معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کمال کرتے ہیں پانڈے جی
سابق وزیراعظم عمران خان کو آخر احساس ہوگیا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی اس کا انہیں نقصان اور مخالفوں کو فائدہ ہوا‘ لہٰذا انہوں نے اب کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ امریکہ سے لڑنا نہیں چاہتے۔ امریکی سازش والی بات اب وہ بھول چکے۔ بس غلام اور ماسٹر والا تعلق نہیں چاہتے۔
اس سے ملتی جلتی بات جنرل ایوب نے کی تھی جب انہوں نے کتاب Friends Not Mastersلکھی تھی۔ شاید بھٹو بھی یہی چاہتے تھے‘ لیکن یہ سب لیڈر بھول گئے کہ امیر غریب یا طاقتور اور کمزور کی دوستی برابر کی نہیں ہو سکتی۔ یہ نعرہ سب کو بھلا لگتا ہے کہ امریکہ ہم سے برابری پر ڈیل کرے جیسے وہ انڈیا سے کرتا ہے۔ ہم امریکہ کے غلام تھوڑی ہیں۔ دنیا کی ہر قوم کی کوشش ہوتی ہے وہ امریکہ کے ساتھ ٹکر لے اور اسے بتائے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ اگر آپ نوٹ کریں تو جنگ عظیم دوم سے لے کر اب تک کئی قوموں نے امریکہ سے یہی سوچ کر ٹکر لینے کی کوشش کی۔ امریکہ کا کچھ نہیں بگڑا لیکن وہ قومیں تباہ و برباد ضرور ہوئیں۔ فہرست لمبی ہے۔ آپ لوگ فلم The Emperorضرور دیکھیں‘ کہ کیسے جاپانیوں نے یہ سمجھ کر امریکہ سے ٹکر لی تھی کہ وہ جاپان کی ہزاروں سالہ سمورائی روایات کے امین ہیں اور ان جیسا بہادر اس کرۂ ارض پر پیدا نہیں ہوا۔ شہنشاہ ہیرو ہیٹو کی کابینہ کے چند وزرا نے یہی لائن لی تھی کہ ہم بزدل تھوڑی ہیں‘ ہم کوئی امریکہ کے غلام ہیں۔ دو تین وزیروں نے اگر سمجھانے کی کوشش کی تو انہیں غدار اور بزدل سمجھا گیا۔ وہی ہوا‘ امریکہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا۔ پرل ہاربر پر جاپانیوں نے حملہ کیا‘ تین ہزار امریکی مار دیے۔ جواباً امریکہ نے دو ایٹم بم مارے۔ جرمن بھی خود کو بڑی بہادر قوم سمجھتے تھے۔ پورے یورپ کو آگے لگایا ہوا تھا۔ آج اسی جرمنی میں امریکہ کے اڈے ہیں۔ برطانیہ دنیا کی وہ سلطنت تھی جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج وہی برطانیہ سر جھکا کر وہی کچھ کرتا ہے جو اسے امریکی کہتے ہیں۔ تو کیا جاپان‘ جرمنی اور برطانیہ بزدل قومیں ہیں جو امریکہ کے آگے جھک جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں! ان سب کو اپنا نقصان اٹھانے کے بعد احساس ہوا کہ ان کا سارا مفاد امریکہ سے جڑا ہوا ہے۔ مفادات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ دوستی یا برابری کچھ نہیں ہوتی۔ یہ دوستیاں ہم عام انسانوں کی ہوتی ہیں‘ ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں لیکن ہمارے جیسے خطے کے لوگ ملکوں کے درمیان اس طرح دوستی چاہتے ہیں جیسے وہ عام زندگی میں عام لوگوں سے رکھتے ہیں اور اس میں گلی محلے یا سکول کی دوستی کی طرح ”کٹی‘‘ کرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ امریکہ کے ویتنام‘ افغانستان یا عراق میں ناکام جنگی تجربات یا شکستوں کا حوالہ دیں کہ انہیں وہاں عبرتناک شکست ہوئی۔ میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ مجھے بتاؤ امریکہ نے آخری دفعہ کب کسی ملک پر حملہ کر کے وکٹری کا دعویٰ کیا تھا؟ آخری وکٹری جنگِ عظیم دوم میں کلیم کی تھی جب جاپان اور جرمنی کو شکست دی گئی تھی‘ اس کے بعد حالیہ تاریخ میں تین بڑی جنگیں امریکہ نے ویتنام‘ افغانستان اور عراق پر مسلط کیں اور جاتے وقت ایک ہی رولا ڈالا ہوا تھا کہ ہم امریکن برباد ہوگئے‘ مر گئے‘ لٹ گئے‘ ہم ہار گئے۔ ہر جنگ کے اختتام پر ہزاروں مقامی لوگوں کو بموں سے مارنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد ایک ہی نعرہ سننے کو ملتا تھا کہ ہمیں شکست ہوگئی۔ یہ سب امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں لوگوں کو مارنے کے بعد یہ تسلیم کر لینا کہ انہیں شکست ہوگئی‘ ایک طرح سے ان قوموں کو تسلی دینا تھا کہ تم لوگ بالکل پریشان نہ ہونا بلکہ فخر کرنا کہ تم نے امریکہ جیسی قوم کو شکست دے دی۔ افغانستان کو ہی دیکھ لیں‘ کیا وہاں امریکہ کو شکست ہوئی؟ بیس سال تک وہیں بیٹھے چاند ماری کرتے رہے‘ چین اور روس کی سرحدوں پر جمے رہے‘ دنیا جہاں کا خطرناک اسلحہ وہاں استعمال کیا‘ ہزاروں لوگ مارے لیکن جاتے ہوئے کہہ گئے کہ ہم ہار گئے ان افغانوں سے اور جانے سے پہلے طیارے میں ملابرادر کو بھی قطر سے لا کر قندھار چھوڑ گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے امریکی نہ چاہتے تو ملا برادر قندھار پہنچ سکتے تھے یا طالبان کابل کے اندر داخل ہو سکتے تھے؟
اپنی مرضی سے انہوں نے افغانستان چھوڑا۔ اب آپ کہیں گے امریکی فوجی بہت مررہے تھے۔ کچھ اندازہ ہے ان بیس سالوں میں کتنے امریکی فوجی افغانستان میں مرے؟ ڈھائی سے تین ہزار ہوں گے۔ بیس برس کا حساب لگا لیں کہ روزانہ یا ماہانہ کے حساب سے کتنے فوجی مررہے تھے؟ اتنے فوجی تو جنگی مشقوں میں بیس سال کے عرصے میں مر جاتے ہیں۔ ایک امریکی فوجی کو مارنے کیلئے طالبان پچاس معصوم افغانوں کو بم سے اڑا دیتے تھے۔ اسی طرح عراق میں ہوا۔ وہاں مرضی سے امریکہ کا جتنا عرصہ دل کیا رہا‘ جاتے وقت وہی پرانی کہانی کہ ہم لٹ گئے‘ برباد ہوگئے‘ ہمیں شکست ہو گئی۔ اب حالت یہ ہے افغانستان میں قحط کا خطرہ ہے‘ پاکستان کے سب ڈالرز وہیں جارہے ہیں ورنہ ایک وقت تھا کہ افغانستان سے ڈالرز پاکستان آتے تھے کیونکہ بہت سے پاکستانی مزدور وہاں مزدوری کرنے جارہے تھے اور وہاں کنٹریکٹرز کے پاس بہت کام تھا۔ اب افغانوں کیلئے سب امپورٹ ہمارے ذمے ہے اور یوں پاکستان میں ڈالروں کی کمی ہوئی ہے جس کو سب مانتے بھی ہیں۔
ایک اور متھ ہے کہ امریکی بھارت کو مختلف انداز میں ڈیل کرتے ہیں۔ بھارت کی آزاد پالیسی ہے‘ وہ روس اور امریکہ سے برابری پر ڈیل کرتا ہے یا پوری دنیا اس کے نخرے اٹھاتی ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ پوری دنیا بھارت کی طرح پاکستان کے نخرے اٹھائے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا اس ملک کے نخرے کیوں اٹھائے جس کی کل برآمدات تیس ارب ڈالرز ہیں اور وہ بھی امریکہ اور یورپ نے اپنی مارکیٹوں میں ٹیکس پر رعایتیں دے رکھی ہیں تاکہ پاکستانی مال سستا ہو کر بک سکے۔ بھارت کے پاس 650 ارب ڈالرز کے قریب فارن ریزروز ہیں جبکہ پاکستان کے پاس مشکل سے دس ارب ڈالرز ہوں گے۔ بھارت کی صرف آئی ٹی ایکسپورٹ ایک سو تیس ارب ڈالرز بتائی جاتی ہیں۔ بھارت مڈل ایسٹ کا سب سے بڑا گاہک ہے تیل اور گیس کا اور ہم سب سے بڑے بھکاری ہیں۔ بھارت کے پاس ساٹھ کروڑ آبادی مڈل کلاس ہے جسے دیکھ کر دنیا کے ہر ملک کے بزنس مین کے منہ میں پانی بھر آتا ہے کہ وہ وہاں سے بہت بزنس لے سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر برانڈ وہاں اپنا کارخانہ اور شو روم کھولنا چاہتا ہے۔ ایپل وہاں اپنی پروڈکٹس بنارہا ہے۔ دنیا کا ہر برانڈ وہاں موجود ہے۔ مزید یہ کہ بھارت دنیا کو بزنس دیتا ہے جیسے فرانس سے ساٹھ ہزار کروڑ کے رافیل جہاز خریدے ہیں‘ اس سے بڑھ کر بھارت کی یورپ اور امریکہ کی آنکھوں میں اس لیے اہمیت ہے کہ وہ چین کے مقابلے پر کھڑا ہوا ہے۔ وہ چین کے ساتھ جنگیں لڑ چکا ہے۔ امریکی اور یورپی مفادات کا تقاضا ہے کہ بھارت کو چین کے مقابلے پر تگڑا کیا جائے لہٰذا بھارت روس سے سستا تیل خرید لیتا ہے تو وہ چپ رہنے پر مجبور ہیں۔ وجوہات کاروبار اور چین ہیں۔ کیا پاکستان چین کے خلاف یورپ اور امریکہ کے لیے اس طرح کا پراکسی بننے کو تیار ہے جیسے بھارت بنا ہوا ہے؟ ہم امریکی اور یورپی مفادات کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں تو یقین کریں یورپ اور امریکہ بھاگ کر آپ کو اپنا لیں گے اور اس سے بڑھ کر سلوک کریں گے جو وہ بھارت سے روا رکھے ہوئے ہیں۔نہ آپ کے پاس ڈالرز ہیں‘ نہ مڈل کلاس ہے‘ نہ آپ کے ایکسپورٹر کے پاس دنیا کو بیچنے کو کوئی مہنگا سودا ہے‘ نہ کیش پر آپ کوئی سودا یا تیل دنیا سے خرید سکتے ہیں‘ ہر وقت کشکول اٹھائے پھرتے ہیں لیکن دوستی اور تعلقات برابری پر چاہتے ہیں۔
کمال کرتے ہیں پانڈے جی آپ بھی۔