’’مولوی‘‘ ہرکولیس

آج مجھے امریکہ میں گزرے ہوئے اپنے ماہ وسال یاد آ رہے ہیں، امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور جو پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ’’ٹل‘‘لگا رہی ہے مگر ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔ سوری! پھونکیں کیا امریکہ تو تیز آندھیوں سے یہ چراغ بجھانے کی کوشش کر رہا ہے مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوا مگر دفعہ کریں ، امریکہ میں قیام کے دوران کیسی کیسی یادیں اس وقت میرا گھیرائو کئے ہوئے ہیں اور میں تصور میں اس وقت پاکستان نہیں بلکہ نیویارک کی ایک سڑک پر ہوں!

بلند و بالا عمارات ہیں اور یہ HUGE ڈیپارٹمنٹل اسٹورز جہاں سوئی سے لیکر ہاتھی تک دستیاب ہو سکتے ہیں۔ ڈانگوں سے ماپی جانے والی لمبی لمبی کاریں اور ان میں براجمان اسی سائز کے صاحبانِ کار :شام ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے مگر دکانوں کے نیون سائن ’’آن‘‘ ہیں۔ لوگ آ جا رہے ہیں اس وقت میں جس علاقے میں ہوں، اسے نیویارک کی میکلوڈ روڈ کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ قطار اندر قطار سینما نظر آ رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق اندر جاتے اور باہر آتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ باہر ’’سینما سکوپ‘‘ سائز کے بورڈ نظر نہیں آ رہے، جن پر سینما اسکوپ ایکٹرسوں کی تصویریں بنی ہوتی ہیں، ٹکٹ لینے کےلیے لوگ قمیضیں اور بنیانیں اتار کر ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار بھی نظر نہیں آتے بلکہ مرد اور خواتین ایک قطار میں بڑے سکون سے کھڑے ہیں۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مرد عورتوں کی موجودگی سے بے نیاز ہیں اور ان کے ہاتھ ’’علاقائی حدود‘‘ کی خلاف وزی نہیں کر رہے ٹکٹ ایک ڈ الر پچاس سینیٹ کاہے اور یہ سارے دن کے لیے ہے۔ چاہیں تو اس ٹکٹ میں تمام شو دیکھیں مگر لوگ اس سہولت سے صرف تب ہی فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اگر وقت کی کمیابی کے باعث وہ آدھی فلم چلنے کے بعد سینما پہنچتے ہیں تو اختتام دیکھنے کے بعد اس کا آغاز دوسرے شو میں دیکھ لیتے ہیں، ان میں سے کچھ سینمائوں میں ایکس ریٹ فلمیں چل رہی ہیں جو صرف بالغوں کے لیے ہیں اور یقین جانیں یہ واقعی بالغوں کے لیے ہیں۔

آج میرا موڈ صرف سٹلز STILLSدیکھنے کا ہے چنانچہ ایک سینما سے دوسرے سینما میں داخل ہو رہا ہوں، یہ کچھ بالغوں والی فلمیں ہیں مگر امریکہ میں دو سال کے قیام کے بعد اب یہ زیادہ انسپائر نہیں کرتیں۔ سینمائوں کا یہ ہے کہ معمولی درجے کے ہیں اور کسی زمانے میں اپنے لاہور اور کراچی میں ان سے بہتر سینما موجود ہوتے تھے ویسے فلم دیکھنے کا لطف بھی اپنے ہاں ہی آتا ہے، ٹکٹ لینے میں کامیابی پر احساسِ فتح، فلم میں رقاصہ پر پبلک کا لٹو ہونا اور پھرتبرک پیش کرنے کے لیے بڑھکیں لگانا، اوپر سے انٹرول کے دوران کو کا کولا، نان کباب، گنڈیریوں اور مونگ پھلی والوں کی یلغار …یہاں کیا ہے …ہر کوئی ایک حسینہ بغل میں دابے بیٹھا ہے اور صرف فلم دیکھتا ہے یا پھر کچھ بھی تو نہیں دیکھتا۔

میں STILLدیکھنے کے کاروبار سے فارغ ہو کر سڑک پر آ گیا ہوں مگر بقول میر درد؎

ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال

دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے

چنانچہ کئی کاروں کی ’’چرچرچر‘‘ کی آواز بیک وقت سنائی دیتی ہے اور ایک کار کی بریکیں مجھ سے دو قدم کے فاصلے پر پہنچ کر اپنے درست ہونے کا ثبوت دیتی ہیں میں، سڑک کراس کرتے کرتے رک جاتا ہوں۔

اندھے ہو نظر نہیں آتا :ایک چوڑی چکلی چھاتی اور 2×2سائز کی داڑھی والا امریکی کار کے شیشے فولڈ کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہے۔

اندھے ہو گئےتم، اندھا ہو گا تمہاراباپ، میں لکھنوی بھٹیارنوں کے انداز میں ہاتھ نچا نچا کر جواب آں غزل پیش کرتا ہوں جس پر یہ مولوی ہرکولیس ڈیش بورڈ میں ہاتھ ڈالتا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک چیز ہے جسے پستول کہا جاتا ہے اور کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر اس کا رُخ میری جانب کرتے ہوئے کہتا ہے؛

YOU WANT TROUBLE MAN?

انیسا کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر تم تشدد کے قابل نہیں ہوتو عدم تشدد کے قائل ہو جائو سو جب میں نے جان لیا کہ دِل ناتواں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو میں نے انگشتِ شہادت اور درمیان والی انگلی بند مٹھی سے باہر نکالی اور PEACEکا نشان بنا کر کھڑا ہو گیا یعنی یہ کہ ہر کولیس صاحب جان بخشی فرمائیے۔اسی اثنا میں پیچھے کا سارا ٹریفک جام ہو گیا تھا اور لوگ ہارن بجاتے جا رہے تھے اس پر مولوی ہرکولیس کچھ غصہ ضرورہوئے، اس نے پستول سمیت اپنا ہاتھ کھڑکی کے اندر داخل کرتے ہوئے کہا میں ان فرمودات کا اردو میں سلیس ترجمہ پیش کرتا اگر اپنی حمیت اور قارئین کے اخلاقی جذبات مجروح ہونے کا خدشہ نہ ہوتا جب فطرت کے اس ظالم مظہر کی کار آنکھوں سے ذرا دور ہوئی تو اس خاکسار نے انگشتِ شہادت، بند مٹھی میں سمیٹ لی اور صرف درمیان والی انگلی کھڑی کرکے بزعم خود اسے دکھائی جسے ابھی PEACEکا نشان بنا کر دکھایا تھا اس تازہ سگنل کا مطلب بھی قارئین کے گوش گزار کرتا اگر ایک بار پھر اخلاقی قدریں خطرے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا صرف اتنا جان لیں کہ مولوی ہرکولیس اگر وہ سگنل دیکھ پاتا تو مجھے دوبارہ PEACE کا نشان بنانے کی مہلت بھی نہ ملتی !