بھارتی نصاب سے مغلوں کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی نکال دیا گیا

نئی دہلی: بھارت میں مرکزی وزرات تعلیم نے 11ویں جماعت میں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں تمام اسباق خارج کردیے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کے مرکزی وزارت تعلیم کے محکمہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے سیاسیات کی 11ویں جماعت کی نصابی کتابوں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالہ جات کو حذف کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ مولانا آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے، جو تحریک آزادی کے دوران اپنی جد و جہد کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے تقسیم ہند کے بھی سخت مخالف کی تھی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کے بھی مخالف تھے۔

اس سیاسیات سے متعلق نصابی کتاب کے پہلے باب کا عنوان ہے آئین، کیوں اور کیسے بنا۔ اس باب میں ترمیم کی گئی ہے اور جہاں دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاسوں میں مولانا آزاد کی شمولیت اور ان کے اہم کردار کے لیے ان کا نام کا درج تھا، اب اسے ہٹا دیا گیا ہے۔

نئی لائن ان لچھ اس طرح ہے ’’عام طور پر، جواہر لال نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل یا بی آر امبیڈکر ان کمیٹیوں کی صدارت کیا کرتے تھے۔‘‘ اس سے پہلے اس فہرست میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی سر فہرست تھا۔

واضح رہے کہ مولانا آزاد نے سن 1946 میں آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بھارت کی نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی تھی اور اس میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

مسلسل چھ برس تک کانگریس کے صدر کے طور کام کے دوران مولانا آزاد نے برطانوی کابینہ مشن کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک وفد کی قیادت بھی کی تھی۔

اسی نصابی کتاب سے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر سے متعلق حوالے بھی حذف کر دیے گئے ہیں۔ کتاب کے دسویں باب میں ‘آئین کا فلسفہ’ کے عنوان میں ایک جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ دفعہ 370 کو مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں منسوخ کر دیا تھا، جس سے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم ہو گئی۔

اس کے علاوہ بھارت کے بابائے قوم مہتما گاندھی کو سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس، جو بی جے پی کی مربی تنظیم ہے، سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے قتل کر دیا تھا، اسی لیے آر ایس ایس پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی تاہم اب حکومت نے نصابی کتابوں سے اس باب کو ہی ختم کر دیا ہے۔

مودی حکومت نے نصابی کتاب میں سن 2002 میں ہونے والے گجرات کے مسلم کش فسادات کا حوالہ نکال دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور ہندوؤں کی سخت گیر تنظیم آر ایس ایس پر عائد کی گئی پابندی کے اقتباسات کو بھی نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔