پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
پاکستانی بمقابلہ پاکستانی
لندن میں میرے میانوالی سے تعلق رکھنے والے دوست شعیب بٹھل کے پاس بہت کہانیاں ہیں۔ ایسی کہانیاں کہ آپ گھنٹوں سنتے رہیں اور کبھی بور نہ ہوں۔ شعیب کو کہا ہے کہ تم روزانہ ایک ڈائری ساتھ رکھا کرو یا شام کو گھر لوٹ کر کچھ پوائنٹس لکھا کرو۔ تم مجھے وہ کہانیاں سناتے رہنا اور میں انہیں باقاعدہ شکل دے کر لکھ دیا کروں گا۔ ایک کمال کتاب بنے گی‘ ان لوگوں کی جو نئی زندگی کی تلاش میں لندن آتے ہیں۔ ویسے لندن آنا آج کل خطرے سے خالی نہیں ہے۔ یہاں لندن میں مجھے جو بھی ملتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ میں پاکستان چھوڑ کر یہاں سیٹل ہونے آیا ہوں۔ ایک صحافی دوست نے تو سنجیدہ ہو کر پوچھ لیا کہ رؤف صاحب! سنا ہے آپ لندن میں اپنا کوئی کاروبار سیٹ کرنے آئے ہیں۔ میری بے ساختہ ہنسی نکلی۔ ترکش کافی میرے ہاتھوں سے گرتے گرتے بچی۔ وہ مسکرا کر بولے: سنا ہے آپ یہاں وکیلوں سے مشورے کرتے پھرتے ہیں۔ میں نے کہا: پھر تو آپ کے کل کے اخبار کی یہ لیڈ سٹوری بنتی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ بھائی جان میں بڑا عرصہ لندن رہا ہوں‘ اب بھی سات برس بعد آیا ہوں۔ برطانیہ یا کوئی بھی دوسرا ملک ہو‘ وہاں ایک دو ہفتے کے لیے تو رہا جا سکتا ہے‘ مستقل سیٹل نہیں ہوا جا سکتا۔ سیٹل ہونا ہوتا تو 2007ء میں یہیں رہ جاتا جب یہاں سے ایک میڈیا گروپ کے لیے باقاعدہ رپورٹنگ کرتا تھا۔ پاکستان لوٹنے لگا تھا تو انگریزی اخبار کے مالک نے یہیں مستقل طور پر رکنے کے لیے ورک پرمٹ کی پیشکش کی تھی‘ اچھی خاصی تنخواہ کے ساتھ۔ لیکن اپنا من پاپی تھا‘ لندن میں نہ لگ سکا۔
ایک اور تگڑے پاکستانی بزنس مین ملے تو پوچھنے لگے کب پاکستان واپسی ہے؟ میں نے تاریخ بتائی کہ فلاں تاریخ کو اسلام آباد واپسی ہے تو کہنے لگے: آپ واپس کیوں جارہے ہیں؟ آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کافی دیر تک مجھے سنجیدگی سے سمجھایا کہ میرا پاکستان جانا خطرے سے خالی نہیں‘ وہاں اترتے ہی میں گرفتار ہو جاؤں گا۔ میں نے کہا: چلو یار کوئی نہیں جہاں اور لوگ گرفتار ہیں تو میں بھی سہی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے جب وہ روم میں تھے اور انہیں پرویز مشرف دور میں اس وقت کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طارق سعید ہارون نے فون کرکے کہا تھا کہ ZA پاکستان واپس نہ آنا‘ پرویز مشرف اور جنرل امجد نے تمہیں گرفتارکرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ویسے چند دن بعد آنا تھا لیکن اسی شام فلائٹ لے کر واپس اسلام آباد پہنچ گئے کہ اپنے ملک کی جیل بھی قبول ہے۔ انہوں نے بڑے عرصے تک نیب کا سامنا کیا لیکن کبھی نہ پچھتائے کہ وہ واپس کیوں لوٹے تھے۔ آج ڈاکٹر ظفر الطاف لاہور میں دفن ہیں۔ خیر ہم سرائیکیوں کو پردیس راس نہیں آتا۔ پردیس تو ہمارا وِلن ہے۔ ہمیں مونجھ کھا جاتی ہے لہٰذا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان لوٹ گیا تھا اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اس فیصلے پر افسوس نہیں ہوا۔ آج بھی سمجھتا ہوں پاکستان سے بہتر ملک اور کوئی نہیں ہے۔ اچھا برا وقت ہر جگہ چلتا رہتا ہے۔ رہی کاروبار کی بات تو تنخواہ دار بندے ہیں‘ ہمارا کاروبار سے کیا لینا دینا اور وہ بھی لندن میں؟ خیر بات مذاق میں ٹل گئی۔
یاد آیا‘ کل ہی ایک دوست رضوان سلہری سے ملاقات ہوئی تھی جو یہاں خاصے مشہور وکیل ہیں۔ وہ بھی شعیب کی وجہ سے پرانے جاننے والے ہیں۔ شعیب خود سولیسٹر ہے لہٰذا اس کا حلقۂ احباب بھی اسی شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ رضوان سلہری صاحب خاصے سوشل انسان ہیں۔ پاکستان ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ شعیب ان کی خوبی بتانے لگا کہ وہ شاید واحد پاکستانی ہیں جو ہر کسی کی قانونی مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں اور جن مشوروں کی وہ تگڑی فیس لے سکتے ہیں‘ وہ بھی اپنے کولیگز یا دوستوں کو بلامعاوضہ پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان دو تین ہفتوں میں ایک بات کا گلہ بار بار پاکستانیوں سے سننے کو ملا کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے جبکہ بھارتی اس مقابلے میں بہت آگے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی سیٹل ہونے میں بہت مدد کرتے ہیں۔ خیر یہ ایک اور کہانی ہے جس پر کسی وقت تفصیل سے بات ہوگی کہ کس کا کیا قصور ہے اور یہ پاکستانی ایک دوسرے سے کیوں ڈرتے ہیں۔ ایک عجیب سا خوف اور ڈر دیکھا پاکستانیوں میں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگلا پاکستانی کہیں انہیں نقصان پہنچا دے گا۔ ان کے ساتھ فراڈ کرے گا۔ پاکستانی بھارتیوں کیساتھ کاروبار کر لیں گے لیکن اپنے پاکستانیوں کے ساتھ نہیں کریں گے۔ یہ دلچسپ چیز ہے جو میں نے نوٹ کی ہے لندن اور امریکہ میں کہ پاکستانی ایک دوسرے سے شاکی نظر آتے ہیں۔
مجھے اب تک کوئی ایسا نہیں ملا جس نے اپنے پاکستانی بھائیوں کا گلہ نہ کیا ہو۔ اکثر وہ پاکستانی زیادہ شکایت کرتے ہیں جو پاکستان سے نئے نئے لندن یا امریکہ سیٹل ہونے آتے ہیں۔ اپنے ساتھ وہ کچھ ڈالرز یا پاؤنڈز لاتے ہیں اور یہاں کاروبار کرکے سیٹل ہونا چاہتے ہیں اور ان کی فطری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زبان‘ کلچر اور ملک کے بندے کے ساتھ مل کر کاروبار کریں۔ اکثر پہلے سے سیٹل پاکستانی ریسٹورنٹس کے کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ سارا سرمایہ ان پاکستانیوں سے لے کر ایک سال بعد انہیں فارغ کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں کا تجربہ نہیں ہوتا۔ پہلے سے سیٹل پاکستانی برسوں سے سب سسٹم کو سمجھتے ہیں لہٰذا یہ نئے پاکستانی بہت جلد نقصان اٹھاتے ہیں اور پھر جا کر بھارتیوں سے ملتے ہیں۔ اکثر بھارتی پنجابی پاکستانیوں پر بھروسہ کر لیتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ بھارتیوں کا کاروبار ماڈل مختلف ہے۔ وہ کسی گیس سٹیشن پر اپنے بھارتی شہری کو رکھ لیں گے لیکن ساتھ میں اسے 20 فیصد شیئر دے کر ایک طرح سے اسے مالک بنا دیتے ہیں۔ اب وہ بندہ ملازم کے بجائے مالک بن کر کام کرتا ہے‘ نہ چوری کرتا ہے اور نہ ہی ہونے دیتا ہے کہ اسے پتا ہے کہ اب وہ اس شاپ کا شیئر ہولڈر ہے۔
پاکستانی ماڈل لیکن مختلف ہے۔ نیا پاکستانی وہاں پہلے سے سیٹل پاکستانیوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہوا ہے کہ انہیں اپنے ہی اوورسیز پاکستانی‘ جو اپنا بزنس چلا رہے تھے‘ نے کچھ عرصے بعد کاروبار میں نقصان کے نام پر فارغ کر دیا۔ اکثر ایسے پاکستانیوں کی جمع پونجی ضائع ہوئی۔ ایک پاکستانی جواد سلیم بھی ملا جس کے ساتھ یہ ہاتھ اپنے پاکستانیوں نے نیویارک میں کیا۔ پاکستانی کے ہاتھوں لٹنے کے بعد انہوں نے ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک بھارتی کمپنی کو فون کیا کہ انہیں نوکری چاہیے۔ انہیں کہا گیا کہ آ جائیں۔ آگے گئے تو وہ بھارتی پنجابی تھے۔ انہوں نے صرف اتنا پوچھا کہ آپ پاکستانی پنجاب کے پنجابی ہیں پھر تھوڑی دیر پنجابی میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ملازمت چھوڑیں اور انہیں اپنے ساتھ بزنس میں شریک کرکے ملکیت کا احساس دلا کر اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ جب میں ان سے ان کے دفتر میں ملا تو وہ دفتر میں اپنے مالک کی کرسی پر بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک سنجیدہ اور پیاری شخصیت کا مالک بندہ اندر آیا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا۔ نام بتایا اور وہ آرام سے میرے ساتھ ہی کرسی پر بیٹھ گیا جیسے وہ بھی میری طرح جواد سے ملنے آیا ہو۔ دو تین منٹ انہوں نے جواد سے کوئی کاروباری بات کی۔ کچھ دیر بعد اٹھ کر جانے لگے تو جواد کو کہا: یار دفتر سے پانی کی دو تین بوتلیں لے کر جا رہا ہوں۔ وہ چلے گئے تو میں نے پوچھا کون تھے؟ جواد نے مسکرا کر کہا: وہ اس بڑے بزنس کے مالک ہیں۔ میں حیران ہوا‘ جس نے جواد کو ملازم کی کرسی سے اپنی کرسی پر بٹھا دیا تھا‘ وہ دفتر سے پانی کی دو بوتلیں لے جاتے وقت بتا کر بھی گیا تھا۔ کہیں سے نہ لگا وہ مالک تھا۔ اب آپ بتائیں جواد سلیم ایسے شخص کے کاروبار کے لیے اپنی جان کیوں نہیں لڑائے گا؟