی بات عمران خان پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ جب آپ خود فرماتے تھے کہ آپ بڑے بڑے مافیاز کیخلاف لڑ رہے ہیں‘امتِ مسلمہ کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ پاکستان اور پاکستانیوں کو عظیم قوم بنائیں گے‘ اس ملک سے اقربا پروری‘ کرپشن اور لوٹ مار ختم کریں گے اور کسی کو دھیلا بھی نہیں بنانے دیں گے تو پھر آپ کو اپنے گھر کی حفاظت کی زیادہ ضرورت تھی کہ کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جس سے لاکھوں لوگوں کا اعتماد ٹوٹے یا آپ کے دشمنوں کو موقع ملے کہ وہ آپ کو کرپٹ ثابت کریں۔ آپ کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی کہ آپ تو خود کو ایمانداری کا مینار سمجھتے ہیں‘ لوگ آپ کو آخری امید سمجھتے ہیں۔ خود آپ کو‘ آپ کی بیگم صاحبہ اور قریبی دوستوں کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے تھی تاکہ آپ جس کاز کیلئے لڑ رہے ہیں وہ کمزور نہ پڑے‘ لوگوں کا اعتماد نہ ٹوٹے‘لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘ ہیرے جواہرات یا گھڑیاں دیکھ کرآنکھیں چندھیا گئیں۔ گوتم بدھ کا قول یاد آتا ہے کہ انسان خود اپنا دشمن ہے۔اس کی خواہشات اس کی دشمن ہیں۔ آپ بھی اپنی خواہشات پر قابو پاتے‘ بیگم صاحبہ کو بھی منع کرتے تو آج نااہل نہ ہوتے۔ آپ ان سب سے مختلف ہونے کا دعویٰ تو کرتے رہے لیکن وقت پڑنے پر وہی چند کروڑ کا کھیل کھیل گئے۔جتنی سمجھداری میرے اس وزیر دوست نے دکھائی تھی کاش خان صاحب بھی دکھاتے۔