صدر مملکت کے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے بیان پر پی ڈی ایم رہنماؤں اور دیگر سیاستدانوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر عارف علوی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے کہا کہ صدر کے پاس ٹوئٹ کا آپشن نہیں، وہ عہدے سےمستعفی ہوں، کیا صدر یہ کہنا چاہتے ہیں ان کی ناک کے نیچے بلز پر کوئی اور دستخط کرتا ہے؟
مسلم لیگ (ن) رہنما عرفان صدیقی نے کہا اس معاملے پر صدر 2دن کیوں خاموش رہے، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ صدر کے بیان سے نیا پنڈروا بکس کھل گیا، ان بیان پارلیمنٹ اور عوام کی توہین، آفتاب شیر پاؤ نے کہا ملک کی بدنامی ہوئی، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا یہ بات ناقابل یقین ہے، صدر موثر انداز میں دفتری کام کرنے میں ناکام رہے۔
رانا ثناء نے کہا کہ معاملے مکمل انکوائری ہونی چاہیے، عملے سے کیا مراد ہے صدر واضح کریں۔دوسری جانب صدر علوی کے ٹوئٹ کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پی ٹی آئی نے قومی و عدالتی سطح پر صدرِمملکت کے مؤقف کی بھرپور تائید و حمایت کا اعلان کیا۔
ترجمان کے مطابق اہم ترین قانونی مسودہ جات کی توثیق کے عمل پر صدرمملکت کا مؤقف سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ہے۔
تفصیلات کے مطابق صدر مملکت کے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے بیان پر سیاستدانوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عارف علوی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کا کہنا ہے صدر علوی دو روز تک چپ کیوں رہے ،صدر نے منصب کی توہین کی۔استعفیٰ دیں اور گھر جائیں،جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایکس پر جاری پیغام میں کہا صدر کا بیان پارلیمنٹ ،ریاست ،قانون سازی اور قوم کی توہین ہے ۔ اس سے نیا پنڈور باکس کھل گیا۔
قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا صدر علوی دنیا میں ملکی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کےمرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری اور سینئر مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے کہا کہ صدر نے قومی جرم کا ارتکاب کیا ، ان کا کا تردیدی بیان ٹھوس نہیں بلکہ ٹھس لگتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کھل کر بات کریں، اگر بلوں سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات درج نہ کیے؟ بل ہاں یا ناں کے بغیر واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ عرفان صدیقی نے کہا کہ میڈیا پر خبریں آنے پر بھی وہ 2 دن کیوں چپ رہے؟ ڈاکٹر عارف علوی بولے بھی تو معاملہ اور الجھا دیا، اگر ان کا سٹاف بھی ان کے بس میں نہیں تو مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔
سابق وفاقی وزیر شیری رحمن نے ڈاکٹر عارف علوی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں انکی ناک کے نیچے بلز پرکوئی اور دستخط کرتا ہے؟ صدر کی وضاحت ان کے صدارتی منصب سنبھالنے کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے، اگر ایسا ہی ہے تو صدرکو اس عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا چاہیے، اگر آپ کا عملہ آپ کے کہنے میں نہیں تو آپ صدارتی منصب چھوڑ دیں۔
تحریک انصاف کی حکومت میں وہ صدر ہاؤس کو آرڈیننس فیکٹری کے طور پر چلاتے رہے، کیا اس وقت بھی آرڈیننسز پر کوئی اور دستخط کر کے واپس کیا کرتا تھا؟ صدر مملکت اپنے وضاحتی بیان کے بعد صدارت کے آئینی عہدے پر رہنےکے اہل نہیں رہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا اگر صورتحال واقعی ایسی ہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا ہے تو یہ ریاست پاکستان، پارلیمنٹ اور قانون سازی کیساتھ ساتھ 24 کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہے۔مشتاق احمد خان نے مزید کہا معاملات ایک دفعہ پھر عدالتوں میں جائینگے، ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے اس حال سے پاکستان کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے، اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی نے صدارت کے اہم منصب پر بیٹھ کر اپنے لیڈر سے بھی بڑا جھوٹ بولا ہے اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، پارلیمنٹ نے جو بل پاس کئے وہ کوئی ایک فرد کے خواہشات پر مبنی نہیں ہوتے ہے بلکہ ملکی اور قومی مفاد میں ہوتے ہے،پارلیمنٹ کے پاس شدہ بلز پر دستخط نہ کرنا یا انہیں روکے رکھنا بہت بڑی خیانت ہے انہیں فوری طور پر مستعفی ہونا چاہئے۔
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما و سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ صدر کی اگر رٹ باقی نہیں تو استعفیٰ ہی ان کیلئے باعزت راستہ رہ جاتا ہے۔