پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کا جنون
انسانوں پر حکمرانی کرنے کا جنون اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود۔غور کریں وہ کیسا انسان ہوگا جس نے پہلی دفعہ اپنے جیسے انسانوں کو کہا ہوگا کہ وہ ان سے زیادہ سمجھدار‘ ہوشیار‘ ذہین اور تگڑا ہے۔ وہ سارے مل کر بھی خود اپنا خیال نہیں رکھ سکیں گے اور مارے جائیں گے یا تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ پھر ان سب کے ڈرے سہمے چہروں کو دیکھ کر اس چالاک انسان نے کہا ہوگا کہ آپ پریشان نہ ہوں‘ میں ہوں نا! میں آپ کو لٹنے دوں گا نہ ہی بھوکا مرنے دوں گا اور نہ ہی آپ کی عزت پر کوئی داغ آنے دوں گا۔ بس آپ لوگوں کو مجھے قبیلے کا سردار بنانا ہوگا‘ اپنا حاکم ماننا ہوگا‘ میں تمہیں دنیا میں عزت دلاؤں گا‘ تمہارا رہبر بنوں گا۔ میں ہی تمہاری کشتی پار لگائوں گا۔
اور پھر وہی انسان پہلے قبیلے کا سردار بنا اور آج اس انسان کو جمہوری زبان میں وزیراعظم کہا جاتا ہے۔ ویسے ان عام انسانوں نے کبھی نہ سوچا کہ جنہوں نے اپنے جیسے ایک بندے کو حق دیا کہ وہ ان کا سردار بنے‘ان کی زندگیوں کے فیصلے کرے‘ وہ آخر ان سب کا بھلا کیوں چاہتا ہے؟ وہ اپنا کاروبار‘ بچے اور فیملی چھوڑ کر ان کے بچوں کا اتنا سگا کیسے ہوگیا؟ اسے ان کے بچوں سے اتنی ہمدردی کیوں ہوگئی ؟ وہ کیوں ان کے بچوں کے مستقبل کا نام لے کر انہیں ڈراتا رہتا ہے؟حکمران بننے کے خواہشمند انسانوں کی یہی کامیابی ہے کہ وہ اپنے جیسے عام لوگوں کو چونا لگانے کا فن جانتے ہیں۔وہ لوگوں کو اپنی چرب زبانی اور ہوشیاری سے گھیر لیتے ہیں۔ ان کے خوابوں کو بیچتے ہیں اور معاوضے کے طور پر وہ ان سے قبیلے کی سرداری مانگتے ہیں۔
یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان آج کل ایک ہی بات دُہرا رہے ہیں کہ وہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملنا چاہتے ہیں‘لیکن آرمی چیف ملنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کو دن رات فکر کھائے جارہی ہے کہ پاکستان نیچے جارہا ہے اور اگر انہیں دوبارہ وزیراعظم نہ بنایا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا حشر ہو جائے گا۔یہ عظیم قوم بن سکتی ہے اگر عمران خان وزیراعظم ہو‘ لیکن خان اس وقت تک وزیراعظم نہیں بن سکتا جب تک وہ جنرل عاصم منیر سے مل کر انہیں قائل نہیں کر لیتا کہ ان کا وزیراعظم بننا ملک و قوم کیلئے کتنا اہم ہے۔عمران خان سے پہلے کسی سابق وزیراعظم نے کسی آرمی چیف سے اپیلیں نہیں کی تھیں کہ وہ ان سے مل لیں اور آرمی چیف نے انکار کر دیا ہو۔عمران خان پہلے سابق وزیر اعظم نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پہلی دفعہ وزیراعظم ہاؤس میں نئے تھے لہٰذا حکومت نہ چلا سکے‘غلطیاں ہوئیں اب وہ سمجھدار ہوگئے ہیں‘ اب کی دفعہ دیکھنا وہ کیا کیا کرتب کرتے ہیں؟زیادہ دور نہیں جاتے‘ یہی جنون پاکستان کے ایک اور پاپولر لیڈر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر بھی سوار ہوا تھا۔اگرچہ انہوں نے بطوروزیراعظم چار سال کے قلیل عرصے میں مشکل حالات میں بڑے کام کیے اور ملک کو نئی سمت دکھائی جو اکہتر کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بری حالت میں تھا۔لیکن بھٹو صاحب پر بھی وقت سے پہلے دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کا جنون سوار ہوا۔ انہوں نے بھی جلدی میں مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کرا دیے تاکہ دوسری دفعہ وزیراعظم بن کر ملک و قوم کی خدمت جاری رکھیں۔ ان کی جلدی انہیں لے ڈوبی۔ الیکشن میں ان پر دھاندلی کے الزامات لگے۔ اپوزیشن کو موقع مل گیا‘ تحریک شروع ہوئی اور اسی بھٹو کو دوسری دفعہ وزیراعظم کا حلف لینے سے پہلے ان کے اپنے جنرل ضیاالحق نے گرفتار کر کے پھانسی گھاٹ پہنچا دیا۔بینظیر بھٹو بھی 1993ء میں دوسری دفعہ وزیراعظم بنیں۔ اُس دور میں سوئس منی لانڈرنگ کیس بنا‘ ریڈ ورانٹ نکلے‘ عدالتوں سے سزا بھگتی‘ تیسری دفعہ 2007ء میں وزیراعظم بننے کیلئے امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے مشرف سے ڈیل کر لی لیکن حلف لینے سے پہلے ہی قتل ہو گئیں۔
بھٹو کے بعد ایک اور پاپولر لیڈر نواز شریف کو یہ شوق ہوا کہ جس لیول کی ملک و قوم کی خدمت وہ کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں کرسکتا۔ وہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا چاہتے تھے۔ انہیں بھی لگا کہ جب 1990-93ء میں وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے تو ناتجربہ کار تھے۔ انہیں صدر اسحاق خان نے حکومت نہیں کرنے دی۔ (جیسے خان صاحب کے بقول انہیں جنرل باجوہ نے نہیں کرنے دی)۔ انہیں بچہ سمجھ کر اُس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور جنرل آصف نواز نے چلنے نہیں دیا۔ اب اگر وہ دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو پاکستان کو سپر پاور بنا دیں گے۔ انہوں نے بھی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ سے ایسے ٹکر لے لی تھی جیسے آج کل عمران خان لیے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو ان کا بیانیہ پسند آیا اور انہیں 1997ء کے الیکشن میں دوبارہ وزیراعظم بننے کا موقع مل گیا۔ نواز شریف نے بھی یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں بہت بڑے کام کیلئے دوبارہ منتخب کیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ بڑا کام پاکستان میں پہلی دفعہ سرونگ آرمی چیف کی برطرفی تھا۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو فوج نے جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد بغاوت کی۔ دوسری دفعہ کا وزیراعظم اپنے بھاری مینڈیٹ سمیت گرفتار ہو کر پہلے لانڈھی جیل کراچی تو پھر اٹک جیل جا اٹکا اور ایک سال بعد دہشت گردی عدالت سے نااہل اور پندرہ سال کی سزا کا طوق اٹھائے سیاست سے دس سال کیلئے توبہ تائب ہو کر جدہ اور وہاں سے لندن جلاوطنی میں جا بیٹھا۔ اس ایک سال میں نواز شریف کیساتھ ایساکیاہوا کہ بندے کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔ کیاکریں یہ انسانوں پر حکمرانی کرنے کا نشہ ہی ایسا ہے کہ اس میں جان دینی بھی پڑتی ہے اور جان لینی بھی پڑتی ہے۔نواز شریف نے سبق پھر بھی نہ سیکھا اور 2013ء میں تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کیلئے تُل گئے۔ خفیہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ آخرکار کشٹ کاٹنے کے بعد وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ تین سال بعد ایک دفعہ پھر بیٹی اور داماد کے ساتھ جیل جا بیٹھے۔ اب سنا ہے کہ وہ چوتھی دفعہ پھر وزیراعظم بننے کیلئے تیاری پکڑ رہے ہیں کہ بہت جلد سپریم کورٹ سے نااہلی ختم کرانے کیلئے پٹیشن داخل ہوگی۔اب عمران خان بھی بھٹو‘ بینظیر اور نواز شریف کی طرح ایک دفعہ وزیراعظم بن کر راضی نہیں ہیں۔ وہ اپنا سفر وہیں سے سفر شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں نواز شریف 1997ء میں کھڑے تھے اور دو تہائی اکثریت لے کر پاکستان کے سیاسی وزیراعظم کی بجائے ‘ امیرالمومنین‘ بننا چاہتے تھے۔
ہم لوگ اکثر ایک فقرہ دُہراتے ہیں کہ انسان تاریخ سے نہیں سیکھتا لہٰذا تاریخ خود کو دُہراتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں سال سے پیدائشی انسانی نفسیات اور جبلتیں ایک جیسی ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کا انسان بھی انہی جبلتوں کا غلام تھا جن کے آج ہم ہیں۔ وہ جبلت چاہے محبت کی ہو یا نفرت یا اقتدار کی ہوس کی‘ یہ ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھی آج بھی ہے‘ لہٰذا انسان ہر دور میں وہی کام کرے گا جوہزاروں سال پہلے کرتا تھا۔ اسے تاریخ کا دہرانا کہہ لیں یا جبلتوں کے اثرات‘ لہٰذا ہزاروں سال بعد بھی تاریخ خود کو دہراتی رہے گی کیونکہ زمانے بے شک بدل جائیں لیکن انسانی جبلتیں کبھی نہیں بدلتیں۔اسی جبلت کے زیراثر بھٹو نے دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کیلئے جو خطرات مول لیے اور پھانسی جا لگے‘ وہی رسک نواز شریف نے مول لیے اور دہشت گردی کی سزا سن کر دس سال کیلئے جدہ جا بیٹھے۔ بینظیر بھٹو تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اب مجھے حیرانی نہیں کہ عمران خان بھی وہ سب خطرات گلے لگانے کو تیار ہیں جو بھٹو‘ بینظیراور نواز شریف کو جیل تک لے گئے۔ محمد خان جونیجو سمجھدار تھے جنہیں دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کا شوق نہ چرایا اور عزت کما گئے۔
بس اب کوئی جلدی سے عمران خان کو دوسری دفعہ وزیراعظم بنا دے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو‘ بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے بھی زیادہ جلدی ہے۔