نیب ترامیم کیس: حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس میں وفاقی حکومت اور عمران خان کے وکلا کو دلائل کی سمری جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کل حالات ہی ایسے تھے کہ یقین نہیں تھا عدالت پہنچ سکوں گا، آج کل تو سوشل میڈیا بھی نہیں چل رہا کہ معلومات مل سکیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین مواد جمع کرائیں اگر فراہم کردہ مواد پر عدالت کسی نتیجہ پر پہنچی تو آگاہ کر دینگے، نیب ترامیم کیس کی آج 46 سماعتیں ہوچکی ہیں جس میں سے خواجہ حارث 26 اور مخدوم علی خان نے 19 سماعتوں پر دلائل دیے، مقدمے کو مزید نہیں لٹکانا چاہتے کیونکہ عدالتی چھٹیوں میں شاید بینچ بیک وقت یہاں دستیاب نہ ہو، نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث نیب ترامیم دیکھ کر بتائیں ان میں غلطی کیا ہے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ہے، خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے۔

اس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں کل تیسری ترمیم کی ہے، حکومت نے نیب قانون میں ریفرنسز واپس ہو کر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے پر ترمیم کی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے عمران خان کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ عدالت میں اٹھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے ہفتے ایک معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، آئینی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص نے اس قانون سے فائدہ حاصل کیا جس کو چیلنج کر رکھا ہے، عمران خان چاہتے ہیں جس قانون سے فائدہ وہ حاصل کر چکے اس سے کوئی اور مستفید نا ہو، تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ایک وزیراعظم نے عہدے سے فارغ ہونے پر اپنے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کیا۔

انہوں نے دلائل میں کہا کہ آئین اجازت نہیں دیتا کہ قانون سے ناقد شخص اسی سے فائدہ لے، نیب ترامیم کے خلاف کیس قیاس آرائیوں پر مبنی لمبی مشق ہے جبکہ حکومت نے کل جوائنٹ سیشن میں نیب ترامیم منظور کیں، صدر مملکت نے نیب ترامیم بغیر دستخط کے واپس کیں اور ان کو پارلیمنٹ نے دوبارہ منظور کیا، عمران خان نے نیب قانون پہلے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ نکتہ پہلے بھی بہترین انداز میں اٹھایا تھا کہ درخواست ٹھوس بنیادوں پر مبنی نہیں۔

اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ساری دنیا میں عدالتیں قوانین کو کالعدم قرار دیتی ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ اگر آپ تیسری ترمیم سے متاثر ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کر لیں، عدالتی فیصلے میں موجود ہے جس کے تحت عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کہتی رہی ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کی ہدایات دینے کا مقصد قانون کو آسان بنانا تھا تا کہ بہتری ہو۔

عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔