معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
پوٹھوہار کا عجائب خانہ
پچھلے دنوں میرے دوست کالم نگار شاہد صدیقی صاحب کی پوٹھوہار پر لکھی گئی کتاب ”پوٹھوہار خطۂ دل ربا‘‘ پر ایک تقریب تھی۔
میرے لیے حیرانی تھی کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے بڑے ہال میں سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ بہت سے پروفیسر صاحبان کے علاوہ طالب بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جو آخر تک ہال میں بڑی دلچسپی سے مقررین کی گفتگو تحمل سے سنتے رہے۔وہیں بیٹھے مجھے خیال آیا کہ دنیا کا آسان ترین کام بولنا اور مشکل کام کسی کو سننا ہوتا ہے۔ اس لیے جب بولنے کی میری باری آئی تو میں نے کوشش کی پانچ منٹ سے زیادہ بات نہ کروں۔ بک کارنر جہلم کے دوست گگن شاہد بھی موجود تھے اور ہال کے باہر ان کے سٹال پر رش دیکھ کر تسلی ہوئی کہ ابھی کتابوں سے محبت کرنے والے موجود ہیں اور بڑی تعداد میں ہیں۔اس مجمع میں گھرے شاہد صدیقی کو کتاب سے محبت کرنے والوں کو اپنی کتاب پر آٹوگراف دیتے دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی ہوئی اور اطمینان محسوس ہوا کہ یہ صدی کتابوں کی آخری صدی نہ ہوگی۔
تقریب کے بعد ایک اور شاندار ادیب عرفان جاوید سے اسلام آباد کلب میں ملاقات ہوئی انہوں نے بھی بڑی خوبصورت بات کی کہ یورپ میں کبھی کِنڈل بڑا مشہور ہوا تھا کہ ہاتھ میں ایک فون ٹائپ ڈیوائس پکڑ کر ڈیجیٹل یا ای بُکس پڑھیں۔ کچھ عرصہ تو اس کی دھوم مچی کہ چلیں جی کاغذ‘ کتابوں اور گھر میں الماریوں سے جان چھٹی۔ کتابیں گھر میں کہاں رکھیں گے‘ یہ قصہ پرانا ہوا۔ اب ہزاروں‘ لاکھوں کتابیں ایک چھوٹی سی ڈیوائس میں مل جائیں گی اور پڑھتے رہیں۔لیکن اب وہی یورپ کتاب کے لمس کو مس کررہا ہے۔ کنڈل کے ٹچ میں وہ محبت پیار یا خوشبو کہاں جو آپ کو کتاب کے لمس میں محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کے اوراق سے اٹھنے والی دھیمی اور میٹھی خوشبو آپ کو کسی اور جہاں میں لے جاتی ہے۔ آپ دونوں ہاتھوں سے کتاب پکڑے‘ نظریں کاغذ پر جمائے اور کرداروں میں گم جو محسوسات کا تجربہ کرتے ہیں وہ آپ کو کنڈل یا ای بکس میں نہیں ملتا۔اس لیے اب یورپ دوبارہ کتاب کلچر کی طرف لوٹ آیا ہے۔ عرفان جاوید کی باتوں سے یاد آیا کہ کچھ برس پہلے ای بکس اور ڈیجیٹل میڈیا نے کتابوں کی دکانیں بند کرا دی تھیں جس پر لوگوں کو خدشات لاحق ہوئے کہ کہیں یہ نئی صدی کتابوں کی آخری صدی ثابت نہ ہو۔مجھے یاد آیا کہ جب کبھی لندن جانا ہوتا تھا تو وہاں بڑی اٹریکشن آکسفورڈ سٹریٹ میں واقع دو تین منزلہ بک سٹور ”Borders‘‘ ہوتی تھی۔ وہاں آپ گھنٹوں گزار سکتے تھے اور کمال کی کتابیں ملتی تھیں۔ ایک سال پہلے لندن گیا تو ایک دوست ساتھ تھا۔ میں نے کہا: چل Borders چلتے ہیں۔ طویل واک کے بعد جب وہاں پہنچے تو دکان غائب تھی۔ یوں لگا جیسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ پریشان ہو کر کافی دیر ادھر اُدھر پھرتے رہے کہ شاید ہم غلط ایڈریس پر آئے ہیں لیکن پتا چلا کہ دکان کب کی بند ہوچکی ہے۔ شاید مزید خسارہ نہیں اٹھایا گیا اور کتابوں کی ایک اعلیٰ چین بند ہو گئی۔ کافی دیر تک وہاں افسردہ کھڑا رہا جیسے کوئی بڑا نقصان ہوگیا ہو۔ اب مگر کتابوں کی دکانوں پر جانا ہوتا ہے تو لگتا ہے نئی دکانیں کھل رہی ہیں۔ لوگ اب دوبارہ کتاب کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اب دکانیں پھیل رہی ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر رش بڑھ رہا ہے۔
ایک مِتھ رہی ہے جسے جان بوجھ کر ہمارے پبلشرز نے پروموٹ کیا ہے کہ لوگ کتابیں نہیں پڑھتے۔ مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ اگر کتابیں نہیں بک رہیں یا نہیں پڑھی جارہیں تو پھر پبلشرز اور بک شاپ اونرز کیسے اپنا گزارہ کررہے ہیں؟ چلیں مان لیا کہ ایک‘ دو سال وہ شوق سے کتابیں چھاپتے یا بیچتے رہے لیکن بیس تیس برس تک کون گھاٹے میں دکان چلا سکتا ہے؟مقصد وہی تھا کہ ادیب یا شاعر کو پیسے نہ دینے پڑیں۔ بس وہ اس میں خوش رہے کہ اس کی کتاب چھپ گئی۔ وہ بے چارا ڈر کے مارے پیسے نہیں مانگتا کہ کہیں پبلشر دوسری کتاب چھاپنے سے انکاری نہ ہو جائے۔ دنیا بھر میں پبلشرز ادیبوں کے پیچھے ہوتے ہیں‘ وہ نخرے کرتے ہیں‘ لاکھوں ڈالرز ایڈوانس لیتے ہیں اور ہمارے ہاں ادیب پبلشرز کے منت ترلے کررہاہوتا ہے۔ اکثر حضرات تو جیب سے پیسے دے کر کتابیں چھپواتے ہیں۔لیکن یقینا کچھ پبلشرز ہیں جو رائلٹی بھی دیتے ہیں اور ان کی چھاپی گئی کتابوں کے کئی ایڈیشنز چھپتے ہیں۔
لیکن میری یہ کنفیوژن اس دن دور ہوئی جب چار برس پہلے شاہد صدیقی وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تھے اور کتاب میلہ ہوا تھا۔ اس میلے میں گفتگو کا سیشن پبلشرز کے ساتھ بھی رکھا گیا تھا۔ شرکامیں پاکستان کے مشہور پبلشرز شامل تھے۔ انہوں نے اس سوال کو ایک ہی لائن میں ختم کر دیا کہ اگر کتابیں نہ بک رہی ہوتیں اور اس کاروبار میں پبلشرز اور کتب فروش کو پرافٹ نہ ہوتا تو وہ یہ کام کب کا بند کر چکے تھے۔ ان پبلشرز کا کہنا تھا کہ معیاری کتابیں آج بھی دھڑا دھڑ بک رہی ہیں۔ لاہور‘ جہلم اور کراچی کے پبلشرز جس طرح کی اعلیٰ کتابیں چھاپ رہے ہیں وہ اپنی جگہ ایک قابلِ تحسین بات ہے۔ راشد اشرف کو اس لیے کریڈٹ دیتا ہوں کہ وہ نوجوان ان نایاب کتابوں کو دوبارہ چھاپ کر نئی زندگی دے رہا ہے جو سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے چھپی تھیں۔ انہوں نے جس طرح پرانی کتابیں ہندوستان سے منگوا کر اردو ادب کی خدمت کی ہے اس پر انہیں انعام ملنا چاہئے بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جہاں ادیبوں کے لیے ہر سال انعام یا میڈل کا اعلان کرتی ہے‘ اس طرح پبلشرز کیلئے بھی انعام؍ ایوارڈ مختص کرے تاکہ پاکستان میں کتاب کے کلچر کو مضبوط کیا جائے۔ بلاشبہ جہلم کے دو بھائیوں نے کتابوں کی اشاعت کا نیا ٹرینڈ سیٹ کیا ہے جس کا پوری مارکیٹ پر اثر پڑا ہے کہ اب دوسرے پبلشرز بھی اپنی کوالٹی بہتر کرنے پر مجبور ہیں جس سے ریڈرز کو جہاں اچھی کتابیں مل رہی ہیں وہیں پروڈکشن کوالٹی بھی کمال کی ہوتی جارہی ہے۔
نوجوان ادیب عرفان جاوید سے لٹریچر پر بات ہونے لگی۔ جتنی محنت سے عرفان جاوید نے اہم خاکے لکھے ہیں وہ اپنی جگہ بڑا کام ہے‘ خصوصاً جو خاکہ انہوں نے شکیل عادل زادہ کا بازی گر کے نام سے لکھا ہے وہ اپنی جگہ ایک کلاسک ہے۔ میں نے کہا: عرفان بھائی! آپ کی باقی تحریریں اور کتابیں اپنی جگہ اہم ہوں گی لیکن جو محنت آپ نے اپنی حالیہ کتاب ”عجائب خانہ‘‘ پر کی ہے وہ کام آنے والے کئی برسوں تک یاد رکھا جائے گا بلکہ اگریہ کہا جائے کہ یہ کتاب اردو کی کلاسک کتابوں میں شمار ہوگی تو غلط نہ ہو گا۔ عرفان جاوید جو ایک بڑے لٹریری انسان کی طرح عاجزی و انکساری کا پیکر ہیں‘ فوراً کہنے لگے: کہاں آوازِ دوست اور مختار مسعود اور کہاں میری ادنیٰ سے کوشش۔ میں نے کہا: یقینا ہر کتاب کا تھیم اور ٹریٹمنٹ الگ ہوتا ہے‘ اس کا ذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے لیکن آپ کی کتاب ”عجائب خانہ‘‘ میں اتنا میٹریل اور طاقت ہے کہ یہ کلاسک کتاب جلد نہیں بھلائی جا سکے گی۔ میں نے آج تک ایسی کتاب اردو میں شاید ہی پڑھی ہو جس میں اتنی ساری کہانیاں‘ نئی نئی باتیں اور معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ آپ اس کتاب کے عجائب خانہ میں واقعی گم ہو جاتے ہیں۔ میں نے اب تک اس غیرمعمولی کتاب ”عجائب خانہ‘‘ کے چار ابواب پڑھے ہیں اور یوں لگتا ہے آدھی دنیا کی باتیں پڑھ لی ہیں۔خوشی ہے کہ روز روز نئی شاندار کتابیں چھپ رہی ہیں۔ ادیب شاعر لکھ رہے ہیں۔ بک رہی ہیں۔ شاہد صدیقی کی پوٹھوہار خطۂ دل ربا ہو یا عرفان جاوید کا عجائب خانہ‘ آپ ان میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ مارک ٹوئن کا فقرہ بار بار دہرانے کو دل چاہتا ہے کہ کتابیں ہوں‘ دوست ہوں لیکن ضمیر مردہ ہو تو زندگی بڑی خوبصورت ہے۔