معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
عمران خان سے آٹھ سال بعد ملاقات
میری عمران خان سے آخری ملاقات 2014 میں ہوئی تھی‘ میں ان کے ساتھ بنوں گیا تھا‘ ریحام خان بھی ہمارے ساتھ تھی‘ یہ اس وقت تک صرف اینکر تھی‘ مسز خان نہیں بنی تھی‘ عمران خان 2013میں اگلے وزیراعظم کی حیثیت سے لانچ ہو چکے تھے۔
پرو فائلنگ کے عمل سے گزر رہے تھے اور میرا یہ تیس سال کا تجربہ ہے اپوزیشن اور حکومت دونوں کے دوست مختلف ہوتے ہیں‘ آپ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور سڑکیں آپ کا مقدر ہوتی ہیں تو آپ کو باغی‘ نیوٹرل‘ سیلف لیس ‘بے خوف مگر جذباتی اور بے وقوف لوگ درکار ہوتے ہیں لیکن آپ جوں ہی اقتدار میں پہنچتے ہیں تو دیگر ترجیحات کے ساتھ ساتھ آپ کے دوست بھی بدل جاتے ہیں۔
آپ کو پھر واہ واہ‘ سبحان اللہ اور کیا بات ہے جناب جیسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں اور یہ دوسری قسم کے لوگ کمال کاری گر ہوتے ہیں‘ یہ اقتدار کے کوریڈورز میں پہنچ کر سب سے پہلے وزیراعظم اور وزراء کے گرد خندق کھودتے ہیں اور بے وقوف جذباتی لوگوں کو خندق کی دوسری طرف دھکیل دیتے ہیں اور بے وقوف جذباتی دوسری طرف کھڑے ہو کر تھوڑی دیر حیرت سے محل کو دیکھتے ہیں۔
قہقہہ لگاتے ہیں اور پھر اپنے اپنے گھر روانہ ہو جاتے ہیں جب کہ کاری گر لوگ زومبیز کی طرح بچے دیتے رہتے ہیں اور یوں چند دنوں میں پورے صدارتی محل پر کاری گروں کا قبضہ ہوتا ہے اور یہ لوگ اس وقت تک وزیراعظم‘ صدر یا آرمی چیف کے کان‘ ناک‘ آنکھیں اور محسوس اور چکھنے کی حس بنے رہتے ہیں جب تک اقتدار کا میلا پوری طرح لٹ نہیں جاتا‘ 2014 میں بھی یہی ہوا۔
کاری گروں نے خان کا محاصرہ کیا اوربے وقوف جذباتی لوگوں کو خندق کی دوسری طرف دھکیل دیا‘ بہرحال ماضی لاش ہوتی ہے اور ہم جب تک اسے دفن نہیں کرتے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور اس لاش کو 4 جولائی کو عمران خان نے بھی دفن کر دیا اور میں نے بھی‘ فواد چوہدری نے میری عمران خان کے ساتھ ملاقات طے کی‘ میں آٹھ سال بعد بنی گالا گیا اور مجھے ایک گھنٹہ عمران خان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔
عمران خان حسب معمول جذبات اور ہائی اسپرٹ میں تھے‘ وہ اسی طرح فل انرجی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے‘ مجھے محسوس ہوا اقتدار کے پونے چار برسوں نے خان کو میچور بھی کر دیا ہے‘ اب انھیں اپنے الفاظ اور گفتگو کے وزن اور اثرات کا علم ہو چکا ہے‘ فواد چوہدری نے یہ فقرہ داغ کر گفتگو کا میچ شروع کرا دیا ’’مجھے چوہدری صاحب نے پچھلے ہفتے کہا تھا اقتدار سے نکلنے کے بعد پہلا ہفتہ مشکل ہوتا ہے اور آپ لوگوں نے وہ مشکل وقت گزار لیا ہے‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’جیل کے پہلے چوبیس گھنٹے اور اقتدار سے بے دخلی کے پہلے سات دن مشکل ہوتے ہیں‘‘۔
عمران خان ہنسے اور کہا ’’جیل کے 24 گھنٹے نہیں پورا ہفتہ مشکل ہوتا ہے‘ میرا ساتواں دن زیادہ مشکل تھا‘‘ خان صاحب نے اس کے بعد اپنے اقتدار کے پونے چار سالوں کے راز کھولنا شروع کر دیے‘ انھوں نے تسلیم کیا ہمارے پہلے دو سال مشکل تھے‘ ہم سے معیشت نہیں سنبھل رہی تھی لیکن ہم نے بہرحال جیسے تیسے معاملات کنٹرول کر لیے‘ ہم ملک کو ٹریک پر لے آئے‘ انھوں نے تسلیم کیا ہم احتساب کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے‘ چیئرمین نیب کسی اور جگہ سے ہدایات لیتا تھا‘ میں جب بھی آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور کراچی کے کرپشن کیسز کی بات کرتا تھا تو مجھے جواب دیا جاتا تھا آپ پنجاب سے عثمان بزدار کو ہٹا دیں‘ میں انھیں کہتا تھا پنجاب اور بزدار ایشو نہیں‘ ایشو کراچی ہے‘ یہ ملک کا فنانشل کیپیٹل ہے‘ ہم نے اسے صاف کرنا ہے۔
عمران خان نے دعویٰ کیا ہم نے تعمیراتی انڈسٹری کو ایمنسٹی دی تو ملک میں کنسٹرکشن کا بوم آ گیا‘ سیمنٹ‘ سریا اور اینٹیں تک مہنگی ہو گئیں‘ ملک میں مزدور اور مستری نہیں ملتے تھے لیکن کراچی میں کسی قسم کی تعمیراتی سرگرمی نہیں تھی‘ میں نے میٹنگ بلائی‘ اس میں سندھ کا چیف سیکریٹری بھی موجود تھا‘ کے ڈی اے کا چیئرمین بھی اور آباد (ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز آف پاکستان) کا سربراہ بھی‘میں نے کراچی میں کنسٹرکشن نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو آباد کے چیئرمین نے کراچی کے افسر کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’ہم جب تک اس شخص کو تین کروڑ روپے نہ دے دیں یہ فائل ہی موو نہیں کرتا‘ ‘میں نے چیف سیکریٹری‘ وزیراعلیٰ اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں سے پوچھا ‘ کسی کے پاس جواب نہیں تھا‘ میں نے یہ ایشو نیوٹرلز کے سامنے بھی اٹھایا لیکن مجھے جواب ملا‘ آپ بس بزدار کو ہٹا دیں۔
میں نے عمران خان سے پوچھا ’’آپ سے جب سب لوگ مطالبہ کر رہے تھے تو آپ نے عثمان بزدار کو کیوں نہیں ہٹایا؟‘‘ عمران خان کا جواب تھا ’’پنجاب میں تین گروپس تھے‘ میں تینوں میں سے کس کو وزیراعلیٰ بناتا؟ میں جس کو بھی وزیراعلیٰ بنانا چاہتا تھا دوسرا گروپ کہتا تھا آپ اسے نہ بنائیں‘ آپ بے شک عثمان بزدار کو رہنے دیں‘ میں جانتا تھا میں نے جس دن عثمان بزدار کو ہٹایا اس دن پنجاب میں وہی صورت حال ہو گی جو اس وقت ہے‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین سیاست دان تھے‘ آپ کے ان سے اختلافات کیسے ہو گئے؟‘‘
یہ ہنس کر بولے ’’ میں آپ کو جواب دیتا ہوں لیکن آپ 2000 کی بات سنیں‘ لبنان کے سعد حریری پاکستان آئے‘ شوکت عزیز نے مجھے اور سعد حریری کو میریٹ میں کھانا دیا‘ شجاعت عظیم بھی وہاں موجود تھے‘ شوکت عزیز نے کھانے کے دوران کہا ‘ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں افغانستان کی جنگ طویل ہو جائے‘ میں نے پوچھا کیوں؟
ان کا جواب تھا‘ ہمیں اس سے ڈالر ملیں گے‘‘ عمران خان رک کر بولے ’’یہ ہماری قومی پالیسی ہے‘ ہم ڈالرز کے لیے اس لیول تک چلے جاتے ہیں اور میں اس پالیسی کے خلاف ہوں‘میں اب آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں‘ میرا پہلا اختلاف افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے دوران ہوا‘ مجھے اشرف غنی نے تاشقند میں کہا‘ طالبان پاکستان سے دھڑادھڑ آ رہے ہیں‘ ہماری فوج کے پاس جدید اسلحہ ہے لہٰذا افغانستان میں تصادم ہو گا اور ہزاروں لوگ مر جائیں گے‘ آپ طالبان کو روکیں‘‘۔
عمران خان کا کہنا تھا ’’امریکا کو بھی افغانستان میں طالبان کی آمد پر تشویش تھی‘ ہمارے اداروں کا خیال تھا امریکا کے جانے کے بعد افغانستان میں کم از کم ایک سال لڑائی ہو گی‘ اللہ کا کرم ہوا افغان فورسز نے طالبان کے سامنے سرینڈر کر دیا اور طالبان امن کے ساتھ اقتدار میں آ گئے ورنہ وہاں جنگ چھڑ جاتی اورپاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ جاتیں‘ جنرل فیض حمید کے بارے میں غلط اطلاعات دوسرا ایشو بنیں‘ میرے دماغ کے کسی بھی کونے میں یہ بات موجود نہیں تھی میں جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بنائوں گا لیکن ہمارے دوستوں اور غیروں دونوں نے اسے پہلے افواہ بنایا اور پھر خبر اور اس خبر نے غلط فہمی کی دیوار کھڑی کردی‘‘۔
عمران خان کا کہنا تھا ’’میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو بھی خوف تھا میں جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنا دوں گا اور یہ خوف بلاوجہ تھا اور تیسری چیز نیوٹرلز شہباز شریف کو سپر جینئس سمجھتے تھے‘ ان کا خیال تھا یہ آ کر دودھ کی نہریں بہا دیں گے جب کہ میں انھیں سمجھاتا رہ گیا‘ ملک بڑی مشکل سے ٹریک پر آیا ہے‘ آپ اگر ان چوروں کو بٹھا دیں گے تو معیشت کا جنازہ نکل جائے گا‘یہ نہیں مانے اور آخر میں میری بات سچ ثابت ہوئی‘‘ میں نے پوچھا ’’اور 9 اور 10 اپریل کی درمیانی رات کیا ہوا تھا؟‘‘۔
یہ ہنس کر بولے ’’ٹیلی فون آئے تھے‘ میں نے کابینہ سے سائفر کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا آرڈر لیا‘ اینکرز سے ملا اور وزیراعظم ہائوس کے اندر آگیا تو میرے ساتھیوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں‘ ہمارے اسپیکر اسد قیصر کی کانپیں ٹانگ رہی تھیں‘ ان کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے‘ میں نے اسے کہا‘ کھڑے رہو‘ کچھ نہیں ہوتا لیکن اس کے اعصاب جواب دے گئے تھے اور اس کا کہنا تھا عدالتیں کھل گئی ہیں‘ ایمبولینس اور جیل کی گاڑیاں آ گئی ہیں اور میں ڈس کوالی فائی ہو جائوں گا یوں ہمارا اسپیکر ایک کال پر ڈھیر ہو گیا اور عدم اعتماد کام یاب ہو گئی ورنہ ہم نے اسمبلی کی کارروائی چار دن تک گھسیٹنے کا فیصلہ کیا تھا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ اب کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘۔
یہ ہنس کر بولے ’’ہم نے اگر الیکشن نہ کرائے تو ملک ڈیفالٹ کر جائے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی نظر میں کوئی وے فارورڈ‘ کوئی راستہ‘‘ عمران خان نے ہنس کر جواب دیا ’’صرف ایک آپشن‘ آپ نئے الیکشن کرا دیں‘ فریش مینڈیٹ ہی ملک کو بچا سکتا ہے‘ اس حکومت کے بس کی بات نہیں‘ یہ ملک کو ہر گزرتے دن پیچھے سے پیچھے لے جائے گی‘ آ پ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں‘ یہ کہاں تھا اور یہ آج کہاں پہنچ گیا؟ انڈیا نوے کی دہائی میں کہاں تھا اور یہ آج کہاں آ گیا جب کہ ہم کہاں تھے اور آج کہاں پہنچ گئے ہیں لیکن ہمیں شرم بھی نہیں آتی‘‘ میں نے پوچھا ’’ملک کو ٹریک پر واپس کیسے لایا جا سکتا ہے؟‘‘۔
عمران خان نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’صرف ایک چیز سے‘ اگر ساری ناکامیاں اور بدنامیاں وزیراعظم کی جھولی میں آ رہی ہیں تو پھر اختیار بھی اس کے پاس ہونا چاہیے‘ ہم جب تک وزیراعظم کو بے اختیار رکھیں گے‘ اسے بدنامیاں جمع کرنے پر لگائے رکھیں گے‘ اس وقت تک یہ ملک نہیں چل سکے گا‘‘میں نے پوچھا ’’آپ اس صورت حال کا ذمے دار کس کو سمجھتے ہیں؟‘‘ عمران خان نے پورے جوش سے جواب دیا ’’صرف ایک شخص کو‘‘ اور ہماری میٹنگ ختم ہو گئی۔