معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سڑکوں پر لیٹنے کا شوق
صحافت ہمیشہ سے مشکل کام رہا ہے۔ کوئی اپنے بارے بری باتیں نہیں سننا چاہتا۔ کوئی ایکسپوز ہونا پسند نہیں کرتا۔ ہاں طاقت سب چاہتے ہیں۔ حکمرانی سب کرنا چاہتے ہیں۔ اگلے روز ایاز امیر کا انٹرویو سن رہا تھا کہ انہیں پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا کہ ہتھ ہولا رکھیں۔
ایاز امیر کو جب سے پڑھنا اور پھر پچھلے کچھ برسوں سے سننا بھی شروع کیا تو انہوں نے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہاتھ کسی پر بھی ہولا نہیں رکھا۔ وہ خود پر بھی ہاتھ ہولا نہیں رکھتے۔ طالبان کے عروج میں‘ جب ہمارا باقی میڈیا اور پارلیمنٹیرینز تک ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے گھبراتے تھے‘ ایاز امیر نے اُس وقت بھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ایک دھواں دھار تقریر کر دی تھی تو پھر کہاں کا خوف اورکہاں کا ہاتھ ہولا رکھنا۔ایسے بعض دانشور یا صحافی ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں جہاں کی حکومتیں اُن کی زبان بندی کیلئے ان پر تشدد نہیں بلکہ دیگر مہذب طریقے تلاش کرتی ہیں یا پھر اُنہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں۔ کسی نے برطانیہ میں رابرٹ فسک پر تشدد نہیں کیا کہ کیوں ہماری مڈل ایسٹ پالیسی پر روز تنقید کرتا ہے یا امریکہ میں نوم چومسکی کو کسی نے نہیں مارا کہ کیوں ہمارے پیچھے پڑ گئے ہو۔ پاکستان میں اس فہرست میں ایاز امیر جیسے صحافی ٹاپ پر آتے ہیں۔ اس عمر اور اس کلاس کے بندے کے ساتھ یہ سلوک کسی کو زیب نہیں دیتا۔ معاشرے کو چند سر پھروں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اور قدرت اس رول کے لیے کسی نہ کسی کو آگے کر دیتی ہے۔
لیکن کیا کریں یہاں ہر کوئی ہر صحافی کو ذاتی ملازم بنانا چاہتا ہے۔ وہی جارج بش والی بات کہ آپ ہمارے دوست ہیں یا ہمارے دشمن۔ درمیان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ مجھے ان برسوں میں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی حکومت نے کسی کو غیر جانبدار یا آزاد صحافی رہنے دیا ہو یا اس کی آزادی یا ایمانداری کا احترام کیا ہو۔ اسلام آباد ویسے بھی صحافیوں کے لیے مشکل سٹیشن ہے۔ یہاں کئی پاورفل سرکل ہیں جو آپ کو اپنا بنانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے ہی ذہن بنا کر اس شہر میں آئے ہیں کہ صحافت ایک سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آپ نے اقتدار میں اپنا حصہ لینا ہے تو یہ سب سے آسان کام ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کوئی طاق ور حلقہ یا حکمران کیونکر آپ کو اپنے قریب آنے دے اور آپ کو اپنے دربار میں جگہ دے؟ اس کے لیے آپ کو بہت محنت کرنا ہوگی یہاں تک کہ حکمرانوں کو احساس ہو جائے کہ آپ ان کا بہت زیادہ نقصان یا فائدہ کر سکتے ہیں۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کی حیثیت اور مقام متعین کیا جاتا ہے یا آپ اپنی حیثیت خود بناتے ہیں۔
میرے جیسے دیہات سے آئے لوئر مڈل کلاس کے لوگ بہت جلد حکمرانوں یا طاقتور لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں‘ جسے گائوں میں قریبی تھانے کا سپاہی بھی سلام کا جواب دے دے تو وہ پورے گائوں کو آگے لگا دیتا ہے اور یہاں آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہی صدر یا وزیراعظم کے ساتھ ہوتا ہے اور یوں اکثر صحافی ساری عمر یکطرفہ وفاداری کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ اور یہیں سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سبھی حکمران ہمیشہ سب سے ہتھ ہولا رکھنے کی امیدیں رکھتے ہیں اور جو کوئی امید پر پورا نہ اترے تو پھر اُس کا حشر بھی برا ہوتا ہے۔ اکثر برا حشر انہی لوگوں کا ہوتا ہے جو ہاتھ ہولا نہیں رکھتے اور صحافت کرتے ہیں۔ یہ بڑا پرانا سوال ہے کہ کیا صحافیوں کو سیاسی پارٹیوں کے سیمینارز یا جلسوں میں جا کر تقریریں کرنی چاہئیں؟اس طرح کا ٹرینڈ ضیا الحق کے مارشل لاء میں زیادہ چلا جب سیاسی پارٹیاں نظریاتی بنیادوں پر کھڑی تھیں اور ابھی ان کے اندر روپے پیسہ کا کھیل شروع نہیں ہوا تھا۔اس وقت سب یہی سمجھتے تھے کہ سیاسی پارٹیاں سیاسی جدوجہد کررہی ہیں اور ان کا ساتھ دینا صحافیوں اور دانشوروں کا کام ہے۔ اس وقت کے بڑے بڑے صحافی ان سیمینارز میں جا کر ان لیڈروں کی پارٹیوں کو ان کی کوتاہیوں بارے بتاتے تھے جیسے ایاز امیر نے پچھلے ہفتے عمران خان کو بتانے کی کوشش کی۔ یہی اصل کلچر تھا جس سے ایاز امیر کی نسل کے صحافی یا کالم نگار واقف تھے۔اُس وقت بڑے صحافیوں کو سیاسی جماعتیں سیمینارز میں بلانا فخر سمجھتی تھیں کہ وہ ان کے لیڈروں کی سرعام کلاس لیتے تھے۔ یہ لیڈرز بھی بڑے سمجھدار ہوتے ہیں کہ ایسا تاثر دے رہے ہوتے ہیں جیسے وہ اب کی دفعہ وزیراعظم بنے تو وہی کچھ کریں گے جو انہیں سٹیج سے بتایا جارہا ہے۔ یہ ڈرامہ دو تین گھنٹے تک جاری رہتا ہے‘ جب تک سیمینار ختم نہ ہو۔ اس کے بعد جب واپس اقتدار ملتا ہے تو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے حکومت چھوڑ کر گئے تھے۔ مجھے یاد ہے ملتان میں بینظیر بھٹو اس طرح کے سیمینارز اقتدار سے باہر ہونے کے بعد منعقد کرواتی تھیں جن میں سرائیکی علاقوں کے مسائل پر بات ہوتی اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے نعرے لگتے۔ انتہائی محترم صحافی مظہر عارف اور دانشور استاد ڈاکٹر انوار احمد کوان سیمینارز میں خصوصاً خطاب کی دعوت دی جاتی تھی کیونکہ دونوں بہادری سے کسی بھی لیڈر کے منہ پر کھری کھری سنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سب ان کی باتوں کی داد دیتے۔ پھر کیا ہوتا؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔
شریف خاندان کی ایک اچھی بات رہی ہے کہ انہوں نے ان سیمینار ٹائپ ڈراموں پر کبھی یقین کیا نہ ایسے سیمینارز کروائے کہ کوئی ان کو ان کے منہ پر کھری کھری سنائے اور انہیں کچھ دیر کی اداکاری کرنی پڑے کہ وہ ان کی باتوں سے بڑے متاثر ہورہے ہیں اور آئندہ کے لیے قسمیں اٹھائیں کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔
مزے کی بات ہے کہ سب حکمرانوں کو ان آزاد صحافیوں کی آزادی اپنے اپوزیشن کے دنوں میں اچھی لگتی ہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے ان کا رعب و دبدبہ دیکھے تو عام آدمی دنگ رہ جائے۔جو اِن کے لیے لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اس وقت انہیں آزاد نہیں بلکہ غلام میڈیا چاہیے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی حکمران یا وزیراعظم نہ سمجھ سکا کہ اگر اس نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنی ہے تو اسے دو تین اداروں کو کمزور نہیں‘ مضبوط کرنا چاہیے۔ پہلے وہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرے لیکن اگر پارلیمنٹ کی مضبوطی پر یقین نہیں رکھتی تو اسے میڈیا اور نظام عدل کو آزاد رہنے دینا چاہیے۔ اگر میڈیا اور نظام عدل بھی حکومت کے سامنے جھک جائیں یا انہیں جھکا دیا جائے تو اس سے ایک بری روایت پیدا ہو جائے گی اور حکومت کے سیاسی مخالفین بھی‘ جب انہیں موقع ملا تو ایسا ہی کریں گے۔اگر میڈیا اور نظام عدل آزاد ہو تو ممکن ہے کسی حکومت کو اپنے دورمیں مسئلہ ہو کہ میڈیااس کی گورننس کا بھانڈا پھوڑتا ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل اس کے مخالفین کو ہوگی۔ آپ یہی پیٹرن دیکھ لیں کہ جو وزیراعظم جس شاخ پر بیٹھا ہوتا ہے اسے ہی کاٹتا ہے اور دھڑام سے نیچے گر جاتا ہے۔ پھر اسے گلہ ہوتا ہے کہ ادارے اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ اداروں کو آپ نے کب مضبوط ہونے دیا؟ جیسے آپ نے اداروں کو غلام سربراہان عطا فرمائے‘ اسی طرح آپ کے مخالفین نے بھی چن چن کر ان جگہوں پر اپنے اپنے بندے لگائے۔
عمران خان بھی پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے‘ جیسے نواز شریف نے کبھی نہیں لیا۔ سیاسی رہنما پہلے پارلیمنٹ میں پہنچنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں‘ جیلوں میں جانا پڑے‘ جلاوطنی بھگتنی پڑے‘ لانگ مارچ‘ دھرنے یاجلسے جلوس کرنے پڑیں‘ اپنے کارکنوں کو استعمال کرنا پڑے‘ ڈیلیں یا خفیہ ملاقاتیں کرنا پڑیں‘ سب کچھ کریں گے۔ ایک دفعہ پارلیمنٹ پہنچ گئے تو پھر آٹھ آٹھ ماہ پارلیمنٹ کا رخ نہیں کریں گے۔عجیب مذاق ہے کہ پہلے وہ مشکل سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں‘ پھر اس کی رَج کر بے توقیری کرتے ہیں اور پھر ان کا پارلیمنٹ سے باہر جا کر سڑکوں پر لیٹنے کو دل کرتا ہے۔ جیسے کچھ عرصہ پہلے نواز شریف تو آج کل عمران خان یہ شوق پورا کررہے ہیں۔