پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
نئے اور پرانے وزیر اعظم
جناب شہباز شریف وزیراعظم ہائوس میں براجمان ہو چکے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اُنہیں خادمِ پاکستان کہہ کر پکارا جائے۔ جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو خود کو خادمِ اعلیٰ کہتے، اور کہلاتے تھے۔ سینئر اخبار نویسوں کو دی گئی دعوتِ افطار میں جب نکتہ دان حبیب اکرم نے اُنہیں جناب وزیراعظم کہہ کر مخاطب کیا، توانہوں نے فی الفور ٹوکا، خادمِ پاکستان کہیے، حبیب اکرم کہاں ہار ماننے والے تھے، آئین پاکستان کی اوٹ لے لی، اور دوٹوک انداز میں کہا: مجھے اپنے آئینی نام ہی سے پکارنے دیجیے، توبہتر ہوگا۔ اس پر بات آگے بڑھ گئی۔ شہباز شریف کو وزیراعظم کہا جائے یا خادمِ پاکستان، سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ وہ کام پر یقین رکھتے ہیں‘ کام کام اور کام ۔ اس لحاظ سے موجودہ سیاستدانوں میں کوئی ان کا ہمسر نہیں ہے۔ ان کا دن علی الصبح شروع ہوجاتا، لیکن غروبِ آفتاب کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، وہ سترہ، اٹھارہ گھنٹے کام کرسکتے ہیں، اور کرتے پائے جاتے ہیں۔ اپنا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے سرکاری دفاتر میں دو چھٹیاں ختم کردیں، اعلان کیا کہ چھ دن کام ہوگا، صرف ایک دن تعطیل۔ ملازموں کو انکی یہ ادا پسند نہیں آئی۔ وہ احتجاج کررہے ہیں۔ ممکن ہے کسی دن انکے حال پر رحم آجائے تودو چھٹیاں بحال کردیں کہ کام کرنے کی نیت ہوتو پانچ دِنوں میں بھی چھ دِنوں کا کام کیا جا سکتا ہے، اور کام نہ کرنا ہوتو ساتوں دن دفتر کھول کر بھی ہاتھ پائوں ہلانے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پرکسی ستم ظریف نے یہ اطلاع بھی فراہم کردی کہ شہباز شریف ہفتے کے سات کے بجائے آٹھ دن کام کرنے پرغور کررہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں کارکردگی کی دھاک بٹھائی تھی، انکی ترجیحات سے اختلاف کرنے والے بھی انکی محنت اور لگن کا انکار نہیں کر پاتے تھے۔ تیزرفتاری کی دھوم چین تک پہنچی، اور اسے پنجاب سپیڈ کہہ کر رشک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
شہبازشریف جن حالات میں وزیراعظم بنے ہیں، وہ غیرمعمولی ہیں۔ انہیں سیاسی طاقت فراہم کرنے والے ان کے برادرِ اکبر نوازشریف بیرون ملک مقیم ہیں، ان کے ساتھ گزشتہ چند سال میں جو کچھ ہوا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ پاکستان کب آ سکیں گے، اور قومی سیاست میں بے خوف و خطر اپنا کردار کب ادا کرپائیں گے، اس بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شہباز شریف اور انکے اہلِ خانہ کے خلاف بھی متعدد مقدمات درج ہیں۔ وہ اورانکے بیٹے حمزہ شہباز طویل عرصہ جیل بھی کاٹ چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان کیخلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ حکومت ان کے خلاف جس طرح کارروائیاں کررہی تھی، اس سے صاف نظر آتا تھاکہ وہ انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے، وہ کسی بھی وقت وزیراعظم کا متبادل بن کر سامنے آ سکتے، اور کایا پلٹ سکتے ہیں۔ نیب کے ذریعے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو ایف آئی اے کو متحرک کردیا گیا کہ وہ براہِ راست وفاقی حکومت کے ماتحت تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر پریس کانفرنسوں میں گرجتے برستے رہے، برطانوی اداروں کو بھی معاملات میں Involveکرلیا، لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔ شہبازشریف کو برطانوی اداروں سے کلین چٹ مل گئی، منی لانڈرنگ کا کوئی الزام ان کے، اور ان کے بیٹے سلمان شہباز کیخلاف ثابت نہ ہوسکا۔ شہبازشریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے فرائض ادا کرتے رہے، یہاں تک کہ متحدہ اپوزیشن نے اُن کے سرپر وزارتِ عظمیٰ کا تاج رکھ دیا۔
تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوچکی، اس کے123 ارکانِ اسمبلی استعفے دے چکے، ان کا اجتماعی استعفیٰ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری منظور کرکے اپنا استعفیٰ داغ چکے، عمران خان قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کا منصب سنبھالنے سے انکار کے بعد اب سڑکوں پر ہیں۔ پشاور میں بڑا جلسہ کرچکے، اور اب رخ کراچی کی طرف ہے، پھر لاہور آئیں گے۔ ان کے حامیوں کا جوش و خروش دیدنی ہے، وہ بہرقیمت نیا انتخاب چاہتے ہیں، اور فی الفور چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے فوراً بعد تحریک انصاف کے مخالفین انہیں ماننے سے انکاری تھے۔ مولانا فضل الرحمن تو ایک دن کیلئے بھی اسمبلیوں میں بیٹھنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کی برملا خواہش تھی کہ فی الفور استعفے پیش کردیے جائیں، اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے، جوان کے معیار کے مطابق صاف اور شفاف ہوں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی جزوی طور پر مولانا کی ہم نوا تھیں، انتخابات پر ان کو اعتراض نہیں تھا، لیکن قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے پروہ تیار نہیں تھیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے پہلے ہی روز وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہہ کر پکارا، اور پھر یہ پھبتی ان کے ساتھ چپک کر رہ گئی۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں بلاشرکتِ غیرے، اکثریت حاصل نہیں تھی۔ انہیں متعدد چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانا پڑا، اور یوں ان کی مخلوط حکومت وجود میں آئی۔ تحریک انصاف اس بات پر بضد تھی کہ آئندہ انتخابات پانچ سال بعد ہوں گے۔ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ عمران خان اس یقین کا اظہار بھی بار بار کرتے تھے کہ 2023ء میں بھی وہی کامیابی حاصل کریں گے، اور 2028ء تک ان کا جھنڈا ایوانِ اقتدار پر لہراتا رہے گا۔
اب معاملہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکی۔ عمران خان اور ان کے پُرجوش حامی، جن کی تعداد لاکھوں کیا کروڑوں میں ہوگی، نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی تیرہ جماعتی مخلوط حکومت اس کوشش میں ہے کہ اسمبلی اپنی میعاد پوری کرے، انہیں معاملات کو سنبھالنے اور انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کرنا ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ کون اپنی کوشش میں کامیاب ہوگا۔
سابق وزیراعظم عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کوامریکی سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں امریکہ کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ ان کی حکومت کی کامیابیاں یا ناکامیاں زیر بحث نہیں رہیں۔ عمران خان حالات کو ایک نیا رخ دینے میں کامیاب نظرآئے ہیں‘ لیکن یہ کامیابی انہیں انتخابی کامرانی کی طرف بھی لے جائے گی، یہ کہنا آسان نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی بار اس طرح کے مناظر دیکھنے میں آچکے ہیں۔ بینظیر بھٹو جب 1986ء میں بیرون ملک سے واپس آئیں تو ان کا لاہور کے ہوائی اڈے پر جو استقبال کیا گیا، وہ بے نظیر تھا ، لیکن انہیں حالات کو ناخنِ تدبیر سے سنبھالنا پڑا۔ نظام سے ٹکرانے کے بجائے انہوں نے اس کے اندر جگہ بنائی، جناب عمران خان کو بھی اپنے احتجاج کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھنا ہے، تبھی وہ اسے ووٹ میں تبدیل کرسکیں گے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والے ہی کو ملک کا اقتدار سنبھالنے کا حق حاصل ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، الزام کچھ بھی لگایا جائے، دلائل جو بھی دیے جائیں، حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اپنے اتحادیوں کو جوڑے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وہ قائد حزبِ اختلاف کے طورپر اپنا کردار ادا کرتے، تومعاملہ مختلف ہوتا۔ انہوں نے امریکہ کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر الیکشن لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان کا بیانیہ ریاستی ضروریات اور مفادات سے کتنا ہم آہنگ ہے، اس پر ہر شخص کی رائے اپنی ہے، عمران خان کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج ہے، اور وزیراعظم شہباز شریف کو درپیش چیلنج بھی چھوٹا نہیں۔ پاکستانی ریاست اور سیاست کی بقا دستورِ پاکستان کی پیروی سے وابستہ ہے، جواس دائرے کو کراس کرے گا، وہ اپنی منزل کھوٹی کرے گا ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں/ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں