پاکستان ڈیجیٹلائزیشن سے معیشت میں 60 ارب ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہے

پاکستان ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے اپنی معیشت کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسلام آباد میں حال ہی میں وزارتِ منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کے زیر اہتمام ایک گول میز کانفرنس میں سٹیک ہولڈرز کو ڈیجیٹل تبدیلی کے چیلنجز پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔

کانفرنس کے اہم مقررین میں سے ایک اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) کے صدر عامر پراچہ تھے جنہوں نے ’پاکستان میں ڈیجیٹل تبدیلی کیلئے سفارشات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش کی۔

انہوں نے ڈیجیٹلائزیشن اور تکنیکی انقلاب کے امکانات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت ٹیکنالوجی اور اس سے جڑی خدمات سے حاصل ہونے والی آمدن کے لحاظ سے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیچھے ہے۔ ملک کے فری لانسنگ سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے باہنر ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ گوکہ پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسنگ معیشت ہے، تاہم آمدن پھر بھی کم ہے کیونکہ فری لانسرز دیگر ممالک کے مقابلے میں کم گھنٹے کام کر پاتے ہیں۔

عامر پراچہ نے پاکستانی فری لانسرز کو ضروری مہارتیں بڑھانے دنیا کے ساتھ مسابقت کے دوران بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت پر استوار کرنے کیلئے اپنی طاقت کا اندازہ ہو سکے۔

او آئی سی سی آئی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ای کامرس سیکٹر ملک کی ریٹیل مارکیٹ کا محض ایک فیصد ہے۔ تاہم رپورٹ میں بیان کردہ سفارشات پر عمل کر کے پاکستان نوجوانوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے اگلے سات سے آٹھ برسوں میں معیشت میں ممکنہ طور پر 60 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ میں فائبر آپٹک براڈ بینڈ کی رسائی، بہتر فور جی کوریج، اور فیصلہ سازی کے عمل کو بڑھانے کیلئے مصنوعی ذہانت سے متعلق پالیسی کی تشکیل کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) جیسے سرکاری محکموں کے لیے ڈیٹا اینالیٹکس ٹیکنالوجیز کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ مزید برآں، رپورٹ میں عالمی آئی ٹی کمپنیوں کو پاکستان میں اپنا کاروبار کرنے کی جانب راغب کرنے کے لیے جدید ترین سائبر سیکیورٹی قانون اور انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کے سخت نفاذ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

پاکستانی فری لانسرز کی آمدنی کو بہتر بنانے کے لیے جے ایس گلوبل آئی سی ٹی کے تجزیہ کار وقاص غنی کوکاسوادیا نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کو فعال فری لانسرز کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اوسط سالانہ آمدنی کو 10 ہزار ڈالر سے زیادہ تک بڑھانا ہو گا جس کے نتیجے میں اہم معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ انہوں نے تعلیم اور سرٹیفکیشن کی ضرورت پر بھی زور دیا، خاص طور پر تکنیکی شعبوں جیسا کہ کمپیوٹر پروگرامنگ، موبائل ایپ ڈویلپمنٹ اور لیگل یا فنانشل رائٹنگ وغیرہ۔ پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو عالمی معیار کے مطابق ایک جدید نصاب کے لیے تعاون کرنا چاہیے جس سے غیر ملکی کلائنٹس کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد مل سکے۔

کراچی میں مقیم ایک آئی سی ٹی ماہر کپیل کمار کا کہنا تھا کہ بہت سے فری لانسرز کے پاس اپنی مہارتوں کو بڑھانے اور خود کو مؤثر طریقے سے مارکیٹ کرنے کے لیے ضروری آلات اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت ڈیوٹی فری بلکہ درآمدات کے ذریعے کم قیمت لیپ ٹاپ اور آلات فراہم کرے۔

او آئی سی سی آئی کی رپورٹ میں پاکستان کے ڈیجیٹلائزیشن کے سفر کے لیے اہم چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جن میں متضاد پالیسیاں، تکنیکی مہارت کا فقدان اور پالیسی کے نفاذ میں خامیاں شامل ہیں۔ کانفرنس کے شرکاء نے زرمبادلہ کی ترسیل کے اہم مسئلے کے حل پر بھی زور دیا۔

ڈیجیٹل تبدیلی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے وزیر احسن اقبال نے او آئی سی سی آئی کی سفارشات کی حمایت کی۔ انہوں نے رپورٹ کے اہم نکات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے وزارت اور آئی ٹی سیکٹر کے نمائندوں پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا اور پاکستان کی طویل المدتی خوشحالی کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

احسن اقبال نے مصنوعی ذہانت پر ایک 15 رکنی قومی ٹاسک فورس بنائی تاکہ کاروبار، ترقی، گورننس، تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کو تیزی سے اپنانے کے لیے 10 سالہ روڈ میپ تیار کیا جا سکے۔